Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 79
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَۙ
مَا كَانَ : نہیں لِبَشَرٍ : کسی آدمی کے لیے اَنْ : کہ يُّؤْتِيَهُ : اسے عطا کرے اللّٰهُ : اللہ الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحُكْمَ : اور حکمت وَالنُّبُوَّةَ : اور نبوت ثُمَّ : پھر يَقُوْلَ : وہ کہے لِلنَّاسِ : لوگوں کو كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ عِبَادًا : بندے لِّيْ : میرے مِنْ دُوْنِ : سوا (بجائے) اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنْ : اور لیکن كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ رَبّٰنِيّٖنَ : اللہ والے بِمَا : اس لیے کہ كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ : تم سکھاتے ہو الْكِتٰبَ : کتاب وَبِمَا : اور اس لیے كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ : تم پڑھتے ہو
کسی انسان کا کام یہ نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ ‘ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو ‘ جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔
حضرت نبی ﷺ یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ عبد ہیں اور اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک رب ہے اور تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں ۔ اس لئے اس بات کا امکان ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے مقام ربوبیت کو مخصوص کریں ۔ کیونکہ مقام الوہیت کا تو پھر تقاضایہ ہے لوگ عبادت بھی نبی کی کریں ۔ اس لئے کوئی نبی لوگوں کو یہ نہیں کہہ سکتا کُونُوا عِبَادًا لِّی مِن دُونِ اللّٰہِ……………” تم اللہ کے سوا میرے بندے بن جاؤ۔ “ نبی کی دعوت تو یہ ہوتی ہے کہ کُونُوا رَبَّانِینَ……………” تم سب ربانی بن جاؤ۔ “ اس لئے کہ جس کتاب کا تم نے علم حاصل کیا ہے ۔ اس کی تعلیمات یہی ہیں ۔ اور جس کی تم تدریس کرتے ہو اس کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اس لئے علم کتاب اور تدریس کا یہ تقاضا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی ہو ‘ پس نبی کیسے لوگوں کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ وہ نبیوں اور فرشتوں کو اللہ کے علاوہ رب بنالیں ۔ اس لئے کہ نبی اسلام لانے کے بعد لوگوں کو کفر کا حکم کیسے دے سکتا ہے ۔ حالانکہ اس کا مقام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت دے ۔ یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت پانے کے بعد گمراہ کردے ۔ وہ اسلام کی طرف ان کا قائد ہے ‘ اسلام سے نکالنے کے لئے ان کا قائد نہیں ہے۔ اس فارمولے کے مطابق وہ بات محال ہوجاتی ہے ۔ جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ نیز ان کا یہ جھوٹ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ تمام آیات وروایات جو وہ پڑھتے ہیں اللہ اور رسول کی طرف سے ہوسکتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ جو بات کہتے ہیں اس کی حیثیت ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ اور وہ دعویٰ بےاعتبار ہوجاتا ہے جسے وہ بابار اسلامی صفوف میں شبہات اور خلجان پیدا کرنے کے لئے دہراتے ہیں ۔ اس لئے کہ قرآن کریم نے انہیں اچھی طرح ننگا کرکے رکھ دیا ہے ۔ اور وہ جماعت مسلمہ کے سامنے کھلے میدان میں ننگے ہوگئے ہیں ۔ ان لوگوں کی مثال بھی بعینہ ان اہل کتاب جیسی ہے جو علم دین کے مدعی ہیں جیسا کہ ہم اس سے پہلے بالتفصیل بیان کر آئے ہیں ۔ یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیات ان کے سامنے پیش کی جائیں ۔ کیونکہ یہ لوگ بھی قرآنی نصوص کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور انہوں نے بھی اللہ کے سوا کئی ارباب قائم کر رکھے ہیں اور وہ ہر وقت اس تاک میں لگے رہتے ہیں کہ آیات کو توڑ موڑ کر ان سے وہ مفاہیم نکالیں جو خود انہوں نے گھڑرکھے ہیں ۔ وَیَقُولُونَ ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَمَا ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ وَھُم یَعلَمُونَ ” وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا ‘ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ “ اس کے بعد تمام رسولوں اور رسالتوں کے قافلہ ایمانی کے درمیان ‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کے حوالے سے ‘ ایک مضبوط رابطے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق وہ تمام لوگ اس عہد کو توڑنے والے اور فاسق قرار پاتے ہیں جو نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ پر ایمان نہیں لاتے ۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ اللہ سے کئے ہوئے عہد سے منحرف ہوتے ہیں ‘ بلکہ وہ اس پوری کائنات کے ناموس اعظم سے بھی خارج ہوجاتے ہیں۔
Top