Tafseer-e-Haqqani - Ibrahim : 19
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہ دیکھا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَاْتِ : اور لائے بِخَلْقٍ : مخلوق جَدِيْدٍ : نئی
(اے مخاطب ! ) کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو ٹھیک طور پر بنایا۔ اگر وہ چاہے تو تم کو لے جاوے اور نئی خلقت لے آئے (تو کرسکتا ہے)
ترکیب : ان اللّٰہ جملہ قائم مقام دونوں مفعولوں کے الم تر سے۔ من عذاب اللّٰہ موضع نصب میں ہے حال ہو کر کیونکہ اصل میں شیء کی صفت ہے تقدیرہ من شیء من عذاب اللہ من زائدۃ ای شیئا کائنًا من عذاب اللہ الا ان استثناء منقطع ہے لان دعائہ لم یکن سلطاناً ای حجۃ مصرخی جمہور بفتح الیاء پڑھتے ہیں اور یہ جمع مصرخ کی اول ی جمع کا دوم ی متکلم میں ادغام ہوگیا وادخل برزوا پر معطوف۔ تفسیر : کفار کے غرور آمیز کلمات کے جواب میں پہلے تو خود ان کا برباد ہونا اور جہنم میں جانا اور ان کے بعد انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے گروہ کا ان کی زمین اور ملک پر قابض اور متصرف ہونا بیان فرمایا تھا۔ اب ان مخالفین کے دل پر اس بات کو دلیل سے قائم کرتا ہے الم تر کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو کس انتظام اور خوبی تمام کے ساتھ پیدا کردیا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ روئے زمین سے تم کو مٹا کر اور نئی قوم کو تمہاری جگہ دنیا پر بسائے۔ کہاں گیا فرعون اور کہاں ہیں ساسانی اور کس جگہ ہیں کیا نی اور روم کے قیاصرہ ‘ کہاں چھپ گئے۔ یونان کی اولوالعزم قومیں کہاں جا سوئیں ‘ ہندوستان کے قدیم راجے کہاں گئے پھر مسلمانوں میں خلجی اور تغلق اور لودھی کہاں چلے گئے تیموریوں کا اوج موج کہاں گیا۔ رہے نام اللہ کا ! انبیاء (علیہم السلام) کے مقابلہ میں اپنی جاہ و حشم پر غرور کرنا فضول ہے اس کے بعد روز قیامت کا واقعہ جانگداز ذکر کرتا ہے تاکہ انبیاء (علیہم السلام) کے طریقہ کو چھوڑ کر شیطانی راہ پر چلنے کا مزہ معلوم ہو و برزوا الخ کہ قیامت کے دن سب لوگ اللہ کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے اور اس مصیبت میں دنیا کے غریب لوگ اپنے سرداروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے وہاں فرمانبردار تھے آج تم ہمارے کچھ کام آسکتے ہو ‘ عذاب دفع کرسکتے ہو۔ وہ کو را جواب دیں گے پھر فیصلہ کے بعد جہنم میں جب شیطان اور اس کے پیرو ڈال دیے جاویں گے تو شیطان کہے گا کہ میرا وعدہ تم سے غلط تھا مگر اللہ کا سچا وعدہ تھا اب تم مجھے کچھ ملامت نہ کرو۔ کچھ میں نے تم پر زبردستی تو نہیں کی تھی بلکہ تمہارے دل میں وسوسہ ڈال دیا تھا جس پر تم جم گئے۔ اپنے ہی آپ کو ملامت کرو خدا کا کہنا چھوڑ کر میرا کیوں مانا تم تو مجھے خدا کا شریک بتاتے تھے۔ میں نے تو پہلے ہی سے اس کا انکار کردیا ہے۔ یا یہ کہ تمہارے شریک بنانے سے پیشتر میں کافر ہوچکا تھا۔ جس طرح میں ازخود گرفتار ہوا اسی طرح تم بھی ہوئے اس کے بعد ایمانداروں ‘ نیکی کرنے والوں کا حال بیان فرماتا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوں گے جہاں نہریں بہتی ہوں گی اور باہم رنج و کسر نہ ہوگا بلکہ بوقت ملاقات ایک دوسرے کو سلام کہے گا۔
Top