Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 91
الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو جَعَلُوا : انہوں نے کردیا الْقُرْاٰنَ : قرآن عِضِيْنَ : ٹکڑے ٹکڑے
یعنی قرآن کو (کچھ ماننے اور کچھ نہ ماننے سے) ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا
الذین جعلوا القران عضین یعنی آسمانی کتاب کے مختلف اجزاء قرار دئیے تھے (بعض حصوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے ‘ تم پر بھی نازل کریں گے) ۔ سائل نے دریافت کیا : عِضِیْنَ کا کیا مطلب ہے ؟ فرمایا : بعض حصہ پر ایمان لائے ‘ بعض کا انکار کردیا۔ عِضِیْن ‘ عضَۃٌ کی جمع ہے۔ عضَۃٌ کا معنی ہے : ٹکڑا ‘ ایک پارہ (قاموس) عضَۃٌ کی اصل عِضْوَۃٌ تھی۔ عضی الشاۃ اس نے بکری کے اعضاء جدا جدا کر دئیے۔ یہود و نصاریٰ نے بھی قرآن کے دو ٹکڑے کر دئیے تھے ‘ ایک کو حق اور دوسرے کو باطل کہتے تھے۔ جس کو حق کہتے تھے ‘ اس کے متعلق کہتے تھے : یہ توریت و انجیل کے موافق ہے ‘ ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور جس حصہ کو باطل قرار دیتے تھے ‘ اس کے متعلق کہتے تھے : یہ توریت و انجیل کے خلاف ہے ‘ اسلئے غلط ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض اہل کتاب بطور استہزاء کہتے تھے : سورة بقرہ میری ہے۔ دوسرا کہتا تھا : آل عمران میری ہے۔ مجاہد نے کہا : الْمُقْتَسِمِیْن سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور قرآن سے مراد وہ (عیسائی و یہودی مذہب کی) کتابیں ہیں جو اہل کتاب پڑھتے تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی کتاب کو پہچان تو لیا تھا (یعنی اقرار تو کرتے تھے) مگر اس کو چھوڑ دیا تھا۔ بعض علماء نے کہا : الْمُقْتَسِمِیْن سے مراد ہیں : قرآن کے متعلق مختلف خیالات رکھنے والے کافر۔ کوئی قرآن کو جادو کہتا تھا ‘ کوئی شاعری ‘ کوئی کہانت اور کوئی داستان پارینہ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ اقتسام سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق ان کے اقوال بٹے ہوئے تھے۔ کوئی آپ کو جادوگر کہتا تھا ‘ کوئی شاعر ‘ کوئی کاہن۔ مقاتل کی روایت ہے کہ حج کے زمانہ میں ولید بن مغیرہ نے سولہ آدمی مکہ کی گھاٹیوں ‘ مختلف راستوں اور موریوں پر اس غرض سے مقرر کر دئیے تھے کہ جو کوئی باہر سے محمد ﷺ کے پاس آئے ‘ اس سے کہہ دیں کہ تم اس کے فریب میں نہ آجانا۔ مقرر کردہ لوگوں میں سے کچھ لوگ تو کہیں : یہ شخص دیوانہ ہے ‘ کچھ کہیں : کاہن ہے اور کچھ شاعر کہیں۔ خود ولید کعبہ کے دروازے پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔ جب اس سے دریافت کیا گیا کہ کچھ لوگ ساحر ‘ کچھ شاعر ‘ کچھ مجنون کہتے ہیں ‘ تمہارا کیا فیصلہ ہے ؟ ولید نے کہا : یہ سب باتیں ٹھیک ہیں ‘ سب لوگ سچ کہتے ہیں۔ اب اگر مقتسمین سے مراد یہودی لئے جائیں تو اللہ کی طرف سے جو عذاب ان پر آیا ‘ وہ بنی قریظہ کے قتل اور بنی نضیر کے ملک بدر کئے جانے کی صورت میں نمودا ہوا اور اگر متتسمین سے مراد قریش (ولید کے مقرر کئے ہوئے اشخاص) ہوں تو بدر کی شکست کی شکل میں ان پر اللہ کا عذاب آیا۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک متتسمین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت صالح کو رات میں قتل کردینے کا مشورہ کیا تھا اور اس پر قسمیں کھائی تھیں (اس صورت میں الْمُقْتَسِمِیْن کا ترجمہ ہوگا : قسمیں کھانے والے) ۔ بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ عِضِیْن ‘ عضَۃٌ کی جمع ہے اور عضَۃٌ کی اصل عِضْہَۃٌ تھی ‘ جیسے شَفَۃٌ اصل میں شَفْہَۃٌ تھا۔ عضَۃٌ جھوٹ اور بہتان کو کہتے ہیں۔ صاحب قاموس نے عضَۃٌ کا معنی کذب لکھا ہے۔ حدیث بیعت میں آیا ہے : وَلاَ یَعْضِہُ بعضُنا بعضًا ایک دوسرے پر بہتان نہ باندھے ‘ کذب تراشی نہ کرے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے : ایَّاکُمْ وَالْعِضَۃَ بہتان تراشی سے بچو۔ زمخشری نے کہا کہ عضَۃٌ اصل میں عِضْھَۃٌ بروزن فِعْلَۃٌ تھا اور عضَۃٌ کا معنی ہے : بہتان۔ کذا فی النہایۃ للجزری۔ بعض اہل لغت کا قول ہے کہ العِضَۃُ کا معنی ہے : جادو۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے : العضوان بمعنی جادو۔ یہ عِضْھَۃٌ کی جمع ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے : لعَنَ اللّٰہُ العَاضِھَۃَ وَالْمُسْتَعْضِھَۃَ جادو کرنے والی اور جادو کرانے والی پر اللہ کی لعنت (النہایۃ) یہ بھی ممکن ہے کہ کَمَآ اَنْزَلْنَا کا تعلق وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سے ہو اور اٰتَیْنَا کا معنی ہو اَنْزَلْنَا اور اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ سے مراد (عذاب نازل کرنا نہ ہو بلکہ) توریت و انجیل نازل کرنا ہو۔ مطلب اس طرح ہوگا : ہم نے آپ پر سبع مثانی نازل کیں ‘ جیسے یہود و نصاریٰ پر توریت و انجیل اتاری۔ اس صورت میں لاَ تَمُدَّنَّ سے آخر آیت تک جملہ معترضہ ہوگی اور اَلَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ- الْمُقْتَسِمِیْنَ کی صفت ہوگی۔ لیکن اگر الْمُقْتَسِمِیْنَ سے مراد وہ لوگ ہوں جنہوں نے حضرت صالح کو قتل کرنے کا باہم مشورہ کیا تھا تو اَلَّذِیْنَ جَعَلُوا متبداء ہوگا اور آئندہ آیت خبر۔
Top