Al-Qurtubi - Hud : 91
الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو جَعَلُوا : انہوں نے کردیا الْقُرْاٰنَ : قرآن عِضِيْنَ : ٹکڑے ٹکڑے
یعنی قرآن کو (کچھ ماننے اور کچھ نہ ماننے سے) ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
آیت نمبر 91 یہ باٹنے والوں کی صفت ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ مبتدا ہے اور اسکی خبر لنسئلنھم ہے۔ اور عضین کی واحد عضۃ ہے، یہ عضیت الشئ تعضیۃ سے ماخوذ ہے یعنی میں نے اسے متفرق کردیا اور ہر فرقہ (اور گروہ) عضۃ کہلاتا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : یہ اصل میں عضوۃ تھا پس اس سے واؤ کم کردی گئی، اور اسی وجہ سے اس کی جمع عضین ہے، جیسا کہ انہوں نے کہا ہے : عذین عذۃ کی جمع ہے۔ اور یہ اصل میں عزوۃ تھا، اور اسی طرح ثبۃ اور اس کی جمع ثبین ہے۔ اور معنی اسی کی طرف لوٹتا ہے جو ہم نے مقتسمین کے ضمن میں ذکر کردیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ بعض (قرآن) کے ساتھ ایمان لائے اور بعض کے ساتھ انہوں نے کفر کیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : انہوں نے قرآن کریم کے بارے میں متفرق جھوٹ گھڑے اور اسے جھوٹ، سحر، کہانت، اور شعر قرار دیا۔ عضوتہ ای فرقتۃ (میں نے اسے بکھیر دیا) ۔ ولیس وبن اللہ بالمعضی اللہ تعالیٰ کا دین متفرق ہے۔ ای بالمفرق (جس کو تقسیم کیا گیا ہو) اور کہا جاتا ہے : اس میں ھاء کم کردی گئی ہے اور اسکی اصل عضھۃ ہے کیونکہ العضہ اور العضین لغت قریش میں اس کا معنی سحر ہے۔ اور وہ ساحر کو عاضہ اور ساحرۃ (جادو گر عورت) کو عاضھۃ کہتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر کا قول ہے : أعوذ بربی من النافثات فی عقد العاضہ المعضہ اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے العاضھۃ اور المستعضھۃ پر لعنت کی ہے۔ اور اس کی تفسیر الساحرۃ (جادو کرنے والی) اور المستسحرۃ (جادو کرنے والی) سے کی گئی ہے۔ اور اس کا معنی ہے : انہوں نے قرآن کریم پر کثرت سے بہتان لگائے اور اس کے بارے میں طرح طرح کی کذب بیانی کی، پس انہوں نے کہا : یہ جادو ہے اور پہلے لوگوں کے افسانے ہیں، اور یہ کہ یہ گھڑا ہوا جھوٹ ہے، علاوہ ازیں اسی طرح کی باتیں کی۔ اور حرف کم کرنے میں عضۃ کی نظیر شفۃ ہے، اس کی اصل شفھۃ ہے، جیسا کہ انہوں نے کہا ہے : سنۃ اور اس کی اصل سنھۃ ہے، پس انہوں نے ھاء اصلیہ کو ساقط کردیا اور ھا علامت تانیث کو قائم رکھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ العضہ سے ماخوذ ہے اور اسکا معنی النمیمۃ (طغلخوری) ہے۔ اور العضیھۃ سے مراد بہتان ہے، اور یہ انسان کا چغلی کھانا ہی ہوتا ہے اور آدمی اس میں وہ کچھ کہتا ہے جو اس میں نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے : عضھہ عضھا اس نے اس پر بہتان باندھا۔ وقد أعضھت یعنی میں بہتان لے کر آیا۔ (میں نے بہتان تراشی کی) ۔ کسائی نے کہا ہے : العضۃ کا معنی جھوٹ اور بہتان ہے، اور اس کی جمع عضون ہے، مثلا عزۃ اور اس کی جمع عزون ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الذین جعلوا القرآن عضاین (جنہوں نے کردیا تھا قرآن کو پارہ پارہ) اور کہا جاتا ہے : عضوہ یعنی وہ اس کے ساتھ ایمان لائے جسے انہوں نے پسند کیا اور باقی کے ساتھ کفر کیا، پس ان کے کفر نے ان کے ایمان کو ضائع کردیا۔ اور فراء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ العضاۃ سے ماخوذ ہے، اور یہ وادی کا ایک درخت ہے اور وہ کانٹے کی طرح نکلتا ہے۔
Top