Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 58
وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ١ۚ وَ الَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا١ؕ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْكُرُوْنَ۠ ۧ
وَالْبَلَدُ
: اور زمین
الطَّيِّبُ
: پاکیزہ
يَخْرُجُ
: نکلتا ہے
نَبَاتُهٗ
: اس کا سبزہ
بِاِذْنِ
: حکم سے
رَبِّهٖ
: اس کا رب
وَالَّذِيْ
: اور وہ جو
خَبُثَ
: نا پاکیزہ (خراب)
لَا يَخْرُجُ
: نہیں نکلتا
اِلَّا
: مگر
نَكِدًا
: ناقص
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
نُصَرِّفُ
: پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیتیں
لِقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يَّشْكُرُوْنَ
: وہ شکر ادا کرتے ہیں
جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ اس طرح ہم اپنی نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے شکر گزار ہونے والے ہیں۔
آیت ” نمبر 58۔ اچھے دل کو قرآن وسنت میں زرخیز مٹی اور صالح زمین سے مشابہت دی جاتی ہے ‘ اور برے دلوں کو بیکار مٹی اور بنجر زمین سے۔ اس لئے اچھی زمین میں اچھی فصل پیدا ہوتی ہے اور وہ پھل پھول لاتی ہے اور اسی طرح اچھے دل میں صالح خیالات اور اچھے تصورات پیدا ہوتے ہیں ۔ اور وہ ایک پاکیزہ شعور و تصورات کا مسکن ہوتا ہے ۔ اس کے اندر انسانی رجحانات میلانات اور ادارے اور عزائم جاگزیں ہوتے ہیں جو بعد میں عملی شکل اختیار کرتے ہیں بعینہ اس طرح جس طرح زمین سے ہر قسم کی پیداوار حاصل ہوتی ہے اور مختلف رنگوں اور مختلف ذائقوں کے پھل نمودار ہوتے ہیں۔ آیت ” وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِیْ خَبُثَ لاَ یَخْرُجُ إِلاَّ نَکِداً “۔ (7 : 58) ” جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ “ اچھی زمین وہ ہوتی ہے جو نرم اور آسان ہوتی ہے اور جو بری ہوتی ہے وہ اذیت دہ ‘ سخت مشقت خیز اور تنگ ہوتی ہے ۔ ایک اچھے دل پر ہدایت ‘ نصیحت اور یاد دہائی کی بارش نازل ہوتی ہے ‘ جس طرح اچھی زمین پر بادلوں سے بارش برستی ہے ۔ اگر دل پاکیزہ ہو ‘ ایک اچھی اور زرخیز زمین کی طرح تو وہ کھل جاتا ہے ۔ وہ ہدایت اور نصیحت کو قبول کرتا ہے اور مزید پاکیزہ ہو کر کامیاب ہوجاتا ہے ۔ اگر دل فاسد ہو ‘ جس طرح خبیث اور بنجر زمین ہوتی ہے تو اس دل کے دریچے بند ہوجاتے ہیں ‘ وہ سخت ہوجاتا ہے اور شروفساد کی راہ لیتا ہے ۔ یقین کے بجائے اس دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں جس طرح بنجز زمین میں جھاڑیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آیت ” کَذَلِکَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَشْکُرُونَ (58) ” اس طرح ہم اپنی نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے شکر گزار ہونے والے ہیں۔ “ شکر کا پودار پاکیزہ دل ہی میں اگ سکتا ہے ‘ اور اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ دل پر نصیحت کا اثر ہوگیا ہے اور وہ قبولیت کی راہ لے رہا ہے ۔ ایسے دل رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی آیات اور دلائل بار بار ور مختلف انداز میں بیان کرتا ہے ۔ کیونکہ صرف ایسے ہی لوگ ان بیانات سے نفع اٹھاتے ہیں اور اپنے شب وروز کو درست کرتے ہیں ۔ شکر الہی ‘ اس سورة کا خاص مضمون ہے ۔ اس سورة میں انذار وتذکیر کے ساتھ ساتھ اس کا خصوصا ذکر ہوا ہے اس سے پہلے بھی ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں اور آئندہ بھی اسی سورة کی دوسری خصوصیات یعنی انذار وتذکیر کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر کریں گے ۔ درس نمبر 77 ایک نظر میں : اس سبق میں ہم قافلہ ایمان کے ہمرکاب ہیں ۔ یہ ہیں اس کے لیڈر اور یہ ہیں اس کے جھنڈے اور یہ ہیں ان کے نشانات رہ ۔ یہ قافلہ اس کرہ ارض کی تاریخ کے طویل میدانوں میں رواں دواں ہے ۔ اور پوری انسانیت کے ساتھ ہمکلام ہے۔ اس طویل سفر میں انسانیت جب بھی بےراہ روی اختیار کرتی ہے ‘ یہ قافلہ اہل حق اس کی راہ روکتا ہے اور اسے صراط مستقیم پر ڈال دیتا ہے ۔ انسانیت راہ مستقیم سے اس وقت ہٹ جاتی ہے کہ جب اس پر شیطانی خواہشات کا غلبہ ہوجائے ۔ شیطان ہر وقت اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ انسانیت کو بدراہ کرکے اپنے جذبہ انتقام کو ٹھنڈا کرتا رہے اور انسانیت کے منہ میں شہوات نفسانیہ کی لگام ڈال کر اسے جہنم رسید کر دے ۔ جب شیطان یہ اسکیم شروع کرتا ہے پیغمبروں کا قافلہ ایمان نمودار ہوجاتا ہے پیغمبر اور ان کے پیروکار انسانیت کے سامنے روشنی کے مینار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور انسانیت کے لئے جنت کی باد نسیم کے جھونکے کھل جاتے ہیں ۔ یہ پروقار قافلہ جہنم کی گرم لو سے انہیں ڈرانے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے ۔ اور شیطان رجیم کے وسوسوں سے اسے نجات دیتا ہے کیونکہ وہ انسانوں کا ازلی دشمن ہے ۔ یہ نہایت ہی خوبصورت منظر ہے ۔ ایک طویل شاہراہ حیات پر حق و باطل کی گھمسان کی جنگ جاری ہے حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ نہایت ہی پیچیدہ انداز می گزر رہی ہے ‘ اس لئے کہ انسان تو تاریخ بناتا ہے جو بذات خود ایک پیچیدہ مخلوق ہے ۔ یہ دو عناصر سے بنا ہے ایک تو وہ خاکی مادہ ہے جس سے اس کا خمیر تیار ہوا اور دوسرا عنصر وہ روح ہے جو اس جسد خاکی کے اندر پھونکی گئی اور اس نفخ روح کی وجہ سے انسان انسان کہلایا ۔ اس طرح دو متضاد عناصر کا یہ اتحاد ازواج اللہ کے دست قدرت کے ذریعے تکمیل کو پہنچا ۔ اس لئے حضرت انسان تاریخ میں بڑی پیچیدگی سے آگے بڑھتا ہے ۔ اس کی ذات اور اس کے اعمال ونظریات بھی پیچیدہ ہیں۔ انسان اپنی اس مخصوص طبیعت اور مزاج کے ساتھ اس وسیع کائنات اور اس کے آفاق کے تعلق کا ایک خاص زاویہ رکھتا ہے جس کی تفصیلات ہم نے قصہ آدم وابلیس میں دے دی ہیں ۔ یہ ایک طرح حقیقت الہیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اللہ کی تقدیر ‘ اس کی مشیت ‘ اللہ کی قدرت اس کی طاقت اور اس کے رحم وکرم کا موضوع بنتا ہے ۔ وہ عالم بالا اور ملائکہ کے ساتھ بھی مربوط ہے ۔ پھر وہ ابلیس اور شیطان اعظم کے ساتھ بھی معاملہ کرتا ہے وہ اس قابل مشاہدہ کائنات اور اس کے قوانین فطرت کے ساتھ بھی ملحق ہے ۔ وہ اس کرہ ارض کی تمام چیزوں کے ساتھ بھی طرز عمل اختیار کرتا ہے اور دوسرے ہم جنس انسانوں کے ساتھ بھی اس کے روابط قائم ہوتے ہیں اور یوں وہ اپنی اس طبیعت کے ساتھ پورے عالم مشہود کے ساتھ مربوط ہوجاتا ہے ۔ اس کائنات کی ہم آہنگ قوتوں کے ساتھ بھی اس کا واسطہ ہے اور اسکی مخالف اور متضاد قوتوں کے ساتھ بھی اس کا معاملہ ہے ۔ غرض تاریخ کے اس باہم متلاطم اور پیچیدہ سمندر میں انسانی تاریخ دنیا کا سفر طے کرتی ہے ۔ کبھی اس کی ذات قوی نظر آتی ہے اور کبھی گم کردہ راہ کبھی وہ متقی اور ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور کبھی ضعیف ہوتا ہے کبھی وہ عالم غیب سے جڑ جاتا ہے ۔ اور کبھی عالم مشاہدہ میں ہی گم رہتا ہے ۔ کبھی وہ عالم مادیات میں سرگرم رہتا ہے اور کبھی عالم روح اور دل کی دنیا میں پھرتا ہے لیکن آخر کار وہ اللہ کی تقدیر کے سامنے بےبس نظر آتا ہے ۔ یہ سب رنگ اس کی تاریخ میں نظر آتے ہیں ۔ لہذا انسانی تاریخ کی تشریح صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اس کے یہ متضاد عناصر ترکیبی پیش نظر رہیں۔ آج کل بعض لوگ انسانی تاریخ کی تشریح محض اقتصادی زاویہ سے کرتے ہیں ۔ بعض اس کی تاریخ محض سیاسی زاویہ سے لکھتے ہیں ‘ بعض لوگ اس کی تاریخ بیالوجی اور جسمانی ساخت کے اعتبار سے لکھتے ہیں ۔ بعض لوگ محض روح اور بعض دوسرے محض نفس اور بعض دوسرے محض عقل کے اعتبار سے تاریخ لکھتے ہیں ۔ جو لوگ انسان کا مطالعہ نہایت ہی سطحی ہوتا ہے حالانکہ انسان کا ہمہ گیر مطالعہ ضروری ہے ۔ اسی طرح اس کی تاریخ کی تشریح بھی ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہونا چاہئے ۔ انسانیت کی تاریخ کی اسلامی تشریح ہی وہ ہمہ جہت تشریح ہے جس کا مؤرخ انسانیت کے وسیع سمندر میں گہرائی تک غوطے لگاتا ہے اور ہر حقیقت نکال لاتا ہے ۔ اسلامی مؤرخ اس ہمہ گیر اور گہرے مطالعے کے بعد اس کے واقعات پر نظر ڈالتا ہے ۔ (دیکھئے اسلامی تصور حیات کے بنیادی عناصر کی فصل حقیقت انسان) ۔ یہاں ہم اب ایک عظیم تاریخی سمندر کے سامنے کھڑے ہیں ۔ اس سے قبل ہم تخلیق انسانیت کے مناظر دیکھ چکے ہیں ۔ اس منظر میں تمام جہانوں کا اکٹھ تھا ۔ وہ تمام مخلوقات جمع تھی جس کے ساتھ انسان کا واسطہ پڑنامقرر تھا ۔ تمام آفاق اور تمام مخلوق وعناصر ظاہر تھے یا خفیہ ‘ سب کے ساتھ حاضر مجلس تھے ۔ اس محفل میں پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ اس نئی مخلوق کی صلاحیت کیا ہے اور اس کی اساسی خصوصیات کیا ہیں ۔ عالم بالا کی یہ مجلس اس کے اعزاز میں منعقد ہوئی ہے اور اس میں اسے آخری اعزاز ملا یعنی ملائکہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسے سجدہ کریں ۔ اس وقت اللہ نے اعلان کیا کہ یہ ہے جدید مخلوق ۔ پھر ہم نے اس منظر کی ایک دوسری جھلک بھی دیکھی جس میں اس کی کمزوری سامنے آئی اور وہ دشمن کے ہتھے چڑھ گیا ۔ پھر کیا ہوا ؟ وہ جو ہونا تھا کہ اسے زمین پر اتار دیا گیا اور آزاد چھوڑ دیا گیا کہ وہ اس کرہ ارض کے تمام عناصر کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت متعین کرے ۔ ہم نے دیکھا کہ حضرت انسان اس کرہ ارض پر بطور مومن اتر رہا ہے ۔ وہ اپنی کوتاہی اور لغزش پر اللہ سے مغفرت طلب کر رہا ہے اس سے عہد لیا جاتا ہے کہ وہ فرائض خلافت فی الارض پورے کرے گا اور اللہ کی جانب سے جو احکام آئیں گے ان کی پیروی کرے گا ۔ شیطان یا نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہوگا اور اس سلسلے میں اسے جنت سے نکلنے کا جو تجربہ ہوا اسے زاد راہ بنائے گا ۔ اب صدیاں گزر گئی ہیں اور تاریخ کے ناپیدا کنار سمندر کی متلاطم امواج کے تھپیڑوں نے اسے اچھا خاصا تجربہ کار بنا دیا ہے ۔ اس پوری کائنات اس کے ماحول اور اس میں باہم برسرپیکار متضاد عوامل میں رہتے ہوئے اسے ایک عرصہ گزر گیا ہے ۔ وہ اپنے ضمیر اور اپنے میلانات کے ساتھ بھی کشمکش میں رہا ہے ۔ چناچہ اس سبق میں حضرت انسان کی طویل تاریخ کی بعض جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں کہ وہ کس طرح اس کرہ ارض کے متضاد میلانات کی کشاکش میں زندگی بسر کرتا رہا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھول جاتا ہے ۔ بارہا وہ اپنا سبق بھول گیا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس سے بارہا کمزوریاں سرزد ہوتی رہیں اور ہوئیں ۔ شیطان اس پر غالب آجاتا ہے اور بارہا ایسا ہوتا ہے ۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ بار بار اس کی راہنمائی کی جائے اور اسے مصیبتوں سے نجات دلائی جائے ۔ جب وہ اس کرہ ارض پر اتارا تو وہ توبہ کرچکا تھا ‘ ہدایت یافتہ تھا اور عقیدہ توحید پر قائم تھا لیکن اگلے ہی منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پھر گمراہ ہوگیا ہے ‘ مشرک بن گیا ہے اور اللہ پر افتراء باندھ رہا ہے ۔ لیکن تاریخی امواج کے اس تلاطم میں اس کے لئے ایک نشان راہ اور ارادہ رسالت کا انتظام کردیا گیا ہے ۔ اسے بار بار اپنے رب کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور یہ اللہ کا عظیم رحم وکرم ہے کہ اس نے اسے بےسہارا نہیں چھوڑا ۔ اس سورة میں ہم قافلہ ایمان کے طویل سفر کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔ اس قافلے کی ہدایت کے لئے انبیاء ورسل نے ہدایت کے جھنڈے بلند کر رکھے ہیں ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ‘ حضرت ہود (علیہ السلام) ‘ حضرت صالح (علیہ السلام) ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) ‘ حضرت شعیب (علیہ السلام) ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ اور حضرت محمد ﷺ انسان کی ہدایت کے لئے تشریف لائے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حضرات اللہ کی ہدایات کے مطابق ہاتھ پکڑ پکڑ کر انسان کو اس راہ سے روکتے ہیں جس راہ پر چلا کر شیطان انہیں وارد جہنم کرنا چاہتا ہے ۔ شیطان کے ساتھ اس کے مددگار بھی اس کام میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ یہ وہ مستکبرین ہیں جو ہر زمانے میں اپنے آپ کو حق سے بالا سمجھتے رہے ہیں۔ پھر ہم ہدایت وضلالت کے درمیان جو مسلسل کشمکش برپا ہے ‘ اس کی جھلکیاں بھی ان مناظر میں دیکھتے ہیں۔ ایک طرف حق ہے اور دوسری جانب باطل ‘ حق کے لیڈر انبیاء رسل ہیں اور باطل کے لیڈر شیاطین جن وانس ہیں ۔ اس سفر کے آخری مرحلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جھٹلانے والے کس طرح مار کھاتے ہیں ‘ ان کے لاشے ہر طرف بکھرے نظر آتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اہل ایمان کامیاب اور پر مسرت ہیں۔ یادہانی اور تذکیر کا یہ ایک طویل سلسلہ ہے جو اس سبق میں نظر آتا ہے ۔ قرآن میں قصص کا بیان لازما تاریخی ترتیب کے مطابق نہیں ہوتا ‘ لیکن اس سورة میں قصص کی تاریخی ترتیب کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے ‘ اس لئے کہ اس سورة میں انسانیت کے طویل سفر کو بھی پیش نظر رکھنا مطلوب ہے ۔ یہ بھی مطلوب ہے کہ نظر آئے کہ کس طرح اس طویل انسانی سفر میں انبیاء ورسل بار بار انسان کو ہدایت فراہم کرتے ہیں ۔ جب بھی وہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے یہ لوگ اس کا ہاتھ پکڑتے ہیں ۔ جب بھی شیطان نے انسانیت کی قیادت سنبھالی ہے اور اسے جہنم کی طرف لے چلنے کا حکم دیا ہے انبیاء ورسل نے اسے روکنے کی سعی کی ہے ۔ اس سبق میں جو نشانانت راہ دکھائے گئے ہیں ان کا خلاصہ ہم یوں پیش کرتے ہیں : یہ کہ انسانیت کا آغاز ایک مومن ہدایت یافتہ اور عقیدہ توحید پر ایمان رکھنے والے انسان کے ساتھ ہوا ۔ بعد کے ادوار میں انسان بھٹک کر مشرکانہ عقائد کا حامل بن گیا ۔ انسان کے بھٹکنے کا سبب وہ عوامل اور رجحانات ومیلانات بنے جو اسن کی ذات کے اندر اللہ نے ودیعت کئے تھے یا وہ عناصر اور اسباب اس کی گمراہی کا سبب بنے جو اس جہان میں پنہاں تھے ۔ جب بھی انسان گمراہی میں مبتلا ہوا ایک رسول دنیا کی اسٹیج پر نمودار ہوا اور وہ وہی دعوت اس کے سامنے پیش کرنے لگا جس کا یہ گمراہ انسان اپنی گمراہی سے قبل ماننے والا اور اس کا حامل تھا ۔ رسول کی دعوت آنے کے بعد لوگ ہمیشہ دو گرہوں میں بٹ گئے ۔ ایک گروہ نے ہلاکت کی راہ لی اور دوسرا گروہ از سرنو زندہ ہوگیا ۔ زندہ وہ لوگ ہوئے جو راہ ہدایت کی طرف لوٹ آئے اور انہوں نے جان لیا کہ ان کا الہ الہ واحدہ ہے اور وہ پوری طرح اس الہ وحد کے سامنے سرتسلیم خم کرنے لگے ۔ انہوں نے اس رسول کی پکار کو سنا جو انہیں کہہ رہا تھا ” اے میری قوم صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی اور حاکم نہیں ہے ۔ “ پس یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر اللہ کا پورا دین قائم ہے اور انسان کی طویل تاریخ میں تمام رسولوں نے صرف اسی عقیدے کی طرف دعوت دی ہے ۔ جو رسول بھی آیا اس نے قوم کے سامنے یہی کلمہ پیش کیا ۔ ایسے حالات میں جب اس کی قوم کو شیطان نے گمراہی کے جال میں پھنسا لیا تھا ۔ وہ اصل عقیدے کو بھول گئے تھے اور گمراہ ہوچکے تھے ۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ بیشمار شریک ٹھہرائے ہوئے تھے ۔ مختلف جاہلیتوں کے اندر یہ شریک مختلف نوعیت کے تھے ۔ ان بت پرستیوں کی اساس پر انسانی تاریخ میں حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی قائم رہی ہے اور اسی معرکہ آرائی کی اساس پر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ جھٹلانے والوں کو پکڑا اور ایمان لانے والوں کو نجات دی ہے ۔ قرآن کریم نے ان دعوتوں کو ایک ہی جیسے الفاظ میں منضبط کیا ہے حالانکہ انبیاء مختلف زبانوں میں دعوت دیتے چلے آئے تھے ۔ انہوں نے مختلف ادوار اور مختلف زبانوں میں جو دعوت دی ‘ قرآن نے اس کی تعبیر ان الفاظ میں کی ہے ۔ ” اے قوم صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے ۔ “ اس سے اس حقیقت کا اظہار مقصود تھا کہ پوری انسانی تاریخ میں دعوت اسلامی ایک ہی رہی ہے بلکہ اسے ایک جیسے الفاظ ہی میں پیش کیا گیا ہے ۔ یہ عبارت اور یہ الفاظ اس عقیدے کو پوری طرح اور جامع ومانع انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ جس طرح سیاق کلام سے بھی اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ایک کے بعد ایک رسول اسٹیج پر آتا ہے اور وہی الفاظ دہراتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے اسلامی نظریہ حیات کے بیان کے لئے کیا منہاج اسٹیج پر آتا ہے اور وہی الفاظ دہراتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے اسلامی نظریہ حیات کے بیان کے لئے کیا منہاج اختیار کیا ہے ؟ اس بات سے یہ حقیقت خود بخود سامنے آجاتی ہے کہ جدید دور میں ادیان کا تقابلی مطالعہ کرنے والے مفکرین اور قرآن کے منہاج کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ قرآنی منہاج یہ ہے کہ رسول جو عقائد لے کر آئے ان کے اندر کوئی ترقی یا تغیر وتبدیلی نہیں ہونی ہے نہ ان عقائد کے اندر غور وفکر کے کوئی ابتدائی یا انتہائی مدارج رہے ہیں ۔ جو لوگ ادیان کے بنیادی عقائد کی ارتقائی اور تدریجی ارتقائی سوچ بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اسلامی نظریات کو بھی رتقانی شکل میں پڑھتے ہیں اور ایسی بات کرتے ہیں جو اللہ نے قرآن کے اندر نہیں کی ہے ۔ جس طرح قرآن کریم واضح طور پر اظہار کرتا ہے کہ انبیاء نے ہمیشہ ایک ہی دعوت دی ہے ۔ قرآن اس دعوت کو ایک ہی عبارت میں بیان کرتا ہے یعنی ” اے قوم صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی اور حاکم نہیں ہے ۔ “ آیت ” ِ اعْبُدُواْ اللَّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَـہٍ غَیْْرُہُ “۔ (7 : 59) اور یہ الہ جس کی طرف تمام رسول دعوت دیتے رہے ‘ وہ رب العالمین ہے اور لوگوں سے ایک عظیم دن حساب و کتاب لے گا ۔ رسولوں میں سے کوئی ایک رسول بھی ایسا نہیں گزرا جس نے لوگوں کو اپنے قبیلے کی طرف دعوت دی ہو ‘ یا کسی قوم یا کسی نسل کے رب کی طرف لوگوں کو بلایا ہو ۔ نہ رسولوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا گزرا ہے جس نے دو الہوں کی طرف دعوت دی ہو یا متعدد الہوں کا پرچار کیا ۔ رسولوں میں سے کسی رسول نے بھی سورج ‘ چاند ‘ ستاروں ‘ ارواح یا بتوں کی پوجا اور غلامی کی طرف نہیں بلایا ۔ اسی طرح اللہ کی جانب سے کوئی ایسا نظام وضع نہیں ہوا جس میں آخرت کا تصور نہ ہو جس طرح بعض وہ لوگ کہتے ہیں جو اپنے آپ کو ماہرین ادیان کہتے ہیں اور جو دنیا کی مختلف جاہلیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ جن نتائج تک پہنچے ہیں وہی اس دنیا کے معروف ادیان تھے اور اس کے علاوہ کوئی اور دین ان ادوار میں نہ تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر پے درپے رسول آتے رہے اور انہوں نے صرف اور صرف عقیدہ توحید اور خالص توحید کا عقیدہ پیش کیا ۔ انہوں نے یہ نظریہ دیا کہ صر اللہ رب العالمین ہے ‘ اور وہ لازما قیامت کے دن سب سے حساب لے گا ۔ لیکن ہر رسالت کے خاتمے کے بعد جاہلیت دوبارہ دنیا پر چھا گئی اور اس کے چھانے کے اسباب کچھ تو انسانوں کے اندر تھے اور کچھ وہ عوامل ودواعی تھے جو انسان کو فراہم کردہ ماحول میں نہایت ہی پیچیدہ شکل میں موجود تھے ۔ یہ انحرافات مختلف تصورات و عقائد کی صورت میں سامنے آئے اور آج کل کے ماہرین ادیان درحقیقت اصل دین کو چھوڑ کر ان ہی منحرف ادیان کا مطالعہ کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انکے اخذ کردہ خطوط پر دنیا میں دین اور مذہب نے بتدریج ارتقائی سفر کے ذریعے موجودہ شکل اختیار کی ہے ۔ بہرحال اللہ کا فرمان زیادہ قابل تقلید ہے ‘ خصوصا ان لوگوں کے لئے جو دین کے موضوع پر لکھتے ہیں جو اسلام کے حق میں کہتے ہیں اور اس کی جانب سے دفاع کرتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو سرے سے قرآن پر ایمان ہی نہیں لاتے تو ہم ان سے مخاطب ہی نہیں ہیں ‘ اللہ بہرحال سچائی بیان کرتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ تمام رسول جب بھی وہ آئے تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی قوم کو دعوت دی ہے ۔ انہوں نے قوم میں دعوت اسلامی کا کام اس وقت شروع کیا ہے جب قوم صراط مستقیم اور اس عقیدے سے منحرف ہوگئی جس پر سابقہ رسول نے انہیں چھوڑا تھا ۔ چناچہ پہلے انسان اہل توحید تھے اور وہ رب العالمین کو تسلیم کرتے تھے ۔ ان کا عقیدہ وہی تھا جو آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کا تھا ۔ اس کے بعد مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اور ان اسباب کی وجہ سے جن کا تذکرہ ہم نے کیا وہ اس عقیدے سے منحرف ہوگئے ۔ اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) تشریف لائے ۔ انہوں نے لوگوں کو دوبارہ رب العالمین کے عقیدہ توحید پر قائم ہونے کی دعوت دی ۔ ان کی دعوت کے اختتام پر ایک عظیم طوفان آیا اہل ایمان نے نجات پائی اہل تکذیب کو طوفان میں غرق کردیا گیا ۔ اس کرہ ارض پر اہل توحید نے قبضہ کیا اور اسے آباد کردیا ۔ دنیا کی اس تعمیر نو کی تعلیم ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے واسطے سے دی تھی ۔ جب مزید وقت گزرا تو یہ لوگ پھر گمراہ ہوگئے اور اس کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) تشریف لائے اور انکی دعوت کے اختتام پر انہیں ایک سخت ہوائی طوفان نے آلیا یوں یہ قصہ اسی طرح آگے بڑھتا رہا اور تاریخ کا سفر جاری رہا ۔ ان رسولوں میں سے ہر رسول اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا ۔ اس نے یوں خطاب کیا ” اے برادران قوم ‘ صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے ۔ “ اور ہر رسول نے اپنی قوم سے کہا آیت ” انا لکم ناصح امین “۔ میں تمہارے لئے ناصح امین ہوں ۔ “ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کو اپنی عظیم ذمہ داریوں کا کس قدر شدید احساس تھا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی قوم کے لوگ جس صورت حالات میں پھنسے ہوئے ہیں دنیا اور آخرت میں اس کا انجام کس قدر برا ہونے والا ہے ۔ رسولوں کے دلوں میں شدید خواہش تھی کہ ان کی قوم ہدایت پائے اس لئے کہ وہ قوم میں سے تھے اور قوم ان سے تھی مگر اس وقت قوم کے سرداروں نے ان کی راہ روکی اور حکم حق کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اللہ رب العالمین کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کردیا ۔ ان سرداروں نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ نظام زندگی صرف اللہ کا جاری ہو اور اس نظام میں صرف اللہ کی بندگی ہو ۔ یہی وہ اساس ہے جس کے اوپر تمام رسالتوں کا مدار رہا اور اسی کے اوپر اللہ کے ہاں سے تمام ادیان استوار ہوئے ۔ لیکن رسولوں نے تمام طاغوتی طاقتوں اور تمام سرداروں کے منہ پر کلمہ حق نہایت ہی وضاحت اور صاف گوئی کے ساتھ بلند کیا اور ہر بار انکی قوم دو نظریاتی دھڑوں میں تقسیم ہوئی ۔ لوگوں کے درمیان قومیت اور رشتہ داری کے روابط کٹ گئے اور ان کی جگہ ایک نظریہ کی اساس پر اخوت استوار ہوگئی ۔ جو لوگ ایک قوم کے افراد تھے وہ دو امتوں کی شکل اختیار کرگئے اور یوں نظر آنے لگے کہ ان کے درمیان نہ تو کوئی قرابت ہے اور نہ ہی متحدہ قومیت کا کوئی تعلق ہے ۔ اس کشمکش کے بعد فتح آتی ہے اور اس کے ذریعے دونوں امتوں کے درمیان فیصلہ ہوجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ امت ہدایت اور امت ضلالت کے درمیان جدائی کردیتا ہے ۔ اب جھٹلانے والے مستکبرین اور سردار پکڑے جاتے ہیں اور مطیع فرمان اور سرتسلیم خم کرنے والے نجات پاتے ہیں ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی قوم نظریاتی اعتبار سے بٹی نہ ہو اور اللہ کی جانب سے فتح آگئی ہو ۔ ہمیشہ یہی ہوا کہ کوئی قوم نظریاتی اعتبار سے بٹ جاتی ہے ۔ اور پھر دونوں میں سے اہل حق فتح پاتے ہیں اہل اللہ ‘ اللہ کی بندگی اور غلامی میں خالص ہوجاتے ہیں ۔ وہ طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں صف آرا ہوجاتے ہیں اور خود اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں ۔ یہ وہ مشاہدہ ہے جو دعوت انبیاء کی تاریخ کے مطالعے کے دوران واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ ان تمام رسالتوں میں ایک بات پر فوکس کیا گیا ہے ۔ یہ کہ تمام لوگ رب واحد کی بندگی اور غلامی اختیار کریں اس لئے کہ صرف رب العالمین ہی بندگی کا مستحق ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم بندگی اور اقتدار اعلی کا حق دوسری تمام مخلوق سے لے کر رب العالمین کو دے دیں ۔ انسانی زندگی کا کوئی پہلو بھی اس کے عقیدے کے بغیر اصلاح پذیر نہیں ہوسکتا ۔ تمام رسالتوں کے اس مشترکہ اصول کے بیان کے بعد قرآن کریم نے ان رسالتوں کی دعوت کی تفصیلات نہیں دی ہیں اس لئے کہ تمام رسولوں کے ادیان کی تفصیلات اسی مرکزی اصول پر مبنی تھیں ۔ کوئی بات اس عقیدے سے خارج نہ تھی ۔ یہ اصول چونکہ نہایت ہی اہم اور اساسی تھا اس لئے قرآن کریم نے اس پاس قدر زور دیا ہے کہ اسے علیحدہ بیان کیا ہے ۔ جس طرح ہم نے سورة انعام پر تبصرے میں کہا کہ تمام مکی قرآن کا اصل مبحث ہی یہی ہے لیکن مدنی حصے میں بھی جہاں جہاں موقع آیا ہے اس کی مناسبت سے اس موضوع پر بات ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام ایک ٹھوس حقیقت ہے ایک نظام ہے اور اس حقیقت کو پیش کرنے کے لئے ایک منہاج اور طریقہ کار ہے ۔ اور منہاج اسلام دین اسلام سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے ۔ اس لئے ہمیں یہ معلوم کرنا چاہئے کہ وہ عظیم حقیقت کیا ہے جسے یہ دین لے کر دنیا میں آیا ہے ؟ اسی طرح ہمیں دین اسلام کو سمجھنے کے لئے اور اس کے قیام کے لئے وہی منہاج اپنانا چاہئے جس میں اس حقیقت کو پیش کیا گیا ہے ۔ اور اس منہاج کا خلاصہ یہ ہے کہ عقیدہ توحید کو مکرر مؤکد اور منفرد انداز میں پیش کرنا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورة میں اس منہاج کو بار بار مؤکد سے مؤکد الفاظ میں اور نہایت ہی واضح اور سادہ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے اور یہ منہاج اس سورة کے تمام قصص میں واضح ہے ۔ اس سورة میں جو قصص بیان ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کا مزاج کیا ہوتا ہے اور کفر کا مزاج کیا ہوتا ہے اور نفس انسانی پر دونوں کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں بتکرار بتایا جاتا ہے کہ جو قلوب ایمان کے لئے مستعد ہوتے ہیں وہ کس قسم کے ہوتے ہیں اور جو دل کفر اور انکار پر آمادہ ہوتے ہیں وہ کس قسم کے ہوتے ہیں ؟ جن لوگوں نے رسولوں کی دعوت کو قبول کیا ان کے دلوں میں کبر و غرور نہ تھا اور وہ رسولوں کی دعوت کو قبول کرنے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرتے تھے ۔ ان کو یہ بات انوکھی نہ لگتی تھی کہ اللہ ان میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیج دے جو ان تک اس کا پیغام پہنچائے اور انہیں انجام بد سے خبردار کرے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے کسی بھی رسول کو ماننے سے انکار کیا ‘ وہ ہمیشہ اس قسم کے لوگ رہے ہیں جنہوں نے گناہ کی راہ اس لئے اختیار کی کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے تھے اور صاحب مرتبہ لوگ تھے ۔ انہوں نے اللہ کے اقتدار اعلی کے قیام کے بجائے خود اپنا اقتدار لوگوں پر مسلط کردیا تھا اور کسی صورت میں بھی اس غاصبانہ اقتدار سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہ تھے ۔ نہ اس کے لئے تیار تھے کہ وہ خود اپنے ایک عام آدمی کی سمع و اطاعت کریں ۔ یہی لوگ تھے جن کے لئے قرآن کریم ” ملاء “ کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ یہ حکام بڑے لوگ صاحب قوت اقتدار لوگ تھے اور یہیں سے اس دین کا اصل راز معلوم ہوتا ہے ۔ یہ راز اللہ کا اقتدار اعلی اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کا مسئلہ ہے ۔ یہ بڑے لوگ رسول کے ان الفاظ کے نتائج کو اچھی طرح سمجھتے تھے ” اے بردران قوم ! صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا اور کوئی حاکم نہیں ہے ۔ “ اور ” میں تو رب العالمین کا فرستادہ ہوں “۔ وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار اور حاکمیت اللہ کی ہوجائے اور اللہ کا رسول یہ شخص ہو تو ظاہر ہے کہ ان کی تمام بڑائی ختم اور ان کے تمام اختیارات از خود اس شخص کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں جو رب العالمین کا نمائندہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس دعوت کے لئے سد راہ بن گئے تھے اور نتیجۃ ان لوگوں میں شامل ہوگئے تھے جو ہلاک ہونے والے تھے ۔ یہ لوگ اس اقتدار اعلی کے شیدانی ہوگئے تھے کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی انہی کی راہ پر چلتی تھیں اور انہی کی طرح جہنم کی راہ پر پڑگئی تھیں جس کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہ تھا ۔ غرض جھٹلانے والوں کی مقتل گاہوں کے جو نقشے ان قصص میں کھینچے گئے ہیں وہ اللہ رب العالمین کی اس سنت کے مطابق ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کو یکسر بھلا دیتے تھے اور اللہ کی راہ سے انحراف کرلیتے تھے ۔ اللہ کی جانب سے رسولوں کے ذریعے ڈراوا آتا تھا اور وہ اللہ کی بندگی کے اقرار کو اپنے لئے ہتک سمجھتے تھے ۔ وہ اپنی خوشحالی پر فخر کرتے اور مطالبہ کرتے کہ جلدی عذاب لاؤ ۔ اس کے برعکس وہ رسول اور اہل ایمان کو دھمکیاں دیتے اور ایذا پہنچاتے ‘ جس کے مقابلے میں اہل ایمان ثابت قدم رہتے اور اپنے نظریات پر جم جاتے ۔ اس کے بعد پھر عذاب الہی آجاتا ۔ یہ ہے تاریخ انسانیت ۔ سب سے آخری بات یہ ہے کہ باطل کی سرکش قوت کا مزاج ہی یہی ہے کہ وہ سچائی کے وجود ہی کو برداش کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ سچائی اگر باطل کے مقابلے میں گوشہ نشین ہو کر حق و باطل کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دے تو بھی باطل اسے برداشت نہ کرے گا ۔ بلکہ باطل اس کا پیچھا کرے گا اور اسے آخری حدوں تک بھگانے کی سعی کرے گا ۔ اسے شکست دینے کی کوشش کرے گا ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا : ” تم میں سے اگر ایک گروہ اس دعوت پر ایمان لایا ہے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ ایمان نہیں لایا تو تم صبر کرو کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے ‘ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ “ لیکن انہوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اور وہ اس بات کو برداشت نہ کرسکے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے سچائی موجود ہو اور وہ پھلے پھولے نہ کوئی باطل یہ برداشت کرسکتا ہے کہ کوئی ایسی جماعت میدان میں موجود رہے جو صرف اللہ کی بندگی کرتی ہو اور تمام طاغوتی طاقتوں کے اقتدار اعلی کی منکر ہو ۔ “ شیعب (علیہ السلام) کی قوم سے ان لوگوں نے جو مستکبرین تھے ‘ انہوں نے یہ کہا ” اے شعیب ہمیں تو تم کو اور ان لوگوں کو جو تم پر ایمان لے آئے ہیں اپنے اس گاؤں سے نکالنا پڑے گا ۔ یا تمہیں ہمارے نظام وملت میں واپس آنا ہوگا ۔ “ لیکن حضرت شعیب (علیہ السلام) بھی ان کی اس تجویز کو صاف صاف رد کردیتے ہیں ۔ ’ انہوں نے کہا ‘ تب بھی کہ ہم ایسا نہ چاہ رہے ہوں ۔ اگر ہم تمہارے نظام اور ملت میں واپس لوٹ آئیں گے تو ہم تو اللہ پر افتراء پردازی کر رہے ہوں گے جبکہ اس سے اللہ نے ہمیں نجات دے دی ہے ۔ “ یہ مکالمہ بتاتا ہے کہ اہل دعوت پر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ یہ معرکہ آرائی فرض ہے اور انہیں اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔ کوئی اٹکل اور کوئی حکمت حاملین دعوت اسلامی کو اس معرکے سے بچا نہیں سکتی اس لئے کہ طاغوتی طاقتیں تب آرام کریں گی جب وہ دعوت اسلامی کو اپنے نظریات سے منحرف کرلیں گی یہ قوتیں تب دم لیں گی جب تک داعیان حق واپس ان کی گمراہ ملت کی طرف لوٹ نہ آئیں گے حالانکہ اللہ نے انکے دل سے یہ منحرف ملی نظریات نکال کر ان کے دل میں صرف اللہ کے اقتدار اعلی کے نظریات بٹھا دیئے ہیں ۔ لہذا ان دونوں قوتوں کے درمیان معرکہ آرائی لابدی ہے اور اس سے نہیں بچا جاسکتا ۔ جب معرکہ لابدی ہے تو پھر اس کی مشکلات کو برداشت کرنا بھی لابدی ہے ۔ اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک فتح نصیب نہیں ہوجاتی اور جب تک وہ کشتیاں جلا کر شعیب (علیہ السلام) کا یہ نغمہ نہیں الاپتے ۔ ” ہم نے اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے ۔ اے اللہ اب تو ہی ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما کیونکہ تو بہترین فیصلے کرنے والا ہے ۔ “ (علی اللہ توکلنا “۔ (7 : 89) اب اللہ کی سنت چلتی ہے اور پوری انسانی تاریخ میں یہ چلتی رہی ہے ۔ ان قصص پر یہ تبصرہ کافی ہے ۔ اب آیات قرآن تفصیلات کے ساتھ ۔
Top