Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 166
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَمَآ : اور جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچا يَوْمَ : دن الْتَقَى : مڈبھیڑ ہوئی الْجَمْعٰنِ : دو جماعتیں فَبِاِذْنِ : تو حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ وہ معلوم کرلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مقابلے کے دن واقع ہوئی سو خدا کے حکم سے واقع ہوئی اور (اس سے) یہ مقصود تھا کہ خدا مومنوں کو اچھی طرح معلوم کرلے
آیت نمبر : 166 تا 167۔ یعنی (وہ مصیبت) جو احد کے دن قتل، زخم اور ہزیمت کی صورت میں پہنچی، (آیت) ” فباذن اللہ “ تو وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں، اور یہ بھی کہا ہے : وہ اللہ تعالیٰ کی قضا اور تقدیر کے ساتھ پہنچی، قفال نے کہا ہے : پس وہ اللہ تعالیٰ کے تمہارے اور ان کے درمیان معاملہ آزاد چھوڑنے کے سبب پہنچی، نہ کہ اس نے اس کا ارادہ کیا اور یہ معتزلہ کی تاویل ہے، اور (آیت) ” فباذن اللہ میں فا داخل ہے کیونکہ ما بمعنی الذی ہے، یعنی وہ مصیبت جو تمہیں اس دن پہنچی جب دونوں لشکر مقابلے کے لئے نکلے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور قضا سے پہنچی۔ پس کلام شرط کے معنی کے مشابہ ہوگیا، جیسا کہ سیبویہ نے کہا ہے : الذی قام فلہ درہم “۔ (جو کھڑا ہوا تو اس کے لئے ایک درہم ہے) (آیت) ” الیعلم المؤمنین، ولیعلم الذین نافقوا “۔ یعنی تاکہ وہ (مومینن اور منافقین کو) الگ الگ کر دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تاکہ مومنین کا ایمان جنگ میں انکے ثابت قدم رہنے کے ساتھ ظاہر ہوجائے اور تاکہ منافقین کا کفران کے (مصیبت پر) خوشی کا اظہار کرنے کے ساتھ ظاہر ہوجائے پس وہ اسے جان لیں گے، اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” نافقوا، وقیل لھم ‘۔ اشارہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی طرف ہے جو اس کی معیت میں حضور نبی مکرم ﷺ کی مدد ونصرت سے واپس لوٹ گئے تھے اور وہ تین سو تھے اور ان کے پیچھے عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری اور ابو جابر بن عبداللہ بھی نصرت سے واپس لوٹ گئے تھے اور وہ تین سو تھے اور ان کے پیچھے عبداللہ بن عمروبن حرام انصاری اور ابو جابر بن عبداللہ بھی چلے تو آپ نے انہیں فرمایا : اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے نبی کو نہ چھوڑو اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرو یابچاوـ کرو اور اسی کی طرح بات کہی، ابن ابی نے آپ کو کہا : میں نہیں جانتا تھا کہ جنگ ہوگی، اور اگر ہم جانتے کہ جنگ ہوگی تو یقینا ہم تمہارے ساتھ ہوتے، پس جب عبداللہ ان سے مایوس ہوگئے تو اس نے کہا : (اے) اللہ کے دشمنو ! تم جاؤ پس اللہ تعالیٰ اپنے رسول معظم ﷺ کو تم سے مستغنی کر دے گا۔ اور وہ حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ چلا گیا اور شہید کردیا گیا (رح) (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 539، 538 دارالکتب العلمیہ) قول باری تعالیٰ : (آیت) ” اوادفعوا “ کے معنی میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے پس سدی اور ابن جریج وغیرہما نے کہا ہے : تم ہماری تعداد میں اضافہ کرو اگرچہ تم ہمارے ساتھ مل کر جنگ نہ کرو، تو یہ دشمن کو روکنے اور اسے دور ہٹانے کا (سبب بن) جائے گا (2) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 578) کیونکہ تعداد جب بڑھ جائے تو دشمن کو دور ہٹانے اور دفاع کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ اور حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا ہے : میں نے جنگ قادسیہ کے دن حضرت عبداللہ بن ام مکتوم الاعمی کو دیکھا وہ زرہ پہنے ہوئے ہیں اور اس کی اطراف کھینچ رہے ہیں اور اس نے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا جھنڈا ہے، تو ان کو کہا گیا : کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور نہیں قرار دیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! لیکن میں اپنی ذات کے ساتھ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہوں اور انہی سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ کی راہ میں میرا وجود کیسا ہے ؟ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 539 دارالکتب العلمیہ) اور ابو عون انصاری نے کہا ہے : (آیت) ” اوادفعوا “ کا معنی ہے ہے رابطوا (سرحد کے پاس دشمن کے مقابلے میں پڑاؤڈالو) اور یہ معنی پہلے کے قریب ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ مقابلے میں پڑاؤ ڈالنے والا دفاع کرنے والا ہی ہوتا ہے، کیونکہ اگر سرحد پر پڑاؤ ڈالنے والوں کی جگہ نہ ہو تو یقینا وہاں تک دشمن آجائے، اور مفسرین کی ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کا قول ہے کہ (آیت) ” اوادفعوا “۔ یہ جنگ کی طرف دعوت ہے از روئے حمیت کے، کیونکہ آپ نے انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرنے کی دعوت دی اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہی بلند ہوگا۔ پس جب آپ نے دیکھا کہ وہ اس پر نہیں آرہے تو آپ نے ان پر ایک ایسی وجہ پیش کی جو انہیں غضب دلائے اور خود داری کو ابھارے یعنی یا سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے قتال کرو، کیا آپ جانتے نہیں کہ قزمان نے کہا ہے : قسم بخدا ! میں نے قتال نہیں کیا مگر اپنی قوم کی عزوشرف اور محاسن ومفاخر کی وجہ سے، اور کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ انصار میں سے کسی نے کہا احد کے دن جب اس نے قریش کو دیکھا : تحقیق میں سواری کو وادی قناۃ کی کھیتیوں میں چھوڑ دیا، کیا بنی قیلہ کی کھیتیاں چرالی جائیں گی، اور ہم باہم نہیں لڑیں گے ؟ اور معنی یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں نہیں لڑتے تو انہی جانوں اور عزت کو بچانے کے لئے لڑو۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ہم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان “۔ یعنی انہوں نے اپنا حال بیان کردیا اور اپنے پردے چاک کردیئے اور اپنے نفاق کو ظاہر کردیا ہر اس کے لئے جو یہ گمان رکھتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں، پس وہ ظاہر حال میں کفر کے زیادہ قریب ہوگئے، اگرچہ وہ فی الحقیقت کافر تھے۔ اور قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یقولون بافواھم مالیس فی قلوبھم “۔ یعنی انہوں نے ایمان ظاہر کیا اور کفر کو چھپا کر رکھا، اور افواہ (مونہوں) کا ذکر بطور تاکید ہے جیسا کہ یہ قول ہے یطیربحناحیہ۔
Top