Tafseer-e-Haqqani - Az-Zukhruf : 2
وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِۙۛ
وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ : قسم ہے واضح کتاب کی
قسم ہے روشن کتاب کی
ترکیب : والکتاب من جعل حم قسمافالواوللعطف و من لم یجعل فالواوللقسم و الکتاب مجروربھا وانہ عطف علی انافی متعلقہ بعلی واللام لایمنع ذلک لدینا بدل من الجاروالمجرور افنضرب الہمزۃ للاستفہام الانکاری والفاء للعطف علی محذوف ای نمھلکم فنضرب عنکم الذکر و الضرب ہذا بمعنی الترک یقال ضربت عنہ اذا ترکتہ قالہ الزجاج و الفراء، و انتصاب صفحاً علی المصدریہ من معنی نضرب لان للصفح و الضرب معنی واحدا وھوا الترک والاعراض یقال صفحت عنہ اذا اعرضت عنہ۔ اوعلی الحال ای صافحین، وکم منصوب بارسلنا و بطشا تمیزوقیل مصدر فی موضع المال من الفاعل۔ تفسیر : اس سورة کا نام سورة زخرف ہے۔ یہ بھی باتفاق علمائِ صحابہ ابن عباس ؓ وغیرہ مکہ میں نازل ہوئی ہے اس میں بھی بیشتر توحید و رسالت ودارآخرت وغیرہ اصول نظریہ مذکور ہیں مکہ میں جس قدر قرآن کی سورتیں نازل ہوئیں ان میں عملیات کا بہت کم حصہ ہے بیشتر اعتقادیات ہیں۔ حم بھی انہیں مفردات میں سے ہے جو سورتوں کے ابتداء میں آتے ہیں جن کی بہت جگہ ہم تشریح کر آئے ہیں۔ ان آیات میں مسئلہ نبوت کا اثبات ہے فقال و الکتاب المبین عرب میں گو صدہا قبائح مروج تھے مگر جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر قسم کھانا بہت ہی سخت گناہ سمجھا جاتا تھا اور ان کا یقین تھا کہ جو کوئی قسم کھا کر جھوٹ بولے گا کبھی سرسبز نہ ہوگا۔ اس لیے حم خدا تعالیٰ کی ذات وصفات جلالیہ کا ذکر کر کے کتاب مبین کی قسم کھا کر یہ کہتا ہے اناجعلناہ قراناعربیا لعلکم تعقلون کہ ہم نے اس کتاب کو عربی زبان کا قرآن بنایا تمہارے سمجھنے کو کتاب مبین سے مراد قرآن ہے۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک قرآن بڑی عزیز چیز ہے اور ہر شخص اپنے عزیز و مرغوب چیز کی قسم کھایا کرتا ہے پس قرآن مبین کی قسم کھا کر قرآن مجید کی صداقت ثابت کرتا ہے۔ مبینبیان کرنے والا روشن اس کے بعد اور چند اوصاف قرآن مجید کے بیان فرماتا ہے (1) وانہ فی ام الکتاب لدینا کہ یہ قرآن کوئی بےاصل اور تراشیدہ کتاب نہیں بلکہ یہ ہمارے نزدیک ام الکتاب یعنی لوح محفوظ علم الٰہی کا ایک جریدہ ہے۔ ثبت است برجریدہ عالم کتاب ما۔ (2) علی ہے بلند مرتبہ کتاب ہے اس کی مثل اور کوئی ظاہر نہیں کرسکتا۔ (3) حکیم پر حکمت ہے اس میں جس قدر حکمتیں اور خوبیاں رکھی ہوئی ہیں وہ خود اس کی اصالت اور منجانب اللہ ہونے کی دلیل ہیں۔ یہ سن کر جہلاء مکہ کہتے تھے کہ خدا کو ہمارے لیے کتاب بھیجنے کی کون ضرورت تھی ؟ اس کے جواب میں فرماتا ہے افنضرب الخ کہ کیا ہم تمہاری بیہودگی سے تم سے منہ موڑ کر بیٹھ جاتے تمہاری اصلاح نہ کرتے ؟ کیونکہ ہم رحیم و کریم ہیں پہلے سے ایسا کرتے آئے ہیں وکم ارسلنا الخ پہلے بھی انبیاء بھیجے ہیں اور لوگ ان سے ٹھٹھے کرتے رہے انجام کار ہم نے بھی ان میں سے بڑے سرکشوں کو غارت کردیا اور پہلوں کی کہاوت چلی آتی ہے کہ وہ یوں برباد ہوئے اب تم بھی ڈرو ‘ انکار نہ کرو۔
Top