بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب خوبی اللہ ہی کے لیے ہے کہ جس نے اپنے بندے (محمد) پر کتاب نازل کی اور اس میں کچھ بھی کجی نہیں رکھی۔ اس کو ٹھیک کردیا
1 ؎ قال الفراء الجزر الارفق التی لانبات فیہ یقال جرزت الارض شی مجروزۃ وجزرہا المجرادوا الشاۃ والابل اذا کلت ما علیھا وامراۃ جروزا اذا کانت کو لا وسیف جراز اذا کان ستا صلا۔ 12 منہ ترکیب : قیما صاحب الکشاف کہتے ہیں کہ یہ الکتاب سے حال نہیں ہوسکتا بلکہ یہ منصوب ہے مضمر سے والتقدیر لم یجعل لہ عوجا و جعلہ قیما صاحب حل العقد کہتے ہیں کہ یہ بدل ہے لم یجعل لہ عوجا سے کیونکہ اس کے معنی ہیں جعلہ مستقیما۔ لینذر انزل سے متعلق ہے انذرمتعدی ہوتا ہے دو مفعولوں کی طرف کقولہ اناانذرنا کم عذابًا قریبًا مگر یہاں صرف باسا ایک مفعول پر کفایت کی گئی ویبشر معطوف ہے ینذر پر ان لہم ای بان لھم جملہ یبشر کے متعلق یا اس کا بیان ماکثین مکث بمعنی قیام سے مشتق ہے جس کے معنی ٹھہرا رہنا ‘ یہ حال ہے ضمیر لہم سے۔ ابدًا منصوب ہے ظرف ہو کر من علم من زائد اور علم مرفوع علی الابتداء والفا علیۃ الاعتماد الظرف والجملۃ حالیۃ اومستانفۃ لبیان حالھم فی مقالھم کلمۃ منصوب ہے تمیز ہو کر ضمیر مبہم سے جو کبرت کی فاعل کبس رجلا مخصوص بالذم مخدوف ہے۔ ایھی فلعلک الخ جملہ دال برجزاء شرط ان لم یؤمنوا سے اسفًا مفعول لہ ہے باخع کا۔ قال اللیت بخع الرجل نفسہ اذاقتل۔ تفسیر : اس سورة کو سورة کہف اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کا حیرت انگیز حال بیان ہے جو کہف یعنی غار میں تین سو نو برس تک سو کر جاگے تھے۔ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی ہے اس کے فضائل میں بہت سی احادیث وارد ہیں ازانجملہ وہ ہے کہ جس کو بخاری و مسلم و غیرہما نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رات کو گھر میں اس سورة کو پڑھ رہا تھا اور گھوڑا بھی وہیں بندھا ہوا تھا۔ گھوڑا بدکنے لگا، اس نے اوپر سر اٹھا کر جو دیکھا تو ایک نور دکھائی دیا، بادل کی طرح سایہ کئے ہوئے تھا۔ صبح کو اس نے یہ ذکر آنحضرت ﷺ سے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو پڑھا کر یہ سکینہ (نور اطمینان) ہے جو اس کے پڑھنے سے نازل ہوتی تھی اور جمعہ کے روز اس کے پڑھنے کے فضائل بھی احادیث میں بکثرت ہیں۔ سورة اسراء کے اخیر میں یہ تھا قل الحمد للہ الذی لم یتخذ ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل اس جگہ اس کی حمد میں تین صفات سلبیہ مذکور ہوئے تھے کہ ستائش خدا کو ہے کہ جو اولاد اور شریک اور خانیٔ مددگار بنانے سے پاک ہے اور اس کے خاتمہ میں یہ صفات سلبیہ لانا کمال بلاغت تھا کس لیے کہ ابتدائِ سورة میں سبحان الذی الخ تھا اور تسبیح صفات سلبیہ سے ہی ہوا کرتی ہے تاکہ ابتدائِ کلام کو خاتمہ سے مناسبت تامہ رہے مگر حمد ضرور کسی خوبی اور نعمت محمود پر ہوتی ہے تو اس جگہ سورة کو پھر حمد کے ساتھ شروع کیا اور جس پر اس کی حمد و ستائش ہونی چاہیے ان میں سے اس کی بڑی خوبی اور بندوں پر نعمت اس کا ایک ایسی کتاب نازل کردینا ہے جس میں اس کے بھی بہت سے صفات کمال مذکور ہیں اور بندوں کے لیے نجات ابدی کا باعث ہے جس لیے ایک جگہ قرآن کو روح کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر بندوں پر اور کیا نعمت ہوگی پھر کتاب بھی کیسی کہ جس میں کوئی بھی کجی نہیں نہ باعتبار الفاظ کے نہ باعتبار معانی کے بلکہ سراسر راست۔ فقال الحمدللہ کہ جملہ ستائش اور تمام خوبیاں اللہ کو ہیں الذی انزل علی عبدہ الکتاب کہ جس نے اپنے بندے محمد ﷺ پر کتاب یعنی قرآن نازل کیا اور کتاب کے دو وصف ذکر فرمائے اول لم یعجل لہ عوجا اس میں کتاب کے کمال ذاتی کی طرف اشارہ ہے۔ دوم قیما جس میں غیر کے لیے مکمل ہونے کی طرف اشارہ ہے یعنی سب خوبیاں اللہ کے لیے ہیں کہ جس نے اپنے بندے محمد ﷺ پر ایسی کتاب یعنی قرآن نازل فرمایا کہ جس میں کچھ کجی اور ٹیڑھ پن نہیں ہر ایک بات اس کی عقل سلیم تسلیم کرتی ہے اور نہ صرف اس میں یہی وصف ہے بلکہ وہ کتاب قیم بھی ہے یعنی بنی آدم کی سعادت دارین کی کسوٹی اور راہ راست اور ان کے تمام مصالح اخروی و دنیوی کی متکفل کیونکہ قیم اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی کی مصالح کا متکفل ہوتا ہو۔ قیم کے لیے دو باتیں ضرور ہیں اول یہ کہ جس کا یہ قیم ہو اس کو پیش آنے والی ہلاکتوں سے مطلع کرے اور خوف دلائے۔ دوم اس کے فوائد اور ثمرات اعمال حسنہ اور تدابیر برجستہ کا مژدہ بھی دے تاکہ بری باتوں سے نفرت اور ان تدابیر حسنہ اور اعمال صالحہ کی طرف کامل رغبت ہو اس لیے پہلی بات پوری کرنے کے لیے یہ فرمایا لینذرباساشدیدا من لدنہ کہ قرآن لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو متنبہ کرتا ہے اور خوابگاہ دنیا کی گراں نیند میں سونے والوں کو جگاتا ہے۔ دوسری بات پوری کرنے کے لیے ویبشر المؤمنین فرمایا کہ ایمان والوں کو مژدہ دیتا ہے۔ پھر مومنین کا وصف ذکر کرتا ہے وہ کون ؟ کہ الذین یعلمون الصالحات جو نیک کام کرتے ہوں نہ صرف ایمان لانے پر بس کر بیٹھے ہوں کیونکہ ایمان بغیر اعمال صالحہ کے سعادتِ اُخرویہ تک نہیں پہنچاتا۔ اب ایک تو ان کا ایمان تھا دوم اعمال صالحہ۔ ان دونوں باتوں کے لیے دو انعام کا وعدہ فرمایا جاتا ہے اول ان لہم اجرًا حسنًا کہ ان کے لیے اچھا بدلہ ملے گا یعنی حیات ابدی ‘ بہشت۔ دوم ماکثین فیہ ابدًا کہ وہ اس اجر حسن یعنی بہشت میں ہمیشہ رہا بھی کریں گے یہ نہیں کہ وہ چند روزہ ہو۔ پھر خوف دلانا ایک تو عام لوگوں کو عام باتوں پر ہوتا ہے جیسا کہ لینذر، باسا شدیدا میں ذکر ہوا ایک خاص امر پر خوف دلانا ہوتا ہے جیسا کہ جس گناہ میں کوئی شخص مبتلا ہو اسی کا نتیجہ بیان کیا جائے۔ عرب کے مشرکین فرشتوں اور ارواح غیر مرئیہ کو خدا کی اولاد سمجھ کر ان کی پرستش کیا کرتے تھے، نذرونیاز کرتے تھے، عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے بلکہ اب تک کہتے ہیں اور بعض یہود عزیر (علیہ السلام) کی نسبت بھی یہ اعتقاد رکھتے تھے اس لیے ان تینوں فرقوں کی طرف عنان کلام کو پھیرا اور سب ہی پر سرزنش کی۔ فقال وینذرالذین قالوا اتخذ اللہ ولدًا مالہم بہ من علم الخ اس میں یہ بھی بتلایا کہ اس اعتقاد باطل پر ان کے پاس تو کیا ان کے باپ دادا کے پاس بھی کوئی یقین دلانے والی سند نہیں محض تو ہم فاسد ہے۔ یہ ایک تہدید تھی دوم کبرت کلمۃ کہ یہ بری اور سخت بات منہ سے نکال رہے ہیں۔ سوم ان یقولون الخ وہ جھوٹ بکتے ہیں آنحضرت ﷺ دنیا بھر کی اصلاح کے لیے آئے تھے تمام مخلوق کے لیے مجسم رحمت تھے باوجود اس خوف دلانے کے پھر بھی لوگوں کو اس اعتقاد باطل پر اڑے رہتے دیکھ کر ان کے نتیجہ بد کے لحاظ سے مشفقانہ طور پر بہت ہی غم و رنج کھاتے تھے جیسا کوئی شفیق باپ اپنی اولاد کی خراب کن حرکات پر برے نتائج خیال کر کے کڑھا کرتا ہے اور رنج کیا کرتا ہے یہی حال آپ کا تھا اس پر وہ بےنیاز خدا جو رحیم اور رحمن ہونے کے ساتھ جباروقہار منتقم بھی ہے اپنے رسول پاک ﷺ کی تسلی کرتا ہے کہ لعلک باخع الخ کہ کیا آپ ان ناہنجاروں پر کڑھ کڑھ کر مرجائیں گے، اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کر ڈالیں گے یعنی ایسا نہ کرو تمہارا جو کام تھا تم کرچکے۔ اب ایک بات اور تھی جو ایمانداروں، نیکوکاروں کو بسا اوقات خلجان میں ڈالتی ہے بلکہ بعض سست اعتقاد حق پرستی سے پہلوتہی کرنے لگتے ہیں وہ یہ کہ جو قومیں نہ قیامت پر ایمان رکھتی ہیں نہ خدا پر اور اسی طرح وہ بھی جو خدا کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں اور ان کے بھروسے پر طرح طرح کی بدکاری کرتے ہیں کہ یہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہیں یا خواہ مخواہ ہم کو اپنے باپ سے کہہ کر بخشوا دیں گے باوجود اس کے دنیا میں وہ خوب سرسبز ہیں ‘ ان کے پاس دولت حشمت ہر طرح کی کامرانی موجود ہوتی ہے، بڑے مزے اڑاتے پھرتے ہیں اور ہم خدا پرستی کی بدولت اس حالت میں مبتلا ہیں اس لیے جس طرح اپنے رسول پاک ﷺ کی تسلی کی تھی اسی طرح ایمانداروں کی بھی تسلی فرماتا ہے، فقال انا جعلنا ماعلی الارض زینۃ لہا کہ یہ جو کچھ سامان ہم نے پیدا کیا ہے، یہ دنیا کی زینت کے لیے بنایا ہے جو چند روزہ ہے اور دنیا بغیر اس کے مزین نہیں ہوتی، دنیا اسی کا نام ہے۔ یہ آخرت اور نئی زندگانی کی زینت نہیں جو ہمیشہ کے لیے ہے اور یہ سب کچھ اسی لیے بنایا ہے کہ لنبلوہم ایہم احسن عملًا اچھے بروں کا اس میں امتحان ہوجائے اور یوں تو ایک روز یعنی اس دن کہ نئی زندگانی کا جن سے آغاز ہوگا آغاز ہی میں ہم اس سب سامان کو صعیدًا جرزًا کردیں گے سب نیست و نابود ہوجائے گا، نہ وہ عمارات عالیہ رہیں گی ‘ نہ وہ باغ جن کو خلد منزل کہتے تھے، نہ وہ گھوڑے نہ وہ آرائش کا باقی سامان۔ پھر نئی زندگی میں تو ان میں سے کوئی چیز بھی کارآمد نہ ہوگی۔
Top