Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 166
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَمَآ : اور جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچا يَوْمَ : دن الْتَقَى : مڈبھیڑ ہوئی الْجَمْعٰنِ : دو جماعتیں فَبِاِذْنِ : تو حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ وہ معلوم کرلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور جو کچھ مصیبت تم کو دونوں لشکروں کے مقابلہ کے دن پہنچی تو اللہ ہی کے اذن سے پہنچی
ترکیب : لما کلمہ تقیید بمعنی شرط اصبتم الخ موضع رفع میں صفت ہے مصیبۃ کی قلتم الخ جملہ شرطیہ اور تمام جملہ محل استفہام یا محض جواب وما بمعنی الذی جملہ مبتداء فباذن اللّٰہ خبر ولیعلم معطوف ہے محذوف پر للکفر اور للایمان کا لام اقرب سے متعلق ہے یقولون جملہ مستانفہ ہے اور حال بھی ہوسکتا ہے۔ ضمیر اقرب سے ای قربوا الی الکفر قائلین۔ تفسیر : پہلے منافقین کے اول شبہ کا جواب دیا کہ نبی کی شان خیانت نہیں۔ یہاں منافقین کے دوسرے شبہ کا جواب دیتا ہے جو کہ وہ ضعفا اہل اسلام کے دل میں احد کی ہزیمت سے ڈالتے تھے۔ وہ یہ کہ اگر یہ رسول برحق ہیں تو ان کو احد کے روز ہزیمت کیوں ہوئی ؟ اور باوجود وعدہ غلبہ اسلام کے یہ مصیبت کہاں سے آئی ؟ چونکہ خدا تعالیٰ کو اپنے اس لشکر صحابہ سے آیندہ بہت کچھ کام لینا تھا اور جنگوں میں ہرچند صحابہ کو خارق عادت فتوحات بھی نصیب ہوئیں مگر کبھی شکست بھی ہونا عالم اسباب کے مقتضیات سے ہے۔ اس لئے منافقوں کے اقوال نقل کرکے آیندہ کے لئے مسلمانوں کو پکا کردیا کہ اگر پھر کبھی ایسی صورت پیش آئی تو تذبذب اور بودھ دل کے نہ ہوجائیں۔ کامل عزیمت کے یہ معنی ہیں کہ اگر کسی کام میں سو بار بھی ناکامی ہو پھر بھی وہ ہی ہمت بندھی رہے اور ہمت کا قائم رہنا فتح مندی اور کامیابی کی دلیل ہے۔ عبداللہ بن ابی وغیرہ کہتے تھے کہ یہ مصیبت کیوں آئی ؟ اللہ فرماتا ہے تم تو اس سے دو چند ہزیمت خاص بدر اور احد کے روز مخالفوں کو دے چکے ہو۔ پھر یہ کہتے ہو کہ کہاں سے آئی۔ اے نبی ! کہہ دو یہ تمہاری شامت اعمال اور نافرمانی سے آئی۔ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ پھر توضیح کرتا ہے کہ مقابلہ کے روز جو کچھ پیش آیا وہ بھی مقدر تھا۔ اس میں مخلصین اور منافقین کا امتحان مقصود تھا۔ پھر اس روز کی کیفیت جو منافقوں سے ظہور میں آئی بیان فرما کر ان کو کوڑا سا مارتا ہے۔ وہ یہ کہ جب مقابلہ کو آنحضرت ﷺ نکلے تو عبداللہ بن ابی کی رائے یہ تھی کہ شہر سے باہر نہ نکلو ٗ گرچہ وہ بھی لشکر اسلام میں شامل ہو کر نکلا مگر عین مقابلہ کے وقت مع تین سو آدمیوں کے بھاگ پڑا۔ جب اس سے عبداللہ ابن عمرو بن حزام انصاری ؓ نے کہا کہ اے بھلے مانس ! تو ہمیشہ سے دعویِٰ اسلام کیا کرتا تھا اب خدا کی راہ میں لڑ اور اگر اسلام پر تیرا عقیدہ نہیں تو پاس شہر اور برادری سے ہی مخالفوں کو ہٹا۔ اس نے کہا صاحب ہم کو لڑنا نہیں آتا۔ اگر آتا تو ہم تمہارے تابع رہتے۔ یہ بات اس نے بطور طعن کے کہی تھی کہ میرا کہنا کیوں نہ مانا۔ اللہ فرماتا ہے یہ لوگ اس روز بہ نسبت ایمان کے کفر کے زیادہ قریب تھے کیونکہ ان کے بھاگنے سے کفر کو مدد ملی اور یہ باتیں صرف زبان سے کہتے ہیں دل میں کفر پوشیدہ ہے۔ اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ : یعنی بدر میں تم کفار پر دو چند مصیبت ڈال چکے ہو۔ اب احد کی لڑائی میں جو کچھ تم پر مصیبت آگئی تو کہتے ہو کہ یہ کیوں آئی اور کہاں سے آئی ؟ حالانکہ یہ تمہاری نافرمانی سے آئی اور نافرمانی کا یہ حال تھا کہ جب منافقوں کو جنگ میں شریک ہونے کو کہا گیا کہ چلو لڑیں اور یہ نہیں تو اپنے شہر سے ہٹا ہی دیں تو حیلہ کرنے لگے کہ ہمیں لڑنا نہیں آتا۔ 12 منہ
Top