Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 166
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَمَآ : اور جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچا يَوْمَ : دن الْتَقَى : مڈبھیڑ ہوئی الْجَمْعٰنِ : دو جماعتیں فَبِاِذْنِ : تو حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ وہ معلوم کرلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ کے اذن سے تھا اور اس لیے تھا کہ اللہ دیکھ لے تم میں سے مومن کون ہیں
[وَمَـآ : اور جو ] [اَصَابَکُمْ : آپہنچی تم لوگوں کو ] [یَوْمَ : اس دن (جب) ] [الْـتَقَی : آمنے سامنے ہوئیں الْجَمْعٰنِ : دو جماعتیں ] [فَبِاِذْنِ اللّٰہِ : تو (وہ) اللہ کی اجازت سے ہے ] [وَلِیَعْلَمَ : اور تاکہ وہ جان لے ] [الْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان لانے والوں کو ] ترکیب :” فِبِاِذْنِ اللّٰہِ “ میں ” ھُوَ “ محذوف ہے یعنی یہ ” فَھُوَ بِاِذْنِ اللّٰہِ “ ہے اور ” ھُوَ “ کی ضمیر ” مَا “ کے لیے ہے۔ ” لَّا اتَّــبَـعْنٰـکُمْ “ میں ” لَا “ نافیہ نہیں ہے بلکہ یہ جوابِ شرط کا لام تاکید ہے۔ اس کے ساتھ الف زائدہ لکھنا قرآن مجید کی مخصوص املا ہے۔” ھُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِیْمَانِ “۔ یہ جملہ ایک خاص ادبی ترکیب کا ہے۔ مولوی عبدالستار صاحب نے اپنی کتاب ” عربی کا معلم “ میں یہ ترکیب پڑھائی ہے ۔ لیکن ” آسان عربی گرامر “ میں ہم نے اس کو چھوڑ دیا ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں اس کا استعمال کم ہے۔ اس لیے یہاں بھی اس کی ترکیب چھوڑ رہے ہیں۔ ” لَــیْسَ “ کا اسم ” مَا “ ہے اور اس کی خبر ” مَوْجُوْدًا “ محذوف ہے۔ نوٹ : ” لَـوْ نَـعْلَمُ قِتَالاً لاَّ تَّــبَعْنٰــکُمْ “ یہ منافقین کا قول تھا اور انہوں نے یہ ذومعانی بات کی تھی جس کے کئی معانی ہوسکتے ہیں مثلاً : (1) لڑائی ہوتی نظر نہیں آتی۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ لڑائی ہونے والی ہے تو ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ (2) یہ کوئی مقابلہ ہے کہ ایک طرف تین ہزار کا لشکر اور دوسری طرف صرف ایک ہزار بےسروسامان آدمی۔ یہ لڑائی تو نہیں ہے محض اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ (3) مدینہ میں رہ کر جنگ کرنے کا ہمارا مشورہ نہیں مانا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے فنون اور قواعد سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اگر واقف ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )
Top