Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 20
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا
وَيُطْعِمُوْنَ : اور وہ کھلاتے ہیں الطَّعَامَ : کھانا عَلٰي : پر حُبِّهٖ : اس کی محبت مِسْكِيْنًا : محتاج، مسکین وَّيَتِيْمًا : اور یتیم وَّاَسِيْرًا : اور قیدی
وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین یتیم اور قیدی کو
12 اہل جنت کا تیسرا بڑا وصف و عمل، اطعام طعام : سو اہل جنت کو جنت کا مستحق بنانے والے اعمال و اوصاف کے ذکر وبیان کے سلسلے میں ان کا تیسرا وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر۔ " حبہ " کی ضمیر کے مرجع میں تین احتمال ہیں اور ان میں سے ہر ایک پر ایک علیحدہ، مستقل اور صحیح مطلب بنتا ہے، ایک یہ کہ اس کا مرجع الطعام ہو جو کہ اس کا اقرب مذکور ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ یہ لوگ اس کھانے کے محبوب اور مرغوب ہونے کے باوجود اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اور اسی کو صحیح حدیث میں افضل صدقہ قرار دیا گیا ہے، کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے افضل اور بہتر صدقہ وہ ہے جو تم اپنی صحت کی حالت میں، اور اپنے لالچ کے وقت میں کرو، جب کہ تم کو مالداری کی محبت ورغبت ہو اور تنگدستی و محتاجی کا خوف و ڈر " ان تصدق و انت صحیح شجیع تامل الغنی وتخشی الفقر " اور جیسا کہ خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا : " لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون "۔ جبکہ دوسرا احتمال اس میں یہ ہے کہ اس کا مرجع وہ اطعام ہو جو کہ یطعمون کے لفظ سے مفہوم ہو رہا ہے، یعنی وہ لوگ اپنی خوشی ورغبت اور شوق و محبت سے یہ کھانآ کھلاتے ہیں، نہ کہ مجبوراً اور بادل نخواستہ، اور اللہ پاک کے یہاں قدر و قیمت اسی عمل کی ہے جو کہ اپنی رضا ورغبت اور دلی شوق سے ہو نہ کہ مجبوری و بددلی سے، والعیاذ باللہ اور تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس کا مرجع اللہ ہو، جل جلالہ یعنی وہ محض اللہ پاک کی رضا جوئی اور خوشنودی کی خاطر یہ عمل کرتے ہیں " فسبحانہ ما اجمل وما احسن وما اجمع واعظم کلامہ " بہرکیف اس سے ان بندگان خدا کے اس رویئے کو اجاگر فرمایا گیا ہے، جو وہ خلق خدا کے ساتھ رکھتے ہیں جو کہ ہمدردی، ایثار اور خدمت کا رویہ ہے۔ اور یہی رویہ مطلوب اور اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب ہے۔ نہ کہ وہ رویہ جو کہ دوسروں کے خون چوسنے اور ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بنیاد پر مبنی ہو جس طرح کہ سود خور، قمار باز اور بےرحم دنیا پرستوں کے یہاں پایا جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ جبکہ دین حنیف یہ سکھاتا ہے کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ اور اس کی برادری ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے محبوب انسان وہ ہے جو اس کی برادری کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ الخلق عیال اللہ فاحب الخلق من احسن الی عیالہ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ 13 اطعام طعام کی اہمیت اور ایک من گھڑت قصے کی تردید و تغلیط : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین، یتیم اور اسیر کو۔ عام اس سے کہ وہ مسلمان ہو یا کافر، جنگ میں پکڑا گیا ہو، یا کسی حق میں محبوس ہو (معارف وغیرہ) یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ اس میں صرف کھانا کھلانا ہی مراد نہیں، بلکہ ہر طرح کا احسان اور ہر ضرورت کی تکمیل اس میں داخل ہے، کھانے کا ذکر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ یہ سب سے بڑی ضرورت اور سب سے اہم مقصود ہے، (المراغی وغیرہ) حضرت مجاہد اور ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی کہ انہوں نے ایک مرتبہ حضرات حسنین کریمین ؓ کی صحت یابی کیلئے نذر مانی کہ اگر ان کو شفاء مل گئی تو ہم تین روزے رکھیں گے، چناچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جب ان دونوں کو صحت مل گئی تو ان دونوں حضرات نے نذر کے وہ تین روزے رکھنے شروع کیے تو پہلے روز عین افطاری کے وقت ایک مسکین ان کے در پر آگیا، تو انہوں نے وہ کھانا اٹھا کر اس کو دے دیا اور خود اسی طرح رات گزاری، دوسرے روز عین افطار کے وقت ایک یتیم سوالی آگیا تو انہوں نے اپنا کھانا اٹھا کر اس کو دے دیا اور خود اسی طرح سو رہے، اسی طرح تیسرے روز ایک قیدی آگیا تو اس روز کا کھانا اس کو دے دیا اور خود ایسے ہی سو رہے، اور پانی پی کر رات گزار دیتے رہے تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، (جامع البیان وغیرہ) یہ قصہ اگرچہ مکارم اخلاق کے لحاظ سے ایک نادر نمونہ پیش کرتا ہے، لیکن یہ قصہ عقل اور نقل دونوں کے خلاف نامعقول، اور ناقابل قبول ہے، اول اس لیے کہ سند اور ثبوت کے اعتبار سے یہ بہت کمزور بلکہ موضوع ہے، اس کو سب سے پہلے واقدی نے اپنی تفسیر البسیط میں بیان کیا پھر یہ آگے نقل در نقل ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ رازی اور زمخشری جیسے محققین کی کتابوں میں بھی جگہ پا گیا، اور کسی نے اس کے بارے میں یہ سوچنے کی اور دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی، کہ سند و ثبوت کی کمزوری کے علاوہ یہ قصہ عقل و درایت کے ترازو پر بھی کس طرح اترسکتا ہے، اور یہ تک نہ سوچا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ لگاتار تین دن تک ایسے تین شخص آتے رہے اور عین اسی ترتیب کے مطابق آتے رہے جس کا ذکر آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے یعنی پہلے روز مسکین، دوسرے روز یتیم، اور تیسرے روز قیدی اور وہ بھی عین افطار کے وقت، اور وہ بھی ایسے نفلی روزوں میں جو کہ صرف اسی گھرانے میں رکھے جا رہے تھے، جس کا دوسروں کو بالعموم کوئی اتہ پتہ بھی نہیں ہوتا۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ سوالی تو ایک آتا ہے مگر اس کو گھر کے پانچ آدمیوں کا سب کھانا اٹھا کر دے دیا جاتا ہے، یعنی حضرات حسنین کریمین، ان کے والدین ماجدین، اور ان کی باندی فضہ کا آخر یہ کیوں نہ کیا گیا کہ ایسے ایک سوالی کو ایک ہی شخص کا کھانا دے دیا جاتا، اور باقی چار کا کھانا وہ خود پانچوں حضرات مل کر کھالیتے، پھر تیسری بات یہ کہ حضرت حسنین کریمین جیسے دو چھوٹے اور معصوم بچے، جو کئی روز کے بخار اور بیماری سے اٹھے ہوں، ان کے ایسے عاقل اور زیرک والدین نے سب کھانا سوالی کو دے کر ان دونوں کو بھوکا رکھنا کیسے گوارا کرلیا، اور پھر قیدی کو تو اسلامی حکومت میں اس طرح کبھی چھوڑا ہی نہیں جاتا تھا کہ وہ بھیک مانگنے لوگوں کے دروازے پر جائے، وہ اگر حکومت کے پاس ہوگا تو اس کے اخراجات بیت المال سے پورے کئے جائیں گے، اور اگر کسی شخص کی تحویل میں ہوگا تو اس کے اخراجات کی ذمہ داری اسی شخض پر ہوگی، سو ان تمام وجوہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ایک من گھڑت قصہ ہے جو دجال قسم کے لوگوں کے دجل و تبلیس کا نتیجہ اور ان کی ایجادات و اختراعات میں سے ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین۔
Top