Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 166
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَمَآ : اور جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچا يَوْمَ : دن الْتَقَى : مڈبھیڑ ہوئی الْجَمْعٰنِ : دو جماعتیں فَبِاِذْنِ : تو حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ وہ معلوم کرلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور یہ جو دو گروہوں کے مقابلے کے دن تمہیں پیش آیا وہ اللہ ہی کے حکم سے تھا اور اس لیے پیش آیا تاکہ ظاہر ہوجائے ایمان والے کون ہیں ؟
میدان احد میں جو کچھ تم کو پیش آیا وہ باذن اللہ تھا : 304: دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ کے روز جو نقصان تم کو پہنچا کہ تم دشمنوں کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے تم میں سے کچھ شہید ہوئے اور بعض زخمی ہوئے۔ تم میں سے کچھ کے قدم ایسے اکھڑے کہ وہ دوبارہ اپنے لشکر کے ساتھ مل ہی نہ سکے۔ تم میں سے بعض نے عقیدہ کی کمزوری بھی دکھائی۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے تھا۔ اس کی مشیت کے فیصلے کبھی ٹلطی نہیں ہوتے۔ اس کی حکمت اس کی مقتضی تھی۔ جو کچھ ہوا وہ تمہاری کوتاہی کا نتیجہ تھا تاہم اس سارے نقصان میں تمہارے لئے کچھ فوائد بھی مخفی تھے وہ یہ کہ تم میں ثابت قدم غیر متزلزل ایمان والے صابر بندے بھی تم کو معلوم ہوگئے اور کمزور و ضعیف بھی بالکل وضح ہوگئے۔ اور منافقین کا حلا بھی تم پر گیا۔ گویا اس مصیبت کی چھلنی نے چھانٹ چھانٹ کر ہر قسم کو الگ الگ کردیا۔ تم کو وقت مل گیا کمزور اپنی کمزوری کو دور کرلیں اور منافقین سے تم کبھی دوستی اختیار نہ کرو اس لئے کہ وہ بظاہر اسلام کا دم بھر تے ہیں اور اندر سے پکے کافر ہیں۔ ان کی پالیسی ہمیشہ دوہری رہی ہے۔ اور دوہری ہی رہے گی یہ اللہ کے نہیں بلکہ اپنی خواہش کے بندے ہیں۔ پھر ان کی خواہش جس طرف سے بھی پوری ہوتی نظر آئے گی۔ یہ اس طرف ہوں گے۔ یہ ہمیشہ بھاری پلڑے کے ساتھی ہیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے منافق کی چار علامتیں اپنی امت کو بتائہی ہیں جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں بعض پائی جائیں وہ اس قدر منافق ہوگا۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی اس طرح ہے : ” اذا تمن خان واذا حدث کذب و اذا عاھد غدر واذ خاصم فجر “ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ اور جب عہد کرتا ہے تو بےوفائی کرتا ہے اور جب جھگڑا کرتا ہے تو ناحق کی طرف جاتا ہے۔ “ بات واضح ہوگئی کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہیے جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے اور جو کرنے کی نیت نہ ہو یا کرنے کی ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ اور یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں۔ پھر ایسا کیوں کہ ایک شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ ایک بار پھر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” میدان احد میں جو کچھ تم کو پیش آیا تو وہ ” باذن اللہ “ ہی تھا۔ کیا للہ ایسا پسند کرتا تھا ؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہر عمل کے ساتھ اس کا نتیجہ لگا دیا ہے۔ جیسا عمل ہوگا ویسا ہی اس کا نتیجہ اور اس کو ” اذن اللہ “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو قانون بنا دیا ہے۔ وہ کبھی اس کے خلاف نہیں کرتا اس لئے تمہاری عملی کوتاہی کا نتیجہ بھی ظاہر ہونا تھا کیونکہ یہ قانون خداوندی ہے۔ اس سے تم کو یہی سبق حاصل کرنا چاہیے کہ آئندہ پھر کبھی ایسی کوتاہی نہ کرنا۔ یہ بات اس لئے عرض کرنا پڑی کہ اس ” باذن اللہ “ کا مفہوم ذہن نشین ہوجائے تاکہ دوسری جگہوں پر جب لفظ آئے تو کوئی نئی الجھن پیدا نہ ہوجائے اس کی مزید تفصیل دیکھنا ہو تو اس جلد کا حاشیہ 117 ملاحظہ فرمائیں۔
Top