Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور جو کوئی مرد یا عورت چوری کرے تو ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ خدا کی طرف سے ان کے فعل کی (یہی) جزا ہے اور اللہ زبردست ‘ حکمت والا ہے۔
ترکیب : والسارق معطوف علیہ والسارقۃ معطوف مبتداء سیبویہ کے نزدیک بوجہکے فاقطعوا خبر نہیں ہوسکتا پس خبر فیمایتلی علیکم محذوف ہے اور کہتے ہیں فاقطعوا کیونکہ الف لام السارق میں بمنزلہ الذی کے ہے۔ پس یہ مشابہ شرط ہے ‘کا خبر میں آنا درست ہوگیا۔ جزاء فاقطعوا کا مفعول لہ ہے وقس علیہ نکالا فمن تاب شرط فان اللّٰہ جواب۔ تفسیر : باغیوں اور لٹیروں کی سزا بیان کرنے کے بعد چور کی سزا بیان کرنا گویا اس بیان کا تکملہ کردینا ہے۔ والسارق والسارقۃ اگرچہ قرآن مجید میں عموماً احکام میں خطاب مردوں کی طرف ہے عورتیں تبعاً ان احکام میں شامل ہیں مگر اس آیت میں محض اس حکم کی تاکید ظاہر کرنے کی غرض سے سارق مرد چور اور سارقۃ چور عورت دونوں کو ذکر کیا۔ سرقۃ لغت میں چوری کو کہتے ہیں 1 ؎ مولانا اوحد الدین کرمانی فرماتے ہیں۔ تادیدہ و دل خون نکنی پنجاہ سال ہرگز نہ دہندت رہ از حال بقال۔ 12 منہ یعنی کسی کا مال جو حفاظت میں رکھا ہو چھپا کرلے جانا۔ یہاں تین باتیں ہیں : ایک مال جس کی چوری کی گئی۔ اس کی اس آیت میں کوئی قید نہیں کہ کس قدر مال چرانے پر سزا دی جائے۔ اس لئے بعض علماء نے جیسا کہ ابن زبیر اور ابن عباس و حسن بصری ہیں اس کو مطلق رکھا ہے مگر جمہور علماء مجتہدین کہتے ہیں کہ مال کا لفظ ایک وسیع لفظ ہے۔ ہر شخص اور ہر قوم اور ہر زمانے کے لحاظ سے اس کے معنی میں تفاوت ہوسکتا ہے۔ متمول ملکوں میں دو پیسے چار پیسے کچھ مال نہیں۔ یہی دو چار پیسے مفلس لوگوں میں مال گنے جاتے ہیں۔ علی ہذا القیاس اس لئے ایسے اختلافات معنی کے وقت عرب کا عرف عام خصوصاً قریش کا دستور دیکھنا چاہیے کہ وہ کس کو مال کہتے تھے کیونکہ شریعت محمدیہ علیہ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں اکثر ان ہی کے رواج و عادت کا زیادہ لحاظ کیا گیا ہے۔ یہ بات تو ان کی عادت دیکھنے سے قطعاً معلوم ہوتی ہے کہ ایک دو مٹھی اناج یا کسی قدر چھوارے یا دو ایک انگور کے خوشے ان کے ہاں ایسا مال نہ سمجھا جاتا تھا کہ جس سے چھپا کرلے جانے کو چوری کہا جاوے۔ ایسی قلیل چیزوں کو اجازت بےاجازت لے کر کھالیا کرتے تھے۔ پس اس مقدار کا اندازہ امام ابوحنیفہ و ثوری نے بعض احادیث و اقوال صحابہ اور ان کے معاملات پر غور کرکے دس درہم قرار دیا ہے۔ اس قدر جو کوئی چرائے گا تو یہ سزا پائے گا۔ اس سے کم کی چوری پر یہ سزا نہیں دی جائے گی اور امام مالک و احمد و اسحاق نے تین درہم یا ربع دینار کی تعداد قائم کی ہے اور ابن ابی لیلیٰ نے پانچ درہم اور امام شافعی نے ربع دینار معین کیا ہے۔ ہر ایک کے دلائل اس تعداد کے لئے مبسوطات میں مذکور ہیں مگر دائود اصفہانی اور خوارج نے آیت کو مطلق رکھ کر ذرا سی چیز کی چوری پر یہی سزا قائم رکھی ہے حتٰی کہ کوڑی دو کوڑی کے چور کو بھی قطع ید کا حکم دیتے ہیں۔ دوسری بات اس فعل کے لئے یہ ہے کہ یہ مال جس کو چرایا ہے مالک کی حفاظت میں ہو کیونکہ رستہ پر پڑی ہوئی چیز کا اٹھا کرلے جانا عرف میں چوری نہیں مگر دائود ظاہری یہاں بھی خلاف جمہور کرتے ہیں اور حفاظت کو کوئی شرط نہیں سمجھتے۔ تیسری بات سرقہ میں یہ ہے کہ لوگوں سے چھپا کرلے جاوے کہ عادتاً لوگ اس کو دیکھیں تو پکڑ لیں۔ اب اگر وہ بالکل لوگوں کے سامنے سے لے گیا ہے تو اس کو بھی چوری نہیں کہیں گے بلکہ غصب ملکیۃ یا سینہ زوری اور اگر ایسے موقع سے لے گیا ہے کہ اگر اس کو لوگوں نے نہ دیکھا اور معلوم نہیں کرسکے جیسا کہ کیسہ بریا گرہ کٹ عام مجموعوں میں لوگوں کے روبرو گرہ کاٹ لیتے ٗ جیب کتر لیتے ہیں۔ یہ بھی عرف میں چوری کے علاوہ دوسرا فعل گنا جاوے گا۔ ان دونوں صورتوں میں چوری کی سزا نہ دی جائے گی بلکہ اور سزا ملے گی۔ بعض علمائِ مجتہدین فرماتے ہیں کہ بلاشک غصب کی صورت میں تو چوری نہیں کیونکہ اخفا نہیں پایا جاتا جو چوری کے معنی میں لیا گیا ہے۔ ہاں دوسری صورت میں چوری کے معنی پر ایک بات اور زیادہ ہوگئی کہ وہ سب کی آنکھوں میں خاک ڈال کرلے گیا ‘ سو یہ اعلیٰ درجہ کی چوری ہے۔ اس لئے یہ شخص سزائے سرقہ کا مستوجب سمجھا جاوے گا۔ ان تینوں باتوں پر بہت سے مسائلِ فقہ مبنی ہیں۔ فاقطعوا ایدیہما یہ سزا ہے چوری کی کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ آیت میں اس کی بھی کچھ تصریح نہیں کہ کونسا ہاتھ کاٹا جاوے اور کہاں تک کاٹا جاوے ؟ مگر جمہور نے آنحضرت ﷺ کے عہد کی سزا سے یہی ثابت کیا ہے کہ اول بار چوری کرنے سے پونہچے تک داہنا ہاتھ کاٹ ڈالنا چاہیے اور نیز جب ایک بارچوری کرے تو داہنا ہاتھ کاٹ دیا جاوے اور دوبارہ کرے تو بایاں پائوں کاٹ دیا جائے اور امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر تیسری بار چوری کرے تو بایاں ہاتھ اور چوتھی بار کرے تو دایاں پائوں بھی کاٹ ڈالنا چاہیے۔ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری وغیرہ علما صرف دو بار تک قطع کا حکم دیتے ہیں۔ باقی پھر قطع نہیں بلکہ حبس۔ 1 ؎ باوجود اس کے اہل یورپ کیا بدنی سزا نہیں دیتے بید مارتے ‘ پھانسی دیتے ہیں اور چونکہ چور کی بابت یہ سزا نہیں تو دیکھئے ان کی عملداری میں چوری کا کیسا بازار گرم ہے۔ بدمعاش لوگ جیل خانہ کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ اس کی انہیں کیا پروا ہے اور عیسائی تو کوئی اس کی بابت اعتراض ہی نہیں کرسکتا کیونکہ بائبل میں ادنیٰ ادنیٰ جرموں پر قتل کرنا جلا دینا موجود ہے۔ 12 منہ یہ سزا آنحضرت ﷺ نے اپنی حیات میں دی ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں بکثرت وارد ہے اور نیز آپ کے خلفائِ اربعہ سے خلفائے بنی العباس تک بھی اس قانونِ الٰہی پر عملدرآمد رہا ہے۔ شاہان اسلام ہندوستان و دیگر بلاد اپنے تمام علماء و قضاۃ کے فتوے کے بموجب اس پر عمل کرتے آئے ہیں۔ کتب تواریخ شاہد عدل ہیں اور اس میں حکمت بھی ہے کیونکہ جس ہاتھ سے اس نے یہ بد کام کیا تھا اس کی سزا میں ایسی نعمت سے محروم کردینا پورا انصاف ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سزا اس جرم کے انسداد کے لئے اکسیر اعظم کا حکم رکھتی ہے اور کیوں نہ ہو آخر جس نے قرآن نازل کیا ہے اور وہ حکیم وعلیم ہے جس کی علم و حکمت کے آگے بندوں کے علم و دانش کو کیا نسبت ہے۔ کوئی تو حکمت سمجھی ہے جو ایسا حکم جاری کیا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص الہام کو فرضی ڈھکوسلا سمجھے یا اپنی عقل کو خدا کے علم پر ترجیح دے۔ آج کل یورپ نے علوم میں ترقی کی مگر الحاد اور بدکاری حد سے زیادہ ترقی کرگئی ہے۔ ان کے رسم و رواج خواہ کیسے ہی قبیح 1 ؎ ہوں ان کے مریدوں کے نزدیک تہذیب کا معیار قرار دیے گئے ہیں۔ اس لئے ان کے مرید تمام شریعت کو ان ہی کے رسم و رواج کے مطابق کرنے کی تدبیریں کرتے ہیں اور اسی کو اعانت اسلام کہتے ہیں۔ چناچہ ایک صاحب اس سزا کی یہ توجیہ کرتے ہیں ” ص 203 مگر جبکہ ملک میں تسلط ہو اور قید خانوں کا انتظام موجود ہو تو قرآن مجید کی رو سے اس سزائے بدنی کا دینا (یعنی چور کا ہاتھ کاٹنا) کسی طرح جائز نہیں۔ “ حضرت نے قزاقوں کی سزا کو جو ینفوا من الارض ایک صورت خاص میں ہے یعنی قید کرنا مؤخر سمجھ لیا حالانکہ مقدم ہے اس کے بعد آیت السارق الخ موجود ہے جس میں بجز ہاتھ کاٹنے کے چور کی اور کوئی سزا ہی بیان نہیں ہوئی۔ اس کو چوری کی سزا قرار دیا ہے اور بےسند چند چوروں کے اشعار اور ان کے خیالات نقل کرکے تمام کتب تواریخ کے برخلاف یہ نتیجہ نکالا ہے کہ صحابہ کے عہد میں ہاتھ نہیں کاٹے گئے بلکہ قید کیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر قید کئے گئے ہوں گے تو وہ ڈاکو جن سے ملک کو دہشت ہوگی نہ کہ چور اور لطف یہ کہ آپ بھی اقرار کرتے جاتے ہیں کہ ڈاکوئوں کو قید کیا گیا ہے مگر دونوں کو خلط کردینے سے اور ملا کر بیان کرنے سے شاید بمقابلہ بیشمار احادیث صحیحہ و اجماع جمہور مسلمین اپنے خیال میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ جزاء بما کسبا سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنا ہی اس کے فعلِ بد کی سزا ہے۔ اس تقدیر پر اگر مال موجود نہیں رہا تو اس سے تاوان لینا درست نہیں جیسا کہ امام ابوحنیفہ وغیرہ سفیان ثوری و احمد و اسحاق فرماتے ہیں لیکن امام شافعی فرماتے ہیں کہ خواہ مال مسروق موجود ہو یا نہ ہو چور سے باوجود اس سزا کے وہ واپس لیا جاوے گا۔ مالک فرماتے ہیں اگر مقدور ہے تو واپس لیں گے ورنہ نہیں واللّٰہ عزیزحکیم میں اس سزا کی حکمت کی طرف اشارہ ہے۔ اصمعی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی کے سامنے بھول کر میں نے اس جملہ کی جگہ غفور رحیم پڑھ دیا۔ اس نے چونک کر کہا یہ کس کا کلام ہے ؟ میں نے کہا اللہ کا اس نے کہا یوں نہ ہوگا پھر میرے یاد آیا تو عزیز حکیم پڑھا۔ کہنے لگا اب ٹھیک ہے کیونکہ غفور رحیم قطع ید کے مناسب نہیں فمن تاب کے متعلق تفسیر ہوچکی الم تعلم الخ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ توبہ قبول کرنا ہمارے اختیار میں ہے اور نیز ایسا حکم دینا بھی اپنے بندوں کے لئے ہمارے لئے کچھ ظلم نہیں ہم مالک ہیں۔
Top