Al-Quran-al-Kareem - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اور جو (مال) اللہ نے ان سے اپنے رسول پر لوٹایا تو تم نے اس پر نہ کوئی گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ اور لیکن اللہ اپنے رسولوں کو مسلط کردیتا ہے جس پر چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔
1۔ وَمَآ اَفَآئَ اللہ ُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ۔۔۔۔:”فاء یفیء فیئا“ (ض) جیسا کہ فرمایا :(حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللہ ِ) (الحجرات : 9) ”یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔“”افاء یفیی“ (افعال) لوٹانا۔ ”فے“ ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے ساتھ حاصل ہوں انہیں غنیمت کہا جاتا ہے (بعض اوقات غنیمت پر بھی فے کا لفظ بول دیا جاتا ہے)۔ ان اموال کو ”فے“ اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام اموال حقیقت میں مسلمانوں کی ملکیت ہیں اور ان پر کفار کا قبضہ ناجائز ہے ، جب مسلمان انہیں حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنے اموال واپس لیتے ہیں۔”اوجفتم“ ”وجف یجف وجفا ووجیفا“ (ض) ”الفرش“ گھوڑے کا دوڑنا۔”او جف یوجف ایجافا“ دواڑانا۔ ”خیل“ گھوڑوں کی جماعت۔ ”رکاب“ سواری کے اونٹوں کے لیے اسم جمع ہے۔ 2۔”وما افاء اللہ علی رسولہ منھم“ اس جملے کا عطف ”ما قطعتم من لینۃ۔۔۔۔“ پر ہے اور مقصد غزوۂ بنی نضیر میں مسلمانوں کو عطاء ہونے والی نعمتوں میں سے ایک اور نعمت کا بیان ہے۔ 3۔ بنو نضیر اپنی جلا وطنی کے ساتھ جو مکان ، باغات اور زمینیں چھوڑ گئے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کے جو اموال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واپس لوٹائے ہیں ان پر تمہارا کوئی حق نہیں ، کیونکہ تم نے انہیں گھوڑے یا اونٹ دوڑا کر یعنی جنگ کرکے حاصل نہیں کیا ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ کسی قابل ذکر لڑائی کے بغیر وہ سب اپنے رسول کو عطاء فرما دیئے ہیں۔ یاد رہے کہ بنو نضیر کی بستیاں مدینہ سے صرف دومیل کے فاصلے پر تھیں اور مسلمانوں نے پیدل جا کر ہی ان کا محاصرہ کرلیا تھا ، صرف رسول اللہ ﷺ سوار ہو کر گئے اور انہیں نے اس رعب کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈالا ، جنگ کیے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے آپ کو نبی ﷺ کے فیصلے کے حوالے کردیا۔ 4۔ وَّلٰـکِنَّ اللہ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ ط۔۔۔۔۔۔: یعنی بنو نضیر کے اموال پر قبضہ تمہارے گھوڑے یا اونٹ دوڑانے کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے دشمنوں میں سے جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ، وہ اس کے ڈالے ہوئے رعب کی وجہ سے لڑائی کے بغیر ہی اپنے آپ کو حوالے کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔ 5۔ یہ پہلے اموال تھے جو جنگ کے بغیر محض محاصرے کے نتیجے میں حاصل ہوئے۔ انہیں اصطلاح میں ”فے“ کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بدر میں لڑائی کے نتیجے میں جو اموال حاصل ہوئے انہیں ”غنیمت“ کہا جاتا ہے۔ ان کی تقسیم کا قاعدہ اللہ تعالیٰ نے سورة ٔ انفال میں بیان فرما دیا :(وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ ِﷲِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ) (الانفال : 41)”اور جان لو کہ تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بیشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے“۔ یعنی اس میں سے پانچواں حصہ اللہ ، اس کے رسول ، ذوی القربیٰ ، یتامی ٰ ، مساکین اور ابن سبیل کے لیے ہوگا اور باقی چار حصے لڑنے والوں میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔ رہے اموال فے جو بنو نضیر سے حاصل ہوئے ، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان پر تمہارا کوئی حق نہیں ، بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطاء فرمائے ہیں۔ یہی معاملہ ان تمام بستیوں کا ہے جو بعد میں جنگ کے بغیر حاصل ہوئیں ، مثلاً بنو قریظہ کی بستیاں اور خیبر کے وہ علاقے جو جنگ کے بغیر فتح ہوئے ، مثلاً فدک وغیرہ ، ان سب کو مکمل طور پر رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں دے دیا گیا کہ آپ جس کو جتنا چاہیں دے دیں یا اپنے پاس رکھیں۔ البتہ مستحقین کی چند اقسام متعین کردی گئیں کہ مال کی تقسیم انہی میں رہنی چاہیے۔ ان مستحقین کا بیان اگلی آیت میں فرمایا۔ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا :(کانت اموال بنی النضیر مما افاء اللہ علی رسولہ ﷺ مما لم یوجف المسلمون علیہ بخیل ولا رکاب ، فکانت لرسول اللہ ﷺ خاصۃ ، ینفق علی اھلہ منھا نفقۃ سنتہ ، ثم یجعل ما بقی فی السلاح والکراع ، عدۃ فی سبیل اللہ) (بخاری ، التفسیر ، باب قولہ :(ما افاء اللہ علی رسولہ): 4885)”بنو نضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو بطور فے عطاء فرمائے تھے ، جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دواڑئے تھے اور نہ اونٹ ، چناچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھے۔ آپ ان میں سے اپنے گھر والوں کو ایک سال کا خرچ دیتے ، پھر جو باقی ہوتا اسے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے اسلحے اور گھوڑوں میں صرف کردیتے تھے“۔
Top