Tafseer-e-Haqqani - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اور جو کچھ اللہ نے ان سے لے کر اپنے رسول کو عطا کیا تو اس پر تم نے نہ تو گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غالب کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
فے اور غنیمت کے معنی : تفسیر : اس کے بعد بنی نضیر کے مال و اسباب کی بابت فرماتا ہے جو مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور جس کو وہ نہ لے جاسکے۔ فقال وما افاء اللہ علی رسولہ منہم فما ادجفتم علیہ من خیل دلارکاب الخ۔ مبرد کہتے ہیں فاء یفیٔ کے معنی ہیں رجوع کے اور افاء اللہ جب کہتے ہیں کہ جب اللہ بھیجے۔ ازہری کہتے ہیں فیٔ اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر جنگ مخالفوں سے حاصل ہو خواہ اس طور سے کہ کفار چھوڑ کر چلے جائیں یا جزیے کے طور ادا کریں یا رعب میں آ کر جان بچانے کے لیے کچھ رقم یا چیزیں دیں ‘ یہ سب فیٔ ہے۔ اس کو لغوی معنی کے لحاظ سے فی اس لیے کہتے ہیں کہ کفار سے اللہ نے مسلمانوں کے پاس بھیجا ہے۔ برخلاف غنیمت کے کہ جنگ و جدل ‘ محنت و مشقت سے جو مال کفار سے ہاتھ لگے اس کو غنیمت کہتے ہیں۔ انفال کہ جس کا شروع سورة انفال میں ذکر ہے اس کے دو معنی ہیں۔ کبھی تو وہ غنیمت کے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے کس لیے کہ نفل کے معنی لغت میں زیادت کے ہیں اور فرض کے علاوہ نماز کو اس لیے نفل کہتے ہیں کہ وہ زائد علی الفرض ہے اور غنیمت بھی جہاد کے اصل مقصود اعلائِ کلمۃ اللہ سے ایک زائد بات ہے اس لیے اس کو انفال کہتے ہیں۔ اور کبھی سردار لشکر کے اس انعام کو بھی کہتے ہیں جو وہ کسی خاص مردانہ کام کے مقابلے میں معین کرتا ہے۔ انفال کی تقسیم کا حکم اللہ اور رسول کے سپرد ہونا بیان کر کے پھر اس کی تقسیم بھی ذکر کردی گئی۔ دیکھو سورة انفال۔ فیٔ اور غنیمت میں فرق ہے اس لیے سب سے اول اس فرق کو قائم کرتا ہے فقال فما اوجفتم الخ کہ تم نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹنی یعنی تمہاری محنت و مشقت اس میں کچھ نہیں اللہ اپنے رسول کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس طرح یہ تقسیم نہ ہوگی جیسا کہ غنیمت ہوتی ہے۔ صحابہ ؓ کو شاید تقسیم کا خیال پیدا ہوا ہوگا۔ اس کافیٔ میں بقول مؤرخین بنی نضیر سے پچاس زرہیں، پچاس خود، تین سو پینتالیس اونٹ اور دیگر اسباب حاصل ہوا جس کا اختیار نبی ﷺ کو تھا جس کو جس قدر مناسب جانا عطا کیا۔ پچھلی آیت میں فیٔ کے صرف کا مسئلہ بھی آتا ہے۔ وجف، یجف، جفاو جیفا، جلد چلنا، دوڑانا اونٹ اور گھوڑے کا۔ خیل گھوڑے۔ رکاب اونٹ ان لفظوں میں سے مفرد صیغہ نہیں۔ ہاں دوسرے لفظ سے ہے راحلہ۔ گھوڑے کے سوار کو فارس اونٹ کے سوار کو راکب کہتے ہیں۔ فائدہ : یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ بنی نضیر کے مال کو فیٔ کہنا اور یہ فرمانا کہ اس پر تمہارے گھوڑے اونٹ نہیں دوڑے صحیح نہیں کس لیے کہ بنی نضیر کا کئی روز تک محاصرہ رہا لوگ مرے کھپے بھی اخیر جلاوطنی پر وہ راضی ہوگئے تھے اس کو غنیمت کہنا چاہیے۔ جواب : یہ بنی نضیر مدینے سے صرف دو میل کے فاصلے پر تھے ان کے لیے کچھ زیادہ سامان سفر اور تیاری کی ضرورت نہ ہوئی۔ پاپیادہ جا کر محاصرہ کرلیا گیا۔ صرف نبی ﷺ اونٹ پر سوار تھے۔ یعنی جس طرح جنگوں میں محنتیں اور تکلیفیں اٹھا کر فتح ہوتی ہے اس میں اس قدر تکالیف اٹھانی نہ پڑیں گویا کہ مفت ہاتھ آگیا اس لیے اس کو فیٔ کہا گیا۔ بعض علماء یہ جواب دیتے ہیں کہ ان آیات میں فدک کی طرف اشارہ ہے البتہ وہ جائیداد بےمحنت حاصل ہوئی تھی جس میں سے آنحضرت ﷺ اپنے اقارب اور مہمانوں کے لیے خرچ کیا کرتے تھے اور سامان جنگ گھوڑے ہتھیار وغیرہ میں بھی صرف کرتے تھے۔ فے کے مصارف : اس کے بعد فیٔ کے مصارف بیان فرماتا ہے۔ فقال ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القر ای کہ جو کچھ گاؤں والوں سے پہنچایا۔ گاؤں والے یعنی کفار سے جو گاؤں اور بستیوں کے لوگ تھے ان سے بشوکت اسلامی وصول ہوا۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں گاؤں والوں سے مراد قریظہ و نضیر و فدک و خیبر ہیں (معالم) فللّٰہ وللرسول ولذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین و ابن السبیل تو وہ اللہ اور رسول اور قرابت داروں اور یتیموں اور فقیروں اور مسافروں کے لیے ہے یعنی مال اللہ کا ہے یعنی اس میں لشکر کا کوئی حق نہیں وہ رسول کے پاس رہے۔ رسول اس کو اپنے ذاتی مصارف میں بھی بقدر ضرورت صرف کرے اور اپنے قرابت داروں کو بھی دے بوجہ قرابت صلہ رحمی کرے اور جو قرابت دار محتاج ہوں بدرجہ اولیٰ صلہ رحمی کے مستحق ہوں اور یتیموں کو بھی دے۔ عام ہے کہ رسول کے خاندان کے یتیم ہوں یا اور فقراء کو بھی دے کوئی ہو اور حاجت مند مسافروں کو بھی دے۔ اور محتاج نہ ہوں یوں مہمان آئے ہوں رسول کے پاس جیسا کہ قوموں کے وکیل اور جماعتیں آیا کرتی تھیں۔ یہ شاہی مہمان ہیں ان کا خرچ بھی اسی شاہی خزانے پر ہے۔ آیت میں چھ شخص ذکر ہوئے اول اللہ جل جلالہ۔ یوں تو سب کچھ اسی کا ہے مگر یہاں اللہ کا مال کہنے سے یہ غرض ہے کہ یہ اللہ نے مخصوص حاجتوں کے لیے اپنا خزانہ بنا کر رکھا ہے اس تقدیر پر یہ کہنا کہ لفظ اللہ تبرکاً مذکور ہے بےفائدہ بات ہے۔ دوم رسول، سوم قرابت دار، چہارم یتیم، پنجم مساکین، ششم مسافر۔ آیت میں یہ قید نہیں کہ قرابت دار کس کے ؟ بظاہر رسول اللہ ﷺ کے قرابت دار اور آنحضرت ﷺ کے بعد جو آپ کا جانشین ہو اس کو بھی اپنے اقارب کے ساتھ حسن سلوک کرنا انسانی خاصہ ہے جس کا باربقدر ضرورت شاہی خزانے پر ہونا عین انصاف ہے اور یتیم و مسکین و ابن السبیل قومی ذوحاجت لوگ ہیں۔ خصوصاً شاہی مہمان جو سلطنت سے علاقہ رکھتے ہوں یا ان کی مہمانداری شان سلطنت اور اس کے فوائدِ آیندہ پیدا کرنے میں موثر ہو یہ بھی اسی شاہی خزانے سے ہونی چاہیے۔ آیت میں یہ بھی ذکر نہیں کہ ان چھٹوں کے حصے مساوی ہیں یا کم زیادہ کیونکہ ان چھٹوں کی طرف تقسیم نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً حسب ضرورت ان اشخاص کو دینا مراد ہے جس کی قبل از وقت کوئی تعداد معین ہو نہیں سکتی اور آیت میں یہ چند ذوحاجت اس لیے مذکور ہیں کہ ان کی طرف زیادہ تر توجہ مبذول ہوتی ہے یہ اس کے منافی نہیں کہ اور کسی حاجتمند کو یا اور کسی کام میں جو قومی اور سلطنت کے مفید ہو صرف نہ کیا جائے۔ الحاصل فیٔ شاہی خزانے میں داخل ہو کر اشخاص مذکورہ بالا کے لیے ہے۔ کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم۔ مبرد کہتے ہیں دولۃ بالضم وہ چیز جو لوگوں کے ہاتھوں میں آئے جائے کبھی اس پاس کبھی اس پاس اور دولۃ بالفتح خوش حالی ہو ایک قسوقوم سے منتقل ہو کر دوسرے پر آئے پس بالضم اسم ہے اس کا جس کا تداول کریں، روپیہ پیسہ کپڑا زیور وغیرہ اور بالفتح اس کا مصدر (کبیر) کہ یہ اس لیے مقرر کیا تاکہ وہ فیٔ تمہارے اغنیاء کے ہاتھوں میں نہ پڑے بلکہ اس کے مستحقین ہی کے پاس رہے۔ اے اغنیائ ! تم اس کی حرص نہ کرو بلکہ ما اتٰکم الرسول فخذوہ جو تم کو غنیمت یا اور کسی چیز میں سے رسول دے یا حکم کرے اس کو لو۔ وما نھکم عنہ فانتھوا اور جس سے منع کرے جیسا کہ اس فیٔ سے یا اور بری باتوں سے تو اس سے باز آئو۔ واتقوا اللہ الخ اللہ سے ڈرو، نافرمانی نہ کرو اس کی سزا سخت ہے۔ یہ جملہ معترضہ تھا کی لایکون سے لے کر یہاں تک۔ اس کے بعد مہاجرین و انصاف کے فقرا اور حاجتمندوں کو ان کے محامد اور اسلامی سرگرمیاں اور سچی جانفشانیاں ذکر فرما کر مستحق ٹھہراتا ہے اور تعمیم کے بعد تخصیص کرتا ہے کہ اور فقیروں سے یہ زیادہ تر مستحق ہیں۔ فقال للفقراء المہاجرین الخ کہ یہ ان فقراء مہاجرین کو ملنی چاہیے کہ جو اللہ کے لیے اپنا گھر ‘ بار مال و اسباب چھوڑ کر ہجرت کر کے نبی (علیہ السلام) کے پاس آئے ہیں۔ جب عرب میں اسلام کا چرچا ہوا اس آفتاب کی کرنیں اسی سرزمین پر پڑیں تو مکہ اور دیگر جگہوں کے لوگ مسلمان ہونے شروع ہوئے مگر جہاں کوئی مسلمان ہوا اس پر اس کی قوم کی طرف سے مصیبتیں آئیں، مار دھاڑ شروع ہوئی اس لیے گھربار چھوڑ کر مدینے میں آنحضرت ﷺ کے پاس چلے آتے تھے۔ اب ان کے پاس بجز صبروفاقے کے اور تھا کیا ؟ ان کو مہاجرین کہتے تھے، اس لیے ان پر ترحم دلاتا ہے کہ ان کو بھی دو ۔ ان کی فکر بھی آنحضرت ﷺ کو رہتی تھی۔ فرماتا ہے کہ یہ لوگ صرف یہی بات نہیں کہ ہجرت کر کے چلے آئے ہیں بلکہ ینصرون اللہ و رسولہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ اسلام کا لشکر جرار جس نے بڑے بڑے گردن کشوں کو سیدھا کردیا انہیں لوگوں کا تھا۔ اولئک ھم الصاوقون یہ سچے لوگ ہیں۔ یہاں تک مہاجرین کے محامد تھے۔ (1) یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی حاصل کرنے کو اپنے گھروں سے اور مالوں سے جدا کئے گئے اور نکالے گئے ہیں۔ (2) وہ اللہ اور رسول کے مددگار ہیں۔ (3) وہ صادقین ہیں۔ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان و علیٰ ؓ بھی مہاجر تھے اور جو جو دین کی حمایت میں انہوں نے کوششیں کی ہیں اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اور یہ فقراء بھی ہوگئے تھے۔ پھر وہ کون سی روایت اور کون مؤرخ ہے جو جھوٹے افسانے گھڑ کر ان کو بدنام کرے اور یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد انہوں نے وہ برے کام کئے جو پیغمبر (علیہ السلام) کا سخت دشمن بھی نہ کرسکتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرہ ؓ کے لات ماری اور اہل بیت پر ظلم کئے۔ معاذاللہ صادقین سے یہ کبھی ہوسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ اولئک کا لفظ کہہ رہا ہے کہ یہی سچے تھے اور ان پر جو الزام لگائے وہ جھوٹا ہے۔ اس کے بعد فقرائِ انصار کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ فقال والذین تبوء الذین تبوء الدار والایمان من قبلہم کہ ان فقیروں کو بھی دو کہ جنہوں نے دار یعنی دارالہجرت مدینہ کو اور ایمان کو گھر بنایا پہلے سے۔ یعنی آنحضرت ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے مدینے میں رہتے تھے اور ایمان لے آئے تھے۔ آنحضرت ﷺ ہنوز مکہ میں تشریف رکھتے تھے کہ عرب میں آپ کی نبوت کا شہرہ ہوا۔ ایام حج میں چند اہل مدینہ آ کر آنحضرت ﷺ سے ملے اور اسلام لائے اور جا کر مدینے میں لوگوں کو ترغیب دی وہ بھی ایمان لے آئے۔ جب کفار قریش نے مسلمانوں کو زیادہ ستانا شروع کیا تو خود آنحضرت ﷺ و ابوبکر صدیق ؓ مدینے تشریف لے گئے جو اہل مدینہ کی دلی تمنا تھی اور رفتہ رفتہ اور لوگ بھی جانے شروع ہوئے۔ ان اہل مدینہ نے آنحضرت ﷺ و دیگر مہاجرین کی خاطر و مدارات میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا جیسا کہ بعد کی آیت میں ذکر آتا ہے۔ من قبلہم یعنی مہاجرین کی ہجرت سے پہلے مدینے کو جگہ بنایا اور ایمان کو دل میں جگہ دی یا ان کے گھر بنانے سے پہلے گھر بنایا۔ یحبون من ھاجرا الیہم جو ان کے پاس ہجرت کر کے آیا اس کو دوست رکھتے ہیں۔ محبت کا یہ حال تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ہر ایک مہاجر کا ہر ایک انصار سے بھائی چارہ کرا دیا تھا یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہونے سے پہلے ایک دوسرے کا وارث ہوتا تھا اور کو مرنے کے بعد ورثہ نہیں ملتا تھا اور ہر ایک دوسرے کی جان و مال پر اپنا مال اور جان فدا کرتا تھا جس کی مفصل کیفیت کتب سیر میں موجود ہے۔ ولایجدون فی صدورھم حاجۃً مما اوتوا حسن بصری (رح) کہتے ہیں حاجۃ کہ معنی یہاں حرارت و حسد و غیظ کے ہیں کہ مہاجرین کو جو دیا جاتا ہے اس سے ان کے دل میں کوئی رنج نہیں ہوتا بلکہ خوش ہوتے ہیں۔ بخاری (رح) نے ابی ہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ انصار نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ نبی نضیر کے باغ ہم میں اور ہمارے مہاجرین بھائیوں میں تقسیم کر دیجئے۔ آپ نے فرمایا نہیں تم کام میں شریک رہو تم کو پھل دیں گے۔ انصار نے کہا ہم راضی ہیں بسروچشم منظور۔ اس سے بڑھ کر ان میں یہ صفت ہے ویؤثرون علیٰ انفسہم ولوکان بہم خصاصۃ کہ وہ باوجود حاجت فقروفاقے کے مہاجرین کو اپنے اوپر مقدم رکھتے ہیں۔ اپنی حاجت کے کام میں نہیں لاتے، مہاجرین کو دیتے ہیں۔ یہ ایثار بڑی اولوالعزمی کی بات ہے ہر ایک کو نصیب نہیں۔ آپ بھوکا رہے اپنے بھائی کو کھلائے۔ خصاصۃ حاجت فقرائ۔ اس ایثار کا کیا ٹھکانا ہے کہ انصار نے مہاجرین کو اپنے گھر اور مال بانٹ دیے تھے جس کے پاس ایک مکان یا باغ تھا تو آدھا اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا تھا، دو کپڑے تھے تو ایک مہاجر کو اسی طرح سب چیزوں میں کیا تھا۔ بخاری (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے اس کو مہمان بنایا گھر میں کسی کو بھیجا کہ کسی کے پاس کھانے کو کچھ ہے ؟ بیویوں نے عرض کیا بجز پانی کے ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں۔ پھر آپ نے لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ کون ہے جو اس کو مہمان بنائے ؟ ایک انصاری نے (غالباً ابوطلحہ ؓ تھے) کہا میں یارسول اللہ۔ پھر اس کو وہ اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے کہا، رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر کرو۔ اس نے کہا لڑکوں کو کھانے کے سوا ہمارے ہاں اور کوئی چیز نہیں۔ اس نے کہا کھانا تیار کر، چراغ جلا لڑکوں کو سلا دے جب کہ وہ کھانا مانگیں۔ پھر اس نے کھانا تیار کیا چراغ جلایا، لڑکوں کو سلا دیا۔ پھر بتی اکسانے کے بہانے سے اٹھی اور چراغ گل کردیا تاکہ اندھیرے میں مہمان کو یہی معلوم ہو کہ میرے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں مگر آپ نے نہ کھایا، مہمان نے کھایا۔ آپ بھوکے سو رہے۔ صبح کو آنحضرت ﷺ کے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا تمہاری رات کی بات سے خدا تعالیٰ نہایت خوش ہوا۔ تب یہ آیت نازل فرمائی۔ ویؤثرون علیٰ انفسہم ولوکان بھم خصاصۃ۔ اسی طرح اور مواقع پر انصاری نے ایسی ہمدردی اختیار کی ہے جس کا نظیر اور قوموں یا کسی اور نبی کے پیروئوں میں پایا نہیں جاتا۔ اس لیے اس کے بعد فرماتا ہے ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون یعنی انصار کو لالچ نہ تھا اس سے خدا نے ان کو بچا لیا تھا اور جن کو خدا لالچ سے دور رکھے وہ کامیاب ہے۔ شح بالضم والکسر۔ شح اور بخل میں علماء نے فرق کیا ہے۔ بخل صرف منع کرنا نہ دینا اور شح وہ نفسانی حالت ہے جس سے یہ بات پیدا ہوتی ہے۔ شح صفات ذمیمہ میں سے ہے جس کا ترجمہ لالچ ہے اس لیے اس سے بچنے کو کامیابی فرمایا۔ دنیا و دین کی صدہا محرومیاں اسی شح سے پیدا ہوتی ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں یہ انسان کو حقیر کردیتا ہے۔ ہمدردی اور سعادت کے کاموں میں حصہ نہیں لینے دیتا۔ لالچی اور بخیل کو ہم نے اپنے گھر میں بھی اس کے متعلقین کے نزدیک عزت پاتے نہیں دیکھا۔ ایسے آدمی کو لئیم کہتے ہیں جس کا مال اس کے بعد فضول خرچی میں صرف ہوتا ہے۔ دنیا میں جس قدر اولوالعزم لوگ آئے ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ ناپاک خصلت نہ تھی۔ تمام عمر خون جگر کھایا، دولت سے متمتع نہ ہوا، نہ نفس کو آرام دیا نہ کار خیر میں حصہ لیا، مرگیا چھوڑ گیا، حسرت لے گیا۔ یہی انسان کو چوری، خیانت، قتل، ظلم، جھوٹ بولنے، کم تولنے پر مجبور کرتا ہے، بہادرانہ کاموں سے روکتا ہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ اپنی مخلوق کو اس سے نفرت دلاتا ہے اس کے نام لینے کو بھی لوگ معیوب سمجھتے ہیں۔ مرنے کے بعد برائی سے یاد کرتے ہیں۔ پھر جس کو خدا نے اس ناپاک خصلت سے بچا لیا اس کے کامیاب ہونے میں کیا شک ہے۔ انصار و مہاجرین جو اسلامیوں کی دواعلیٰ اور بزرگ ترین جماعت ہیں ان کے محامد بیان فرما کر تیسرے گروہ کی مدح کرتا ہے جس میں تابعین اور ان کے بعد کے آنے والے نیک اور بزرگ لوگ ہیں۔ فقال والذین جاؤ من بعدھم یہ بھی مہاجرین پر عطف ہے۔ یعنی جو ان کے بعد ہجرت کر کے آئے یا اسلام میں ان کے بعد آئے، قیامت تک جو کوئی ہو ان کے اندر یہ خوبی ہے یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان۔ وہ اپنے لیے بخشش مانگتے ہیں کہ الٰہی ہم کو بخش دے اور اس کے بعد اپنے متقدمین بھائیوں کے لیے بھی بخشش مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمارے ! ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے ایماندار گزرے ہیں۔ ولاتجعل فی قلوبنا غل اللذین آمنوا اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں رنج اور عداوت نہ پیدا کر۔ ربنا انک رئوف الرحیم۔ اے ہمارے رب ! تو نرمی کرنے والا اور رحمت کرنے والا ہے جس میں یہ خاصیت نہیں وہ اس تیسرے گروہ میں داخل نہیں۔ ابن ابی لیلی فرماتے ہیں لوگوں کے تین درجے ہیں، مہاجرین، انصار اور وہ جو ان کے بعد آئے اور ان سے محبت رکھتے ہیں، ان کے لیے استغفار کرتے ہیں، دعائے خیر میں شریک کرتے ہیں، ان کے رستے پر چلتے ہیں۔ پس تو کوشش کر کہ ان تینوں سے خارج نہ ہونے پائے۔ مہاجرین و انصار تو گزر گئے ان میں داخل ہونا تو ممکن نہیں خیر یہ نہیں تو تیسرے فریق میں تو شامل رہے کہ ان کو بھلا سمجھے، دل سے ان کی محبت رکھے، ان کی مساعی جمیلہ کی قدردانی کرے نہ یہ کہ ان پر جھوٹے سچے الزامات قائم کر کے تبرا کرنے کو ایمان وسعادت جانے۔ یہود سے اگر پوچھا جاتا ہے تو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب کو اچھا کہتے ہیں اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کو اچھا جانتے ہیں۔ مگر افسوس شیعہ حضرات محمد ﷺ کے اصحاب مہاجرین و انصار کو باستثنائے چند اشخاص سب کو برا کہتے ہیں بلکہ برا کہنے کو حسنات و برکات کا موجب سمجھتے ہیں۔ دنیا میں اس خصلت کا یہ اثر ہے کہ کبھی ان کا جھنڈا کھڑا ہونے نہیں پاتا نہ مقابلے میں پائوں جمتا ہے۔ اہل حق کے مقابلے میں مقہور ہی رہے اور ہمیشہ رہیں گے۔ اور وہ بات کیا ہے ؟ جس سے وہ ان بزرگوں سے پھرگئے۔ اس آیت کے ذیل میں اس کا بیان محققانہ طور پر مناسب ہے۔ بنی نضیر اور فدک اور خیبر کی کچھ زمین آنحضرت ﷺ کے لیے معین ہوئی تھی جس میں سے آپ نے کسی کو مہمانوں اور سامان حرب کے لیے اور کسی کو خرچ ازواج مطہرات کے لئے، کسی کو اقارب و یتامٰی و مساکین کے لیے معین کر رکھا تھا، چناچہ فدک کی آمدنی سے آپ ﷺ قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد جب جانشین کی ضرورت سمجھی گئی تو انہیں مہاجرین و انصار نے جن کی مدح آیات مذکور ہیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو انتخاب کیا۔ اس وجہ ترجیح کو وہی لوگ خوب جانتے تھے جو ایک مجموعی اوصاف سے ان کے دلوں میں جاگزین تھی جس لیے ان بزرگوں کے نزدیک یہی حضرت اس مسند پر بیٹھنے کے مستحق ٹھہرے۔ ہاں کوئی رعایت یا ابویکر ؓ کا ذاتی دباؤ تو قطعاً نہ تھا کس لیے کہ نہ ان کی قوم زیادہ تھی نہ ان کے پاس کوئی لشکر و خزانہ تھا اور ایسے مہاجرین و انصار ایسے بیجا دباؤ کو ماننے والے بھی کب تھے، فوراً مخالفت ظاہر کرتے اور سیوف کے قبضوں پر ہاتھ دھر لیتے۔ شیعہ کہتے ہیں یہی بات بری کی کس لیے کہ نبی ﷺ کے بعد جانشینی کا استحقاق حضرت علی مرتضیٰ ؓ کو تھا اور امامت لوگوں کے انتخاب پر موقوف تھی بلکہ آسمانی عہدہ ہے، نبوت کے عہدے کے برابر یا کسی قدر کم مگر مشابہ۔ حضرت علی ؓ کے لیے آسمانی سند موجود تھی۔ مگر افسوس حضرت علی ؓ نے اس آسمانی سند کو قبول نہیں کیا اور نہ وہ مہاجرین و انصار کو معلوم ہوئی کس لیے کہ اگر معلوم ہوتی تو ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا کہ وہ باوجود اس آسمانی سند کے اور باوجودیکہ حضرت علی ؓ پیغمبر خدا ﷺ کے بھائی اور داماد اور مہاجرین میں ذی مرتبہ شخص تھے ان سے عداوت اور بغض رکھتے جو رحماء بینہم اور مہاجرین و انصار کی اسلامی سیرت کے برخلاف تھا اور ابوبکر ؓ کو مقام کردیتے۔ اور ابوبکر ؓ یا عمر ؓ سے ڈر جاتے حالانکہ کوئی ڈرانے کا سامان ان کو میسر نہ تھا۔ اس پر وہ سب مہاجرین و انصار کو جو اس جانشینی میں شریک تھے برابھلا کہتے ہیں۔ یہ پہلا خلاف تھا مگر تعجب ہے کہ حضرت علی ؓ نے بھی ان کی جانشینی تسلیم کی اور ان کے ساتھ بخوشی و خرمی کاروبار میں شریک رہے۔ شیعہ کہتے ہیں دل میں ناراض تھے، ظاہرداری کرتے تھے، اس کو تقیہ کہتے ہیں۔ مگر ایسے بزرگ کی نسبت یہ ظاہرداری ظاہر کچھ اور باطن کچھ منسوب کرنا ان کی شان حیدری کو گھٹانا ہے۔ حضرت علی ؓ نے معاویہ ؓ کے مقابلے میں حضرت حسین ؓ نے یزید کے مقابلے میں تقیہ نہ کیا۔ توبہ توبہ برگزیدہ ہاشم کبھی کسی سے دبنے والے تھے جو زبان سے جھوٹی باتیں بناتے اور دل میں کچھ اور رکھتے ؟ حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت میں ایک مقدمہ پیش ہوا جس میں حضرت فاطمہ زہرا ؓ مدعیہ تھیں اور خلاف مدعٰی علیہ۔ دعویٰ یہ تھا کہ پیغمبر خدا ﷺ کی جائیداد میں سے بموجب فرائض مجھے حصہ ملنا چاہیے۔ دعویٰ بہت درست تھا مگر خلافت کی طرف سے یہ جواب ملا کہ آنحضرت ﷺ اپنی حیات میں اس جائیداد کو وقف کرچکے تھے۔ پیغمبر (علیہ السلام) کی یہ شان نہ تھی کہ وہ جائیداد یا روپیہ پیسہ چھوڑ کر دنیا سے رحلت کریں۔ اس پر شہادت گزر گئی، دعویٰ نہ چلا مگر جس قدر جائیداد آنحضرت ﷺ نے اقارب کے مصارف میں لگا دی تھی خلافت نے اقارب کے خرچ و اخراجات بلحاظ قرابت پیغمبر (علیہ السلام) بدستور جاری رکھے۔ یعنی منافع جاری رہے تملیک عین نہ تھی بلکہ وہ سب خلافت کا مال تصور ہوا۔ اس پر حضرت فاطمہ زہرا ؓ کو اگر رنجیدگی ہوئی ہو تو انسانی جبلت اور برادرانہ رنجش خیال ہوسکتی ہے۔ یہ دوسرا خلاف ہے۔ اس پر شیعہ کے مؤرخین نے جس قدر مبالغہ آمیز روایات تیار کی ہیں تو تعجب نہیں کس لیے کہ منشاء موجود تھا اور ایسے مواقع پر مبالغہ کرنے والوں کو برا موقع ہاتھ آتا ہے۔ میں ان ناپاک روایات کا ذکر بھی اہل بیت کی اہانت سمجھتا ہوں مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ فاطمہ ؓ کس باپ کی بیٹی ہیں اور کس رتبے کی ہیں وہ ایسے قلیل دنیاوی معاملات پر اس قدر رنج و بغض اپنے باپ کے جانشین سے رکھیں، حیطہ امکان سے باہر ہے۔ حاشا و کلاثم حاشا وکلا۔ مگر حضرت علی ؓ نے اپنے عہدخلافت میں بھی اس جائیداد کو خلافت کا مال سمجھا، آنحضرت ﷺ کے ورثہ میں تقسیم نہ کیا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ کو اسی انتخاب سے خلیفہ کیا۔ ان کے بعد حضرت عثمان ؓ کو یہ بھی شیعہ کے نزدیک رنجش کا باعث ہوا۔ یہ تیسرا خلاف تھا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ کو خلیفہ کیا۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد مگر معاویہ ؓ حضرت عثمان ؓ کے عہد سے شام کے حاکم یا گورنر تھے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ اور ان کے احباب سلطنت کی باریکیاں خوب سمجھتے تھے اور دنیاداری کی تدابیر پر پورے قابو یافتہ تھے۔ لوگوں نے حضرت علی ؓ سے کہا، اول معاویہ سے بیعت لے لیجئے، پھر چاہے ان کو معزول کیجئے اور عثمان ؓ کے قاتلوں سے بھی اول داروگیر کیجئے مگر شیر خدا ؓ نے جانے کس مصلحت سے مہاجرین و انصار کے اس مشورے سے پر عمل نہ کیا ؟ معاویہ ؓ نے بغاوت اختیار کی اور کہہ دیا میں تم کو خلیفہ ہی نہیں سمجھتا، تم سے اب تک قاتلان عثمان ؓ کا بھی پتا نہ چل سکا۔ اس بنا پر طرفین میں رنجش آمیز خط و کتابت بھی جاری رہی۔ ادھر لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ اور طلحہ و زبیر وغیرہ ؓ کو تحریک دلائی کہ قاتلان عثمان علی ؓ کے لشکر میں پناہ گزین ہیں اور اس وقت حضرت علی ؓ اطراف کوفہ میں ہیں۔ ام المومنین ؓ حضرت علی ؓ کے پاس چلیں اور صدہا لوگ شریک ہوتے گئے۔ ایک لشکر مہیا ہوگیا۔ جب یہ لشکر حضرت علی ؓ کے لشکر کے قریب پہنچا اور باہم قاتلان عثمان کی بابت گفتگو شروع ہوئی۔ ایک رات چند بدمعاشوں نے حضرت ام المومنین ؓ کے لشکر پر تیر مارنے شروع کردیے۔ پھر تو ادھر سے بھی تیاری ہو کر دونوں لشکروں میں خاطر خواہ جنگ ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ کے لشکر کو شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ جنگ آور اس اونٹ تک پہنچ گئے تھے کہ جس کے اوپر ہودے پر ام المومنین ؓ سوار تھیں۔ اس لیے اس مصیبت ناک واقعہ کو جنگ جمل کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچا دیا گیا اور طرفین سے بڑے بڑے اسلام کے نام آور اور بہادر شہید ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ کی معاویہ ؓ کے لشکر سے لڑائیاں شروع ہوئیں۔ صفین کا میدان مسلمانوں کے گراں بہا خونوں سے لالہ زار ہوگیا۔ ایسے مواقع پر برادرانہ رنجشیں ایک معمولی بات ہے اور طرفین کے غالیوں کے لیے افراط وتفریط اور بیشمار روایات بنانے کا عمدہ محل ہے۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ شہید ہوئے۔ ابن ملجم ملعون نے (جو گھات میں تھا) مسجد کوفہ میں زخمی کیا۔ اس کے بعد حضرت حسن ؓ مسند خلافت پر بیٹھے۔ پھر باہمی جنگ شروع ہوئی۔ آخرکار ابن رسول اللہ ﷺ نے خلافت معاویہ ؓ کے سپرد کر کے کنارہ 1 ؎ کشی کی اور باہمی معاہدہ ہو کر جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد معاویہ ؓ کا انتقال ہوگیا اور ان کی جگہ ان کا نالائق فرزند یزید پلیدنہ انتخاب سے بلکہ ان کے باپ کی شوکت کے زور سے خلیفہ کیا گیا تھا مسند پر بیٹھا۔ اس ناخلف نے حضرت حسن ؓ کو زہر دلوا کر شہید کیا اور پھر امام حسین ؓ کو کربلا کے میدان میں شہید کیا اور مسلمانوں پر جو روظلم کئے۔ اس کے بعد یہ مرگیا اور چند روز کے لیے اس کا بیٹا جانشین ہوا مگر اب انتخاب نہ رہا، حکومت و سلطنت کی تخت نشینی رہ گئی۔ اس کے بعد مروان خلیفہ ہوا اور مروانی خاندان میں کچھ کم سو برس حکومت رہی۔ پھر اس خاندان کا استیصال بنی العباس نے کیا۔ عباسیوں کی خلافت و حکومت کا پایہ تخت بغداد تھا۔ ان باہمی لڑائیوں میں حضرت علی ؓ کی اولاد پر ظلم و ستم بھی ہوتے رہے۔ معاویہ ؓ کی لڑائی سے لے کر اخیر تک اہل سنت کے نزدیک بھی جو حضرت علی اور حسنین ؓ کے مقابلے میں ہوئیں ان میں فریق مخالف سراسر خطا پر تھا اور حق اس طرف تھا۔ شیعہ حضرت علی ؓ کی اولاد فرضی طور پر اسی سند آسمانی سے اس مسند نشینی کو بہ لقب امامت بارہویں امام مہدی، حسن عسکری کے بیٹے تک مانتے ہیں اور کسی کو خلیفہ برحق نہیں جانتے۔ پھر ان میں بھی کئی فرقے پیدا ہوگئے۔ کسی نے حضرت علی ؓ کی اولاد کو کسی نے اور کسی کو امام مانا۔ اسی طرح ایک فریق جو ابتداء میں حضرت علی ؓ کا طرفدار تھا وہ دونوں فریق سے برگشتہ ہو کر دونوں کو برا کہنے لگا۔ ان کو خوارج کہتے ہیں۔ معاویہ ؓ اور ان کے بعد والے اگرچہ خطاکار تھے مگر ان باہمی ملکی لڑائیوں سے جن کا بیشتر منشا برادری کی عصبیت و حمیت ہے ہم ان کو کافر نہیں کہہ سکتے اور نہ کفرواسلام رسول کریم ﷺ کے بعد کسی شخص خاص کے ماننے یا نہ ماننے پر منحصر ہے کفرواسلام وہی ہے جس کو خدا و رسول ﷺ نے کفرواسلام بتایا۔ ہاں باہمی فسادومعصیت ضرور ہے جس کی سخت الفاظ سے پیغمبر خدا ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے۔ اصلی بات تو یہ ہے اس پر لوگوں نے حاشیہ چڑھا چڑھا کر کا ہ کا کوہ بنا دیا اور افراط وتفریط کو کام میں لا کر ایسے مباحث سے کتابیں بھر دیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ بڑی نامبارک لڑائیاں تھیں اسلام کی تلوار جس نے تھوڑے عرصے میں قطعہ ارض پر بےنظیر قبضہ کیا تھا اسلامیوں ہی پر الٹ پڑی۔ انا اللہ واناالیہ راجعون۔ افسوس کہ ہر فریق کے تیز طبع اور چالاک لوگوں نے ان واقعات سے کیا کیا باتیں اختراع کی ہیں بعض سنیوں نے تو بمقابلہ شیعہ حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت کے لیے آسمانی سند بنانے میں کوشش کی اور روایات و احادیث بنائیں اسی طرح شیعہ نے تو سینہ بسینہ علوم و اسرار شریعت جدی گھڑنے میں کوشش کی اور روایات کا تو ڈھیر لگا دیا۔ کسی نے زبر بینات نکالے، کسی نے دعویٰ کیا کہ علی مرتضیٰ و زہرا و حسنین ؓ کی کتاب ہمارے پاس ہے جو خاص ان کو آنحضرت ﷺ نے عنایت کی تھی اس میں لکھا ہے کہ بارہ امام 1 ؎ اس ترتیب سے ہوں گے اور یہ سب معصوم تھے نبی کی طرح ان کے پاس بھی وحی آتی تھی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے اتباع میں سے نبی گزرے ہیں۔ یہ آنحضرت ﷺ کے اتباع میں سے نبی ہیں گو نبی کے لفظ کا اطلاق نہیں کرتے مگر معنی اسی کے لیے جاتے ہیں۔ بارہ اماموں کو اہل سنت بھی مانتے ہیں یعنی ان کو بزرگ اور نیک سمجھتے ہیں جن کے عقائد و اعمال اہل سنت کے موافق تھے نہ یہ کہ وہ معصوم تھے ان پر وحی آتی تھی۔ بعض نے قرآن مجید کے آیات کی ایسی تفسیریں لکھیں کہ گویا تمام قرآن اسی باہمی جھگڑے اور علی ؓ کی خلافت اور دیگر خلفاء کی مذمت میں نازل ہوا ہے اور کوئی اہم مقصد بجز اس کے نہ تھا اور لطف یہ کہ سارے قرآن میں صاف صاف کہیں بھی ان کے مقاصد کو خدا تعالیٰ نے بیان نہیں فرما دیا کہ جھگڑا ہی طے ہوجاتا اور نہ پیغمبر (علیہ السلام) نے صحابہ ؓ کے مجمع عام میں اس بات کو طے کردیا معاذ اللہ اور اس کے رسول کو صاف صاف بیان کرنا نہیں آتا تھا کیا وہ بھی ابوبکر و عمر ؓ سے ڈرتے تھے ؟ معاذ اللہ معاذ اللہ۔ رہیں مناقب علی مرتضیٰ ؓ کی بعض سچی احادیث سو ان میں کلام ہی کیا ہے مگر ان سے وہ بات پیدا کرنی توجیہ القول بما لا یرضیٰ بہ قائلہ کا مضمون ہے اور سب سے بڑھ کر غور طلب یہ بات ہے کہ وہ خلافت جو ابوبکر و عمر ؓ نے کی اس میں دنیا کا حظ ہی کیا تھا وہ تو ایک سخت مشقت تھی جس لیے ان بزرگوں نے اپنی اولاد کو نہ دی۔ شیعہ اس کو دنیاوی سلطنت و امارت سمجھے ہوئے ہیں جس لیے اپنے پیارے علی مرتضیٰ ؓ اور ان کی اولاد پاک کے پاس بلافصل نہ آنے سے ناخوش ہیں۔ ہاں یزید کے عہد میں امارت ہوگئی تھی تو اس وقت تو ہم بھی یہی کہتے ہیں یہ نعمت دنیا جگرگوشہ رسول ﷺ کو دی جائے بشرطیکہ وہ اس کو قبول بھی کرتے۔ 1 ؎ شیعہ کے بارہ امام یہ ہیں۔ اول علی ؓ ان کے بعد حسن، ان کے بھائی حسین، ان کے بعد ان کے بیٹے علی زین العابدین، ان کے بعد ان کے بیٹے محمد باقر، ان کے بعد ان کے بیٹے جعفر صادق ان کے بعد ان کے بیٹے موسیٰ کا ظم ان کے بعد ان کے بیٹے علی رضا ان کے بعد ان کے بیٹے محمد تقی ان کے بعد ان کے بیٹے محمد نقی ان کے بعد ان کے بیٹے حسن عسکری ان کے بعد ان کے بیٹے محمد مہدی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جو غار سرمن رائے میں چھپے بیٹھے ہیں۔ 12 منہ 1 ؎ رسول کریم ﷺ نے ان مصیبت ناک واقعات کی پہلے ہی سے نہایت درد انگیز الفاظ میں پیشین گوئی کی تھی۔ 12 منہ
Top