Tafseer-e-Haqqani - An-Naba : 6
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًاۙ
اَ لَمْ : کیا نہیں نَجْعَلِ : ہم نے بنایا الْاَرْضَ : زمین کو مِهٰدًا : فرش
کیا ہم نے زمین کو بچھونا
ترکیب ¦ الاستفہام لتتقریر ای جعلنا الارض مفعول اول و مھادا مفعول ثان لجعلنا والجعل بمعنی الخلق وفیہ معنی التقدیر والتسوید وقیل بمعنی التصییر والمھاد جمع مھد بمعنی الفراش قراء الجمہور بالجمع وقری مفرداً اوتادا جمع وتد (میخ) وخلقناکم معطوف علی المضارع المنفی داخل فی حکم ازواجاً حال ای متجنسین متشابھین جمع زوج سباتا قال الزجاج السبات ان ینقطع عن الحرکۃ والروح فی بدنہ وحاصل المعنی الراحۃ ای جعلنا نو مکم راحۃ لکم معاشا منصوب علی الظرفیۃ المعاش مصدر میمی معنی المعیشتہ شداد جمع شدیدۃ ای قویتہ محکمۃ وھا جاوا لوہاج المضیئی من قولھم وھج الجوھرای تلا لا المعصرات فیھا قولان اولا وھواحدی الروایتین عن ابن عباس وقول مجاہدو مقاتل وقتادہ والکلبی انھا الریاح التی تثیر السحاب ومن بمعنی الباء والمعنی انزلنا بالریاح المثیرۃ للسحاب الثانی وھوا لروایۃً الثانیۃ عن ابن عباس اختیار ابی العالیۃ والربیع والضحاک انھا السحاب بوجوہ منھا انہ قال المورج المعصرات السحائب بلغۃ قریش ماء موصوف ثجاجا صفۃ الجموع مفعول انزلنا الثجاج شدۃ الانصباب یقال ثج الماء ای سال بکثرۃ وثجہ ای اسالہ فیکون لازماً ومتعدیا الفافا ای بساتین ملتفۃ قال صاحب الکشاف انہ لا واحدلہ کالاوزاع و الاخیاف الجماعات المتفرقۃ والجماعات المختلطۃ والاخرون اثبتوالہ واحد ثم اختلفوا فیہ فقال الاخفش والکسائی واحد ھالف بکسر اللام وقیل بضمھا وقال المبرد واحد ھا لفاوجمعہ لف وجمع لف الفاف وقیل جمع لفیف کشریف واشراف والمعنی ان کل جنۃ فیھا الاشجار المتجمعۃ المتقاربۃ یقال امرأ لفاء اذا کانت غلیظۃ الساق مجتمعۃ اللحم ینبغ من تقار بہ ان یتلاصق۔ تفسیر ¦ اس دن یا اس خبر کی عظمت بیان فرما کر اس کے بعد چند دلائل بیان فرماتا ہے جو اس کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کا کافی ثبوت کرتی ہیں اور جن سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ وہ قادر مطلق اور حکیم برحق اس عالم کو درہم برہم کرکے ایک دوسرا اور عالم پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس عالم کو فنا کرکے دوسرے عالم کے پیدا کرنے میں جو کچھ اس کی حکمت ہے اس کی کیفیات و خصوصیات تک عقول بشریہ کو رسائی نہیں۔ پھر ایسی چیزوں سے سوال کرنا محض نادانی ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بنانے میں ذرا بھی کسی کو شرکت نہیں یا یوں کہو کہ وہ دن جس کی وہ خبر پوچھتے اور اس کے آنے کی جلدی کرتے ہیں ٗ وہ یوم الفصل ہے جیسا کہ بعد میں بیان ہوتا ہے ان یوم الفصل الخ جس دن مطیعوں اور نافرمانوں میں بالکل امتیاز ہوجائے گا نہ مکان میں شرکت نہ کھانے پینے کے کسی سامان میں شرکت باقی رہے گی۔ نہ اسباب تعیش و موجبات راحت میں برخلاف دنیا کے کہ یہاں ان سب چیزوں میں مومن و کافر مطیع و عاصی سب شریک ہیں پھر یہاں وہ دن کیونکر آسکتا ہے۔ اس لیے جلدی کرنا اور سوال کرنا عبث ہے اور نیز یوم الفصل کی حقیقت بھی فی الجملہ بیان کردی گئی کہ وہاں نہ یہ آسمان ہوں گے جو آج تم پر قائم ہیں نہ یہ آفتاب ہوگا۔ نہ یہ زمین ہوگی نہ یہ پہاڑ ہوں گے جن کے نفع میں سب شریک ہیں۔ نہ ان بدلیوں سے پانی برسے گا۔ باغوں اور نباتات کی روئیدگی کے اور ہی سامان ہوں گے۔ نہ یہ رات اور دن ہوں گے جن میں رات کو پڑ کر بیخبر سوتے اور دن کو روزی تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ان کے سوال کا بھی فی الجملہ جواب دینا مقصود تھا۔ اس لیے اس کے بعد یہ نو چیزیں بیان کرتا ہے جن پر دنیا اور اس کی زندگی مربوط ہے۔ فقال (1) الم نجعل الارض مہادا کہ کیا ہم نے زمین کو تمہارے رہنے چلنے پھرنے کے لیے فرش نہیں بنایا ؟ ضرور بنا دیا۔ اگر زمین ہوا کی طرح خفیف اور پانی کی طرح نرم اور آگ کی طرح گرم ہوتی تو تم کہیں اس پر بس سکتے تھے ؟ ہرگز نہیں۔ پھر ہمارے اس انعام میں مومن و کافر سب ہی تو شریک ہیں۔ برخلاف دار آخرت کے کہ وہاں مطیعون کے رہنے کی اور جگہ ہے نافرمانوں کی اور اس سے یہ بھی تم غور کرسکتے ہو کہ جس قادر مطلق نے کرہ ٔ ارض کو ایسا بنایا ہے وہ اس کو فنا نہیں کرسکتا ؟ اور نئی زمین نہیں بنا سکتا۔ ضرور بنا سکتا ہے۔ یہ دنیا کے گھر کا فرش ہے جس پر ہوا میں اڑنے اور ہلنے جلنے کے لیے (2) والجبال اوتادا کیا ہم نے پہاڑوں کو میخیں نہیں بنا دیا ؟ ضرور بنا دیا جس سے یہ فرش ہلتا نہیں۔ اس میں بھی کافر و مومن سب شریک ہیں اور پہاڑوں سے جو کچھ نفع ہیں سب ان سے حصہ پا رہے ہیں برخلاف یوم الفصل کے۔ پھر کیا وہ قادر مطلق جس نے پہاڑوں میں ثقل پیدا کرکے زمین کو ڈگمگانے اور ہلنے جلنے سے محفوظ رکھا وہ ایک روز اس کو ہلا نہیں سکتا۔ واذارجت الارض رجا۔ حکمائِ حال کے نزدیک زمین حرکت کرتی ہے جیسا کہ اور ستارے اپنے مدار پر گھومتے ہیں یہ بھی دورہ تمام کرتی ہے۔ ان کے نزدیک بھی ان آیات سے انعامِ الٰہی اور اس کی حکمت بالغہ کا کافی ثبوت ہے۔ کس لیے کہ اب اس طرح حرکت کرتی ہے کہ اس پر رہنے والوں کو کچھ بھی لغزش نہیں جیسا کہ کشتی میں پتھر ڈال دینے سے وہ ادھر ادھر ڈگمگاتی نہیں اور ایک خاص انداز پر چلتی ہے۔ زمین کے فرش بنانے اور پہاڑوں کو میخیں بنانے سے ان کے نزدیک یہی مراد ہے اور یہ اس کا بڑا انعام اور قدرت کاملہ کا نمونہ ہے۔ یہ فرش بنا کر اس کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ (3) وخلقنا کم ازواجاً تم کو اے بنی آدم جوڑے جوڑے پیدا کیا۔ مرد کا جوڑا عورت اور عورت کا مرد بنایا تاکہ اس فرش پر رہیں اور اولاد جنیں اور پھولیں پھلیں۔ اس نعمت میں بھی کافر و مومن سب ہی شریک ہیں۔ ازواج کے معنی اور بھی عام ہیں کہ صفات کے لحاظ سے ایک کے مقابلہ دوسرا ہے۔ بادشاہ ہے تو فقیر بھی ہے۔ غنی ہے تو مفلس بھی ہے۔ نیک ہے تو بدکردار بھی ہے۔ حسین ہے تو بدشکل بھی ہے۔ کالے ہیں تو گورے بھی ہیں۔ عقلمند ہیں تو احمق بھی ہیں۔ علی ہذا القیاس۔ اس میں اس کی قدرت کاملہ کا اظہار ہے کہ جس نے ایک ہی فرش پر ایک ہی مادہ سے کیسی مختلف چیزیں بنا دیں اور نیز انسان کو اس کی فطرت اور آفرینش میں مجبوری بھی دکھا دی اور ثابت کردیا کہ انسان کو جو ہم نے قدرت دی ہے وہ محدود ہے۔ اپنے اندر بھی فطری چیزوں میں تغیر نہیں کرسکتا۔ پھر کیا وہ قادر مطلق تم کو باردگر پیدا نہیں کرسکتا اور تمہارا یہ اختلاف تو صاف صاف کہہ رہا ہے کہ تمہارے مختلف اعمال کی جزاء و سزا کا ایک اور گھر ہے۔ پھر اس دنیا کے فرش پر تم کو کس طرح سلایا۔ (4) وجعلنا نومکم سباتا اور ہم نے تمہاری نیند کو تمہارے لیے راحت بنا دیا۔ اگر رات کو یا دن کو انسان اچھی طرح نہ سوئے اور نوم غریق نہ آوے جس کو سبات کہتے ہیں یا سرے سے نیند ہی نہ آوے اور جو آوے تو غریق نہ ہو بلکہ نیم خوابی سی ہو تو پھر دیکھئے حضرت انسان کی کیا حالت ہوتی ہے ؟ اس میں بھی کافر و مومن سب شریک ہیں۔ برخلاف یوم الفصل کے کہ وہاں مجرموں کو نیند کہاں۔ بیقراری اور سوزش میں نیند کب آتی ہے ؟ دنیا کی یہ بےفکری کی نیند یاد کرکے رویا کریں گے۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ نعمت ہے۔ اس کا شکریہ کرو بقدر ضرورت اس سے کام لو پھر طلب معاش یا یاد الٰہی میں وقت گزارو نہ یہ کہ سو سو کر عمر گزار دو اور نیز یہ موت کا بھی ایک نمونہ ہے کہ ابھی تو باتیں کرتے تھے یا چٹ پٹ سو گئے دنیا سے غفلت ہوگئی۔ گویا مرگئے۔ پھر جو تم کو ہر روز مارتا اور ہر روز جلاتا ہے۔ پھر کیا وہ موت کی نیند کے بعد اس خواب سے بیدار نہ کرے گا ؟ جس پر کہیں گے من بعثنا من مرقدنا ضرور کرے گا اور اصل بیداری وہی ہوگی اس جہان کی بیداری بھی خواب ہے بلکہ خواب پریشان۔ (5) وجعلنا الیل لباسا اور ہم نے رات کو اوڑھنا بنا دیا یعنی پردہ ‘ رات پردہ دار ہے۔ اس پردہ میں کوئی برائی کرتا ہے ٗ کوئی بھلائی ٗ چورچوری کرتا ہے۔ زناکار چھپ کر زنا کرتا ہے۔ عابد و زاہد نماز تہجد اور مراقبہ و ذکر میں بیٹھا ہوا ہے اور نیند کا وقت بھی رات ہی ہے۔ ستر کی وجہ سے رات کو لباس کہنا استعارہ ہے۔ فائدہ : کسی نے ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ نکاح دن میں بہتر یا رات میں ؟ آپ نے فرمایا ٗ رات میں کس لیے کہ رات کو بھی قرآن میں لباس کہا ہے اور عورت کو وھن لباس لکم اس لیے عورت اور اس کے نکاح کو رات ہی مناسب ہے۔ ایک لباس کو دوسرے سے مناسبت ہے۔ یہ اس کی پانچویں نعمت ہے پھر جس نے تم کو یوں راحت سے سلایا اور جگا کر بھوکا نہیں رکھا بلکہ (6) وجعلنا النہار معاشا اور ہم نے دن کو تمہاری روزی کے لیے بنایا۔ اس میں بھی کافر و مومن سب شریک ہیں۔ برخلاف اس دن کے کہ نیک بہشتوں میں آرام کرتے ہوں گے۔ بد جہنم میں جلتے ہوں گے ٗ روزی تلاش کرنا کجا اہل دنیا کی فطرت میں ہے کہ رات کو سوتے اور دن کو معاش کے کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں اگر ہمیشہ رات رہتی یا ہمیشہ دن رہتا تو عافیت کا دائرہ تنگ ہوجاتا۔ آفتاب اور دیگر سیارات کی گردش یا کہو زمین کی آفتاب کے گرد حرکت جیسا کہ حکمائِ جدید کا خیال ہے اس طرح اور اس نظام سے کہ رات اور دن پیدا ہوں اس کی قدرت اور حکمت کی دلیل ہے۔ پھر جو ان اجرام کو ایک خاص ارادے پر حرکت دے رہا ہے۔ کیا اس کے نزدیک باردگر پیدا کرنا مشکل ہے ؟ ہرگز نہیں۔ یہ دنیا کی حاصل کار باتیں تھیں یعنی رات کو سونا اور دن کو روزی کے دھندے میں لگنا اس میں غافل عمر تمام کر جاتے ہیں۔ ان دو مشغلوں کے سوا دار آخرت کی فکر تک نہیں۔ اب اس گھر کی چھت کا حال بیان فرماتا ہے (6) وبنینا فوتکم سبعاً شداداً کہ ہم نے تمہارے اوپر سات چھت مستحکم بنائیں جو زمانے کے گزرنے سے ہرگز پرانی نہیں ہوتیں اور نہ ان میں کوئی قصور و فتور واقع ہوتا ہے۔ اب تک ویسے ہی ہیں۔ اس کاریگر کی یہ کاریگری قابل غور ہے۔ وہ سات چھت کیا ہیں۔ سات آسمان کہ جن میں سات ستارے دورہ کرتے ہیں اور ان ستاروں کی تاثیر حرارت و برودت ‘ روشنی و تاریکی سے سب نیک و بد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بخلاف یوم الفصل کے کہ وہاں نیکوں کے لیے جنت میں چھت کی جگہ بلند مرتبہ لوگوں کے مکان ہیں جن کی روشنی ان پر پڑتی ہوگی اور وہ بلند مرتبہ حضرات انبیاء علیہم الالسلام و اولیاء کرام ان ماتحتوں کی ترقی میں مدد کریں گے اور بدوں کو جہنم کے طبقات احاطہ کئے ہوں گے اور یہی ان کی چھت ہوگی اور کفار اپنے ظلمات کفر میں اپنے سے اوپر والوں کو اور بھی زیادہ عذاب میں مبتلا سمجھیں گے۔ حکماء حال کے نزدیک سبع شداد سات ستارے ہیں جو یکے بعد دیگر قائم ہیں اور اپنے مدار پر حرکت کرتے ہیں اور جس فضا میں یہ حرکت کرتے ہیں۔ وہ ان کے آسمان ہیں مگر کوئی دوربین اب تک ایسی نہیں پیدا ہوئی جو اس قدر دور دراز کی فضا کو جس میں اجرام لطیف ہیں محسوس کرسکے۔ پھر آسمان کا انکار محض مکابرہ ہے۔ اب اس دنیا کے گھر کا چراغ بھی ضرور تھا۔ اس لیے فرماتا ہے (8) وجعلنا سراجاوھاجا اور ہم نے چمکتا ہوا چراغ بھی بنا دیا۔ دن کو آفتاب رات کو ماہتاب اور ستارے جن کے نور سے نیک و بد برابر نفع اٹھاتے ہیں۔ برخلاف یوم الفصل کے کہ جنت میں آفتاب کی روشنی کی ضرورت نہ ہوگی اور جہنم میں سرے سے کوئی روشنی نہ ہوگی۔ اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور نیز یہ بھی اس کی قدرت کاملہ کی برہان ہے کہ آفتاب میں یہ نور دیا اور پھر ان ستاروں کے انوار میں یہ فرق پیدا کردیا کہ کسی کی روشنی گرم ہے تو کسی کی سرد۔ پھر کیا وہ حکیم اس جہان میں نیکوں اور بدوں کو جزاء و سزا نہیں دے سکتا ؟ ضرور دے سکتا ہے اور دے گا۔ یوں ہی معطل نہ چھوڑے گا۔ اس کے بعد اس جہان میں جو بندوں کی راحت کا سبب ہے اس کو بھی بیان فرماتا ہے کہ ایسا گھر بنا کر ہم تم کو اس تدبیر سے کھانا کھلاتے ہیں۔ فقال (9) وانزلنا من المعصرات ماء ثجاجا کہ ہم بادلوں سے پانی کا ریلہ اتارتے ہیں۔ بادلوں سے پانی کا برسنا اور وہ بھی اس طرح سے کہ چھوٹی چھوٹی بوندیں برستی ہیں۔ اس کی حکمت وقدرت کی دلیل ہے۔ حکماء نے کہا ہے کہ آفتاب کی حرارت سے زمین سے بخارات اوپر چڑھتے ہیں اور ہوا کے بارد طبقہ میں جا کر جم جاتے ہیں۔ پھر ان سے پانی برستا ہے۔ یہ ٹھیک مگر اس سلسلہ اسباب میں جو کچھ کاریگریاں ہیں ان کو تو دیکھو جہاں عقل حیرت میں آکر یہی کہہ دیتی ہے کہ تو ہی مسبب الاسباب ہے تیرے ہی ہاتھ میں ہر کام کی ڈوریاں ہیں پھر یہ پانی بیکار نہیں بلکہ اس لیے ہے لنخرج بہ حباً ونباتا وجنات الفافا کہ اس سے ہم اناج پیدا کرتے ہیں جو اے ابن آدم ! تمہارے کھانے میں آتا ہے اور نبات بھی پیدا کرتے ہیں یعنی جڑی بوٹیاں کہ جن میں تمہارے چارپایوں کی بھی غذا ہیں اور دوا میں تمہارے بھی کام آتی ہیں اور کچھ ان میں سے خوشبو اور مصالحہ کا کام دیتی ہیں اور جنات الفافا اور گھنے باغ اگاتے ہیں جن میں طرح طرح کے میوے پیدا ہوتے ہیں اور ان کی سبزی و شادابی تمہاری عشرت و فرحت کا سبب ہے۔ اب دیکھو ایک پانی ہے۔ اس سے کیا کیا مختلف چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ اس کی قدرت کی دلیل ہے۔ اس میں بھی کافر و مومن برابر نفع اٹھاتے ہیں۔ کوئی امتیاز نہیں برخلاف اس جہان کے کہ وہاں نیکوں کے اعمال و اعتقادات و احوال ‘ باغ و انہار اور میوے بن کر سامنے آویں گے اور بدوں کے اعمالِ بد اور عقائدِ فاسدہ زقوم و مائٍ حمیم بن کر ظاہر ہوں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس جہان میں تمام منافع میں شرکت ہے۔ امتیاز کلی نہیں بلکہ اس جہان کی فنا وتخریب کے بعد ایک اور جہان ہوگا جہاں بدوں کو نیکوں کے ساتھ کسی راحت اور نفع میں شرکت نہ ہوگی پس وہ دن فیصلہ کا ہے اور وہیں جزاء و سزائے کامل ہے اور وہی فصل یعنی امتیاز کلی کا بھی دن ہے۔ فائدہ : ان آیات میں جس طرح اس عالم کے منافع میں شرکت عمومی بیان کی گئی کہ جو یوم الفصل کے برخلاف ہے۔ اسی لیے یہ جہاں دار جزاء و سزا ہو بھی نہیں سکتا بلکہ ایک اور جہان کا انتظار کرنا چاہیے جس کی تمام انبیاء (علیہم السلام) خبر دیتے چلے آئے ہیں اور جس کی اول منزل ہر ہر فرد انسانی کے لیے موت ہے اور سب کے لیے اس جہاں کی تخریب 1 ؎ جس کو آیندہ بیان فرماتا ہے اور جس کی نسبت سوالات کرنا اور تعجب کرنا عقل کی کوتاہی ہے۔ اسی طرح ان آیات میں اس کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ اور نعمت شاملہ کا بھی ہر فرد انسانی کے لیے ثبوت ہے جس سے یہ بتلایا جاتا ہے کہ تم اس محسن اور قادر مطلق و حکیم برحق کی نافرمانی کرتے ہو اور ان نعمتوں میں اور معبودوں کو شریک ٹھہرا کر ملزم 2 ؎ بنتے ہو توہمات فاسدہ کے گھوڑے دوڑاتے ہو۔ یہ کمال ناسپاسی اور پوری نمک حرامی ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے اور نیز ان آیات میں حیات و موت اور بقاء و فنا کا بھی نقشہ دکھایا ہے، مثلاً آفتاب طلوع کرتا ہے پھر نصف النہار پر اپنے کمال کو پہنچتا ہے۔ پھر ڈھلنا شروع ہوتا ہے آخر غروب ہوجاتا ہے اور دنیا میں روشنی کی جگہ اندھیرا چھا جاتا ہے یہی حال انسان کا ہے کہ پیدا ہوتا ہے اور جوانی کی حد تک پہنچ کر ڈھلنا شروع ہوتا ہے۔ 1 ؎ یعنی اس جہان کا برباد ہونا دوسرے جہاں کے لیے سب کے لیے یہی منزل ہے۔ 12 منہ 2 ؎ بھلا کوئی بتلائے تو سہی کہ ان نو چیزوں میں سے کونسی کسی اور معبود نے بنائی ہے یا بنانے میں مدد دی ہے۔ پھر وہی معبود واحد قابل پرستش ہے۔ آخر ایک روز زمین کے پردے میں یہ چمکتا ہوا مہتاب غروب ہوجاتا ہے اور اس کے وجود عارضی پر ایک عدم کی اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر جس طرح ایک مدت معین کے بعد آفتاب باردگر طلوع کرتا ہے۔ اسی طرح یہ مہ پارہ بھی نئی دنیا اور دوسرے جہان میں پھر طلوع کرے گا اور اس طرح پانی سے سبزہ اگنے میں بھی حیات و موت کا نمونہ ہے۔ پانی کے قطرے سے یہ پیدا ہوتا ہے جو اس کے ماں باپ کی ٹپکتی بدلیوں سے برسا تھا۔ پھر اس سے ایک بوٹا اگا اور کیا کیا جوانی اور لڑکپن کی بہاریں آئیں۔ آخر پژمردہ ہوتا چلا اور سوکھ کر زمین پر گر پڑا اور ہوا میں اس کے ریزے ریزے اڑتے پھرے۔ اسی طرح رات اور دن خواب و بیداری بھی نمونہ ہیں۔
Top