Mufradat-ul-Quran - Al-Hajj : 36
وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ١ۖۗ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّ١ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ١ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَ : اور الْبُدْنَ : قربانی کے اونٹ جَعَلْنٰهَا : ہم نے مقرر کیے لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے شَعَآئِرِ اللّٰهِ : شعائر اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں خَيْرٌ : بھلائی فَاذْكُرُوا : پس لو تم اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهَا : ان پر صَوَآفَّ : قطار باندھ کر فَاِذَا : پھر جب وَجَبَتْ : گرجائیں جُنُوْبُهَا : ان کے پہلو فَكُلُوْا : تو کھاؤ مِنْهَا : ان سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْقَانِعَ : سوال نہ کرنے والے وَالْمُعْتَرَّ : اور سوال کرنے والے كَذٰلِكَ : اسی طرح سَخَّرْنٰهَا : ہم نے انہیں مسخر کیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر خدا مقرر کیا ہے ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر ان پر خدا کا نام لو جب پہلو کے بل گرپڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اس طرح ہم نے ان کو تمہارے زیر فرمان کردیا ہے تاکہ تم شکر کرو
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ لَكُمْ فِيْہَا خَيْرٌ۝ 0 ۤۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہَا صَوَاۗفَّ۝ 0ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۝ 0ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰہَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ 36 بدن وقوله تعالی: وَالْبُدْنَ جَعَلْناها لَكُمْ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ [ الحج/ 36] هو جمع البدنة التي تهدى. اور آیت کریمہ ۔ وَالْبُدْنَ جَعَلْناها لَكُمْ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ [ الحج/ 36] اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر خدا مقرر کیا ہے (22 ۔ 32) میں بدن بدنۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہدی یعنی قربانی کے ہیں جو حرم میں لے جاکر ذبح کی جائے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ صف الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ «1» . قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف/ 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه/ 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات/ 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات/ 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر/ 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج/ 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه/ 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ : ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف . ( صف ) الصف ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف/ 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه/ 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر/ 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات/ 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات/ 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج/ 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه/ 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔ وجب الوجوب : الثّبوت . والواجب يقال علی أوجه : الأوّل : في مقابلة الممکن، وهو الحاصل الذي إذا قدّر كونه مرتفعا حصل منه محال . نحو : وجود الواحد مع وجود الاثنین، فإنه محال أن يرتفع الواحد مع حصول الاثنین . الثاني : يقال في الذي إذا لم يفعل يستحقّ به اللّوم، وذلک ضربان : واجب من جهة العقل، کو جوب معرفة الوحدانيّة، ومعرفة النّبوّة . وواجب من جهة الشّرع کو جوب العبادات الموظّفة . ووَجَبَتِ الشمس : إذا غابت، کقولهم : سقطت ووقعت، ومنه قوله تعالی: فَإِذا وَجَبَتْ جُنُوبُها [ الحج/ 36] ووَجَبَ القلب وَجِيباً. كلّ ذلک اعتبار بتصوّر الوقوع فيه، ويقال في كلّه : أَوْجَب . وعبّر بالمُوجِبَات عن الکبائر التي أوجب اللہ عليها النار . وقال بعضهم : الواجب يقال علی وجهين : أحدهما : أن يراد به اللازم الوجوب، فإنه لا يصحّ أن لا يكون موجودا، کقولنا في اللہ جلّ جلاله : واجب وجوده . والثاني : الواجب بمعنی أنّ حقّه أن يوجد . وقول الفقهاء : الواجب : ما إذا لم يفعله يستحقّ العقاب «1» ، وذلک وصف له بشیء عارض له لا بصفة لازمة له، ويجري مجری من يقول : الإنسان الذي إذا مشی مشی برجلین منتصب القامة . ( و ج ب ) الوجوب ( ض ) کے معنی ثبوت کے ہیں اور واجب کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) ممکن کے بالمقابل ۔ یعنی وہ چیز جو ضروری الثبوت ہو اور اس کا ارتفاع فرض کرنے سے محال لازم آئے جیسے کہا جاتا ہے ۔ وجود الواحد مع وجود الاژنین واجب دو کے ساتھ ایک کا پایا جانا ضروری ہے ۔ ( 2 ) وہ کام جس کے نہ کرنے سے انسان قابل ملامت سمجھا جائے یہ دوقسم پر ہے ( الف ) واجب من جھۃ العقل جیسے اللہ کی واحدینیت اور نبوت کہ ان کی معرفت عقلا واجب ہے ( ب ) واجب من جھۃ الشرع یعنی وہ فعل جس کا وجوب شریعت سے ثابت ہو جیسے وجوب العبادات الموضفۃ یعنی فرضی عبادات کا وجوب وجبت الشمس کے معنی سورج کے گرنے یعنی غروب ہونے کے ہیں چناچہ معنی سقوط کے لحاظ سے فرمایا : ۔ فَإِذا وَجَبَتْ جُنُوبُها [ الحج/ 36] تو جب وہ اپنے پہلوں پر گر پڑیں ۔ وجب القلب وجوھا دل کا دھڑکنا اس میں بھی معنی سقوط معتبر ہے اور اوجب ( افعال ) بھی ان تمام معانی ہیں استعمال ہوتا ہے اور کبائر گناہ کو موجبات کہا گیا ہے کیونکہ ان کے ارتکاب سے دوزخ کا عذاب واجب ہوجاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ واجب کا ستعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک وہ چیز جس کا عدم ناممکن ہو جیسے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجوہ ہے دوسرے والجب اسے کہتے ہیں جس میں موجود ہونے کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہوا ور فقہا کا یہ کہنا ۔ کہ واجب وہ ہے جس کے نہ کرنے سے انسان عقوبت کا مستحق ہو تو یہ تعریف الشئی بالعوارض کے قبیل سے ہے ۔ کیونکہ استحقاق عقوبت اس کا وصف لازم نہیں ہے ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جس طرح کہ انسان کی تعریف میں کہا جائے مستقیم القامۃ والمسا شی علی الرجلین جنب أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال، ( ج ن ب ) الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ قْنَعَ رأسه : رفعه . قال تعالی: مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ [إبراهيم/ 43] وقال بعضهم : أصل هذه الکلمة من الْقِنَاعِ ، وهو ما يغطّى به الرّأس، فَقَنِعَ ، أي : لبس القِنَاعَ ساترا لفقره کقولهم : خفي، أي : لبس الخفاء، وقَنَعَ : إذا رفع قِنَاعَهُ کاشفا رأسه بالسّؤال نحو خفی إذا رفع الخفاء، ومن الْقَنَاعَةِ قولهم : رجل مَقْنَعٌ يُقْنَعُ به، وجمعه : مَقَانِعُ. ( ق ن ع ) القناعۃ اقنع راسہ اس نے اپنے سر کو انچا کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ [إبراهيم/ 43] سر اٹھائے ہوئے بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قناع سے مشتق ہے اور قناع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سر ڈھانکا جائے اس سے قنع ( س ) کے معنی ہیں اس نے اپنے فقر کو چھپانے کے لئے سر پر قناع اوڑھ لیا اور قنع کے معنی سوال کرنے کے لئے سر کھولنے کے ہیں جیسا کہ خفی ( س) کے معنی چھپنے اور خفٰی کے معنی خفاء کو دور کرنے یعنی ظاہر ہونے کے ہیض اور رجل مقتنع کا محاورہ قناعۃ سے ہے یعنی وہ آدمی جس کی شہادت کو کافی سمجھا جائے اس کی جمع مقانع عرَّ قال تعالی: أَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وهو المعترض للسّؤال، يقال : عَرَّهُ يَعُرُّهُ ، واعْتَرَرْتُ بک حاجتي، وَالعَرُّ والعُرُّ : الجرب الذي يَعُرُّ البدنَ. أي : يعترضه «3» ، ومنه قيل للمضرّة : مَعَرَّةٌ ، تشبيها بالعُرِّ الذي هو الجرب . قال تعالی: فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الفتح/ 25] . والعِرَارُ : حكايةُ حفیفِ الرّيحِ ، ومنه : العِرَارُ لصوت الظّليم حكاية لصوتها، وقد عَارَّ الظّليم، والعَرْعَرُ : شجرٌ سمّي به لحكاية صوت حفیفها، وعَرْعَار : لُعبةٌ لهم حكاية لصوتها . ( ع ر ر ) المتعر وہ ہے جو کچھ لینے کے لئے تمہارے سامنے آئے قرآن پا ک میں ہے : أَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ عرہ یعرہ کے معنی ہیں بخشش طلب کرنے کے لئے کسی کے سامنے آنا : ۔ اعتزرت بک حاجتی : میں نے اپنی ضرورت تمہارے سامنے پیش کی ۔ العروالعر : خارش کی بیماری کو کہتے ہیں جو بدن کو عارض ہوجاتی ہے اس مناسبت سے معرۃ کا لفظ ہر قسم کی مضرت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الفتح/ 25] مبادا انہیں ان کی طرف سے بیخبر ی میں کوئی نقصان پہنچ جائے ۔ العرار ۔ اس سنسنا ہٹ کو کہتے ہیں جو تیز ہوا کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے پھر تشبیہا نر شتر مرغ کی آواز کی ۔ العر عر ( شمشا د کی قسم کا ) ایک درخت جو ہوا کے چلنے سے گونجتا ہے عر عار : ایک قسم کا بچوں کا کھیل ( جس میں وہ یہ کلمہ بولنے ہیں تاکہ دوسرے بچے اپنے چھپنے کی جگہ سے باہر نکل آئیں ) سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ اشكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
Top