Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 65
فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ۚ۬ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَۙ
فَاِذَا : پھر جب رَكِبُوْا : وہ سوار ہوئے ہیں فِي الْفُلْكِ : کشتی میں دَعَوُا اللّٰهَ : اللہ کو پکارتے ہیں مُخْلِصِيْنَ : خالص رکھ کر لَهُ الدِّيْنَ ڬ : اس کے لیے اعتقاد فَلَمَّا : پھر جب نَجّٰىهُمْ : وہ انہیں نجات دیتا ہے اِلَى الْبَرِّ : خشکی کی طرف اِذَا هُمْ : ناگہاں (فورا) وہ يُشْرِكُوْنَ : شرک کرنے لگتے ہیں
اور جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی سے دعا مانگتے ہیں، پس جب وہ ان کو خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو پھر وہ اس کے شریک ٹھہرانے لگتے ہیں
فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَـہُ الدِّیْنَ 5 ج فَلَمَّا نَجّٰہُمْ اِلٰی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ ۔ لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰ تَیْنٰـھُمْ ج لا وَلِیَتَمَتَّعُوْا وقفۃ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ۔ (العنکبوت : 66) (اور جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی سے دعا مانگتے ہیں، پس جب وہ ان کو خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو پھر وہ اس کے شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔ تاکہ اللہ کی دی ہوئی نجات پر اس کی ناشکری کریں اور چند دن اور بہرہ مند ہولیں، پس وہ عنقریب جان لیں گے۔ ) دنیا کے سرمستوں کی ایک مثال گزشتہ آیت کریمہ میں کفار کی گمراہی کا اصل سبب دنیا کے ساتھ ان کی گرویدگی کو بیان کیا گیا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ان کی اسی خودفریبی، مفادپرستی اور دنیوی محبت کو ایک مثال سے واضح کیا گیا ہے۔ یعنی ان کی مثال ایسی ہے جیسے کشتی کے مسافر۔ وہ بحری سفر میں کشتی کو اپنے لیے عافیت کا ذریعہ جان کر اس میں سوار ہوتے ہیں۔ جب تک ہوا سازگار رہتی ہے تو کشتی نہایت رواں دواں انداز میں محوسفر رہتی ہے۔ اور یہ لوگ کشتی میں بیٹھے ہوئے اس قدر اپنی باتوں، کھانے پینے اور دوسری دلچسپیوں میں کھوئے رہتے ہیں کہ انھیں کبھی بھول کر بھی خیال نہیں ہوتا کہ ہوا کبھی ناموافق بھی ہوسکتی ہے اور یہ کشتی جو ہماری عافیت اور نجات کا ذریعہ ہے خطرے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ لیکن جیسے ہی مخالف طوفانی ہَوائوں کا زور بڑھتا ہے اور کشتی کسی گرداب میں پھنس کر ڈگمگانے لگتی ہے۔ اور کشتی کے سوار یوں محسوس کرتے ہیں کہ اب شاید ہم کبھی کنارے تک نہ پہنچ سکیں۔ اس وقت انھیں خدا یاد آتا ہے۔ اور اس سے دعائیں کرتے ہوئے مخلصانہ عہد کرتے ہیں کہ اگر ہم اس طوفان سے بچ نکلے تو ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مخلصانہ بندگی کریں گے اور کبھی اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ لیکن جب کشتی گرداب سے نکل آتی ہے تو یہ پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنانے لگتے ہیں اور اپنی پہلی سرمستیوں اور گمراہیوں میں کھو جاتے ہیں اور یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے ابھی اپنے اللہ سے کیا عہد کیا تھا۔ حیرانی کی بات ہے کہ ابھی پروردگار نے انھیں ایسی صورتحال سے نکالا جس میں انھیں موت نظر آرہی تھی۔ بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر ان میں شکرگزاری کے جذبات پیدا ہوتے ان کی پرانی ناشکری کی عادت لوٹ آتی ہے اور وہ پہلے سے زیادہ کفرانِ نعمت کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس پر بھی پروردگار فرماتا ہے کہ ہم انھیں مزید ڈھیل دیتے ہیں تاکہ وہ ہماری نعمتوں سے اور چند دن متمتع ہولیں۔ لیکن عنقریب وہ جان لیں گے کہ ان کی یہ روش انھیں کس برے انجام تک پہنچا کے چھوڑتی ہے۔
Top