Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 79
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَۙ
مَا كَانَ : نہیں لِبَشَرٍ : کسی آدمی کے لیے اَنْ : کہ يُّؤْتِيَهُ : اسے عطا کرے اللّٰهُ : اللہ الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحُكْمَ : اور حکمت وَالنُّبُوَّةَ : اور نبوت ثُمَّ : پھر يَقُوْلَ : وہ کہے لِلنَّاسِ : لوگوں کو كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ عِبَادًا : بندے لِّيْ : میرے مِنْ دُوْنِ : سوا (بجائے) اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنْ : اور لیکن كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ رَبّٰنِيّٖنَ : اللہ والے بِمَا : اس لیے کہ كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ : تم سکھاتے ہو الْكِتٰبَ : کتاب وَبِمَا : اور اس لیے كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ : تم پڑھتے ہو
کسی انسان کے لیے یہ بات (مناسب) نہیں ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب ، حکم اور نبوت عطا فرمائے۔ پھر وہ شخص لوگوں سے کہے کہ ہوجاؤ تم میرے بندے اللہ کے سوا۔ لیکن وہ یوں کہے گا کہ ہوجاؤ رب والے۔ اس وجہ سے کہ تم کتاب سکھلاتے ہو ، اور اس وجہ سے تم اس کو پڑھتے ہو۔
ربط آیات : اہل کتاب کی مختلف خیانتوں کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ یہ لوگ دینی ، دنیوی اور مالی لحاظ سے خائن تھے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اللہ کی کتاب کے احکام کو تبدیل کرتے اور حق کو چھپاتے تھے۔ الفاظ و معانی میں تحریف کے مرتکب ہوتے تھے ، خود مسائل گھڑ کر انہیں اللہ کی طرف منسوب کرتے اور کہتے کہ یہ کتاب کا حصہ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں صریح جھوٹ بولتے آخری نبی (علیہ السلام) کے متعلق پیشن گوئیوں کو چھپا جاتے۔ حق و باطل کو خلط ملط کرتے تھے اور دنیا کا حقیر مال حاصل کرنے کی خاطر اپنے عہد و پیمان کا کچھ لحاط نہ رکھتے۔ ان کی ان بدخصلتوں کی وجہ سے اللہ نے ان کی سزا بھی تجویز فرما دی۔ کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ نرمی سے کلام نہیں کرے گا ، نہ ان کی طرف نگاہ شفقت سے دیکھے گا۔ اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا۔ وہ ہمیشہ عذاب الیم میں مبتلا رہیں گے۔ شان نزول : گذشتہ دروس میں وفد نجران کا تفسیلی ذکر ہوچکا ہے۔ کہ یہ وفد حضور ﷺ سے بحث و مباحثہ کے لیے مدینہ طیبہ آیا تھا۔ جب بات چیت کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہ ہوا تو نبی (علیہ السلام) نے ان کو مباہلہ کا چیلنج دیا۔ مگر انہوں نے قبول نہ کیا۔ اور جزیہ دینا قبول کرکے سمجھوتہ کرلیا۔ ان کے قیام مدینہ کے دوران حضور ﷺ کی مجالس ہوتی رہتی تھیں جن میں ارکان وفد کے علاوہ صحابہ کرام بھی شامل ہوتے۔ ایسی ہی ایک مجلس میں نجران کے نصاریٰ ، نبی (علیہ السلام) کے ساتھ مصروف گفتگو تھے ، حضور نبی کریم ﷺ ان کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ اس مجلس میں بنو قریظہ کا یہودی مولوی ابورافع بھی موجود تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ حضور ﷺ ہر بات میں عیسائیوں کو لاجواب کر رہے ہیں ، تو وہ کہنے لگا۔ کہ اے محمد ! کیا تم چہاتے ہو کہ ہم تمہاری پوجا کرنے لگیں جیسا کہ نصاری مسیح (علیہ السلام) کی پوجا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ابورافع کے اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل فرما کر واضح کردیا۔ کہ یہ ناممکن ہے۔ کہ اللہ کا نبی لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف بلائے بلکہ وہ تو ہمیشہ ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی ہی دعوت دے گا۔ بشریت انبیاء : کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے۔ ماکان لبشر۔ کسی بشر یا انسان کی یہ شان نہیں ہے۔ کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف بلائے۔ بشر سے مراد انسان ، آدمی یا آدم کی اولاد ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) ابو البشر یعنی تمام انسانوں کے باپ ہیں اس لحاظ سے تمام انبیاء کرام بھی انسان ہیں مشرکین کا یہ بالکل غلط عقیدہ ہے کہ نبی بشر نہیں ہوتا ۔ حالانکہ حدیث شریف مٰں صریح الفاظ آئے ہیں۔ کسی نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے حضور ﷺ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا۔ تو انہوں نے کہا۔ کان رسول اللہ بشرا من البشر۔ یعنی حضور ﷺ انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ پوچھنے والے نے دریافت کیا تھا۔ کہ حضور ﷺ کی گھریلو زندگی کیسی ہے۔ آپ کا اخلاق کیسا ہے۔ آپ گھر میں کیا کیا کام کرتے ہیں تو جواب یہی تھا۔ کہ حضور ﷺ انسانوں میں سے ایک انسان ہیں۔ جو کام عام آدمی گھر میں کرتے ہیں ، وہ کام اللہ کا نبی بھی کرتا ہے۔ حدیث شریف میں بشرا من البشر کا لفظ آتا ہے۔ نور من نور اللہ نہیں آتا۔ یہ تو عیسائیوں والا عقیدہ ہے۔ انہوں نے بھی مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا جزو بنا دیا۔ اور آج کے مسلمان بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ الغرض ! حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا ، آنحضرت (علیہ السلام) گھر میں بکر کا دودھ دوھ لیتے ، اپنے کپڑے صاف کرلیتے۔ جوتے کا ٹانکا لگا لیتے۔ گویا اپنا کام اپنے دست مبارک سے انجام دے لیتے تھے۔ بخاری ، مسلم ، ترمذی اور دیگر کتب احادیث میں یہ حدیث موجود ہے۔ کہ کچھ لوگ آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لائے تاکہ آپ اس کا فیصلہ فرمائیں۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا۔ انما انا بشر۔ بھائی ! میں ایک انسان ہوں اور انسان عالم الغیب نہیں ہوتا۔ میں ظاہر میں تمہارا معاملہ سنوں گا۔ اور اس کے مطابق فیصلہ دوں گا۔ ہوسکتا ہے ایک فریق اپنا مقدمہ پیش کرنے میں بڑا چرب زبان ہوا اور دوسرا فریق اتنا فصیح نہ ہو۔ فرمایا ، فلعلہ بعضکم الحن بحجتہ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس کی دلیل سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں۔ یا درکھو ، ! جو شخص کسی چیز کا مستحق نہیں ہے۔ وہ اس چیز کو مت لے۔ کیونکہ اس کے حق میں وہ دوزخ کی آگ کا ٹکڑا ہوگا۔ فرمایا میں انسان ہوں۔ باطنی حالات تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ جب وحی نازل ہوتی ہے۔ مالک الملک کی جانب سے علم دیا جاتا ہے۔ تو معلوم ہوجاتا ہے۔ فرمایا تمام انبیاء (علیہم السلام) انسان ہیں اور انسانیت کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں۔ انسان یا بشر ہونا کوئی عیب کی بات نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بطور احسان کے فرمایا ہے۔ انی خالق بشرا من طین فرشتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، میں مٹی سے بشر کو پیدا کرنے والا ہوں۔ ثم اذا انتم بشر تنتشرون۔ پھر تم بحیثیت انسان زمین پر پھیل گئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت اور قوی و اعضاء کے ساتھ پیدا کیا۔ ثم رددنہ اسفل سافلین۔ پھر اگر اس انسان کی فکر فاسد ہوجائے۔ عقیدہ بگڑ جائے اعمال و اخلاق خراب ہوجائیں تو اس انسان سے زیادہ ذلیل چیز کوئی نہیں ہوگی۔ ایسی صورت میں کیڑے مکوڑے ، جانور ، درندے وگیرہ انسان سے بہتر ہیں۔ مگر انسان ہونا کوئی بری بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین مخلوق پیدا کیا۔ منصب نبوت : الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ما کان لبشر۔ کسی انسان کی یہ شان نہیں ۔ ان یوتیہ اللہ الکتب۔ کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب عطا کرے۔ اور اللہ تعالیٰ کتاب اس کو دیتا ہے جس کو منصب نبوت عطا کرتا ہے اور یہ سب سے بلند مرتبہ ہے جو کسی انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ فضیلت والی اور کوئی چیز نہیں تمام اولیاء ، عابد ، زاہد سب نبی سے کم تر درجہ میں ہیں۔ نبوت کا مقام سب سے اعلی ہے اور یہ مقام اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو عطا فرمایا اور آپ کو قرآن پاک جیسی کتاب عطا کی۔ فرمایا۔ جس انسان کو اللہ کتاب عطا کرے۔ والحکم۔ اور حکم عطا کرے۔ حکم کا معنی فیصلہ بھی ہوتا ہے اور علم بھی۔ جیسے فرمایا۔ فاحکم بینھم یعنی ان کے درمیان فیصلہ کردے۔ نیز فرمایا۔ فاحکم بینھم۔ یعنی ان کے درمیان فیصلہ کردے۔ نیز فرمایا۔ اتینہ حکما و علما۔ ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا۔ نیز حکم کا معنی فہم بھی ہوتا ہے اور۔ نبی کا فہم ، عقل اور ذکاوت تمام انسانوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ نبی اعقل الناس ہوتا ہے۔ وہ سب سے زیادہ ذکی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں کمال درجے کی صلاحیت ودیعت کرتا ہے۔ آگے فرمایا ، والنبوۃ یعنی ایسا شخص جسے اللہ تعالیٰ کتاب اور حکم کے علاوہ نبوت بھی عطا فرما دے۔ اس کی یہ شان نہیں ہے۔ ثم یقول للناس۔ کہ وہ لوگوں سے کہے۔ کونوا عبادا لی من دون اللہ۔ اللہ کے علاوہ میرے بندے بن جاؤ۔ یہ بات ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تو نبوت اور رسالت عطا فرمائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف بلانے کی بجائے اپنی بندگی کی طرف دعوت دے۔ یا کسی دوسرے انسان یا کسی بھی مخلوق کی عبادت کی تلقین کرے۔ یہ نہیں ہوسکتا اگر ایسی بات ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نعوذ باللہ ، اللہ کا انتخاب ہی درست نہیں تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ پر جہالت لازم آئے گی (نعوذ باللہ) کہ اس نے ایسے شخص کو نبی بنایا جو اس نبوت کا اہل نہیں تھا۔ نبی کا منصب تو یہ ہے کہ وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر کار بند ہو اور دوسروں کو بھی اسی کی دعوت دے۔ دنیا کے معاملات میں بھی جب کسی شخص کو وزارت یا گورنری کے عہدہ پر فائز کیا جاتا ہے۔ تو اس سے توقع ہوتی ہے۔ کہ وہ حکومت کی پالیسی کے مطابق کام کرے گا۔ اگر کوئی شخص خلاف کرے تو اسے ایک منٹ کے لیے کسی اعلی عہدے پر برداشت نہیں کیا جاتا ۔ اللہ کا نبی تو اللہ کا کامل وفا دار ہوتا ہے۔ دنیا میں منشائئے یازدی کی تکمیل اس کا فرض ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے علاوہ اپنی یا کسی دوسری مخلوق کی عبادت کی دعوت کیسے دے سکتا ہے۔ انبیاء کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان میں موجود بشریت کے تمام تقاضے بہترین طور پر سنور جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تربیت ہی ایسی کرتا ہے۔ جس سے ان کے تمام قوی درجہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ ان سے ایسی بات کا سرزد ہونا جو منشائے الہی کے خلاف ہو ، ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا ، ہم نے تم پر احسان کیا۔ تمہاری پرورش ہماری آنکھوں کے سامنے رہی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا۔ بامرنا ووحینا۔ سب کچھ ہمارے حکم اور وحی کے مطابق ہورہا ہے۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی تربیت نہایت اعلی درجے میں کرتا ہے۔ لہذا ان کی شان کے خلاف ہے کہ وہ غیر اللہ کی طرف دعوت دیں۔ اللہ والے : برخلاف اس کے اللہ کے نبی تو کہیں گے اے لوگو ! ولکن کونوا ربنیین۔ رب والے بن جاؤ یعنی بن جاؤ۔ شیخ الہند نے یہ ترجمہ کیا ہے۔ اللہ والے ہوجاؤ۔ ربنیین۔ رب سے مشتق ہے۔ جس میں ن اور ی مبالغے کے آتے ہیں بعض ربی بھی کہتے ہیں۔ اس کا معنی بھی وہی ہے۔ دوسرے مقام پر ربیون کثیر۔ کے الفاظ آئے ہیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ تربیت کے مادے سے ہے۔ اور معنی یہ ہے کہ دوسروں کی تربیت کرنے والے ہو۔ اور دوسروں کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف بلانے والے ہو۔ یعنی ایسے اللہ والے بن جاؤ، جو علم ، عقیدے اور عمل میں درجہ کمال پر ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس قرآن کے بڑے عالم ہوئے ہیں۔ حضرت علی کے زمانہ میں کچھ عرصہ گورنر بھی رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ لوگوں کی تعلیم و تربیت میں گزرا۔ جس دن آپ کی وفات طائف میں ہوئی تو حضرت علی کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ (جو آپ کی بیوی خولہ کے بطن سے تھے) وہ بھی بڑے عالم فاضل ہوئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا الیوم مات ربانی ھذہ الامۃ۔ آج حضور کی امت کا ایک بہت بڑا ربانی عالم دنیا سے رخصت ہوگیا۔ ربانی وہ شخص ہے جس کے دل کی اصلاح اس طرح ہوجائے کہ اس کے اندر فاسد خیالات باقی نہ رہیں۔ جیسا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے دعا کی۔ اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جس میں تیری خشیت نہ ہو۔ اصلاح یافتہ دل وہی ہوگا جس میں خشیت الہی موجود ہوگی۔ اسی لیے اللہ نے قرآن کریم میں علمائے حق کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء۔ جو حق پرست ہوں گے وہ خدا ساے ڈرنے والے ہوں گے۔ فرمایا اللہ کا نبی تو کہے گا ، اللہ والے ہوجاؤ، رب والے ہوجاؤ۔ بما کنتم تعلمون الکتب۔ اس وجہ سے کہ تم کتاب سکھلاتے ہو۔ اور کتاب سکھلانے والے کی لازماً اصلاح ہونی چاہئے۔ اس میں خالص توحید اور جذبہ عبادت ہونا چاہئے۔ بلکہ اسے دوسروں کی اصلاح بھی کرنی چاہئے۔ وبما کنتم تدرسون۔ اور اس وجہ سے کہ تم خدا کی کتاب پڑھتے ہو۔ اس کا بھی تقاضا ہے کہ تم اللہ والے بن جاؤ۔ عبدیت کی غلط نسبت : کل ذکر کیا تھا کہ کتاب اللہ میں لفظی یا معنوی تحریف کرنا اہل کتاب کا کام تھا مگر اس زمانے میں یہ کام خود مسلمان بھی انجام دے رہے ہیں۔ بلکہ یہ تو ان سے بھی بدتر کام کر رہے ہیں۔ کلام اللہ کے ایسے غلط معانی و مطالب بیان کرتے ہیں جو نہ اللہ کی مراد ہے اور نہ رسول اللہ کی تشریح ہے۔ نہ خلفائے راشدین نے ایسے معنی کیے اور نہ آئمہ دین نے یہ مطلب سمجھا مگر آج کا پرویز اور مرزا قادیانی عجیب و غریب تاویلات کرتے ہیں۔ اب دیکھئے مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے اس آیت۔ قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم۔ سے کیا مطلب نکالا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ سے فرما رہے ہیں آپ اپنی طرف سے کہہ دیں اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ گویا حضور ﷺ اپنی امت کو میرے بندو کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں (نعوذ باللہ) اسی سے مولوی احمد رضا خان یہ نکالتے ہیں کہ حضور ﷺ کی طرف نسبت کرکے نام رکھنا جائز ہے۔ جیسے عبدالرسول ، عبدالمصطفیٰ ، عبدالنبی وغیرہ۔ حالانکہ یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی ! آپ اللہ کی طرف سے کہہ دیں یعنی اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو معاف فرما دے گا ، اس کی مثال سورة مریم میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو حضرت مریم کی طرف یہ آیت دے کر بھیجا۔ قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا۔ میں تیرے رب کا فرستادہ ہوں تاکہ میں تجھ کو ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ بظاہر عطا کی نسبت جبرائیل امین کی طرف ہے۔ مگر حقیقت میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے کہ میں اللہ کی جانب سے آیا ہوں اور وہ اللہ تجھے بیٹا عطا کرنے والا ہے۔ اسی طرح اس آیت میں یعبادی سے مراد نبی کے بندو نہیں بلکہ اللہ کے بندو ! ہے ۔ ملا علی قاری شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں کہ عبدالرسول ، عبدالحسنین ، عبدالعلی وغیرہ نام رکھنے میں شرک کی بو پائی جاتی ہے۔ اسی طرح پیر بخش ، علی بخش وغیرہ نام نہیں رکھنے چاہئیں۔ کسی پیر نبی ، بزرگ کی طرف عبدیت کی نسبت کرنا قطعاً روا نہیں۔ مگر لوگ باز نہیں آتے۔ قرآن پاک کا عجیب و غریب ترجمہ کرکے جگہ جگہ باطل عقیدے وضع کیے گئے ہیں۔ یہ سب چیزیں تحریف کا حصہ ہیں۔ حضور ﷺ نے جس کا نام عبدالشمس تھا ، اس کا نام عبدالرحمن رکھا ، نام رکھتے وقت عبدیت کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف ہونی چاہئے۔ یا کم از کم ایسے نام رکھو جس میں کسی قسم کی پیچیدگی نہ پائی جائے۔ رب صرف اللہ ہے : الغرض ! فرمایا کہ اللہ کا نبی اپنی عبدیت کی دعوت نہیں دے سکتا بلکہ وہ تو یوں کہے گا کہ اللہ والے بن جاؤ اس وجہ سے کہ تم کتاب سکھلاتے ہو اور اسے پڑھتے پڑھاتے ہو۔ ولا یامرکم۔ اللہ کا نبی تمہیں ہرگز یہ حکم نہیں دے گا کہ ان تتخذوا الملئکۃ والنبیین اربابا۔ کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لو۔ جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے کیا۔ اتخذوا احبارھم و رھبانہم اربابا من دون اللہ۔ انہوں نے اپنے پیروں اور مولویوں کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیا۔ گذشتہ دروس میں گزر چکا ہے۔ کہ عدی بن حاتم طائی نے کہا۔ کہ حضور ! ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے ان کو رب نہیں بناتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ جس چیز کو تمہارے پیر اور عالم حرام کہتے ہیں تم حرام سمجھتے ہو ، حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ حلال ہے اور جس چیز کو وہ حلال کہتے ہیں تم حلال سمجھتے ہو حالانکہ وہ اللہ کے ہاں ھرام ہے۔ یہی رب بنانا ہے۔ جب تحلیل و تحریم کا منصب غیر اللہ کے سپرد کردیا جائے تو انہیں رب بنانے کے مترادف ہے۔ کسی کو سجدہ کیا جائے ، نذر و نیاز پیش کی جائے ، حاضر و ناظر سمجھا جائے علیم کل سمجھا جائے ، مافوق الاسباب ، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جائے ، یہی شرک ہے۔ اس قسم کا جو بھی عقیدہ اللہ کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کیا جائے گا شرک ہوگا ، فرمایا پیغمبر کبھی یہ حکم نہیں دے گا کہ تم فرشتوں یا انبیاء کو رب بناؤ۔ ایامرکم بالکفر۔ کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے سکتا ہے ؟ بعد اذ انتم مسلمون۔ باوجود اس کے کہ تم فرمانرداری میں اختیار کرچکے ہو۔ اللہ کی وحدانیت کو اپنا چکے ہو۔ جب تم اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آ چکے ہو تو پھر وہ تمہیں ایسا حکم کیسے دے گا۔ جس سے تم پھر کفر و شرک کی تاریکیوں میں غرق ہوجاؤ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اللہ کے نبی سے یہ توقع ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اہل کتاب نے نبی (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی عبادت کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ قانون بتلایا کہ اللہ کا نبی نہ اپنی عبدیت کی طرف دعوت دیتا ہے اور نہ کسی غیر اللہ کی۔ مسیح (علیہ السلام) نے بھی ربوبیت کی نسبت اللہ ہی کی طرف کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ان اللہ ربی و ربکم۔ میرا اور تمہارا سب کا رب اللہ ہے۔ میں بھی اسی کی عبادت کرتا ہوں تم بھی اسی کی عبادت کرو اللہ کا ہر نبی یہی دعوت دے گا۔ کہ اللہ والے بن جاؤ۔ رب والے بن جاؤ۔ اس کے سوا کسی انسان کی پوجا نہ کرو۔
Top