Tafseer-Ibne-Abbas - Ibrahim : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے تو جدھر تم رخ کرو ادھر خدا کی ذات ہے بیشک خدا صاحب وسعت اور باخبر ہے
(115) اب اللہ تعالیٰ قبلہ کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب شخص کو قبلہ معلوم نہ ہو وہ سوچ وبچار کرکے جس جانب نماز میں اپنا چہرہ کرلے تو وہ نماز اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے ہوجائے گی، اور اس آیت کی یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرق ومغرب والوں کے لیے قبلہ بیان کررہا ہے اور وہ حرم ہے، تو جس مقام پر بھی نماز کی حالت میں تم اپنے چہروں کو حرم کی طرف کرلو گے تو وہ ہی اللہ تعالیٰ کا قبلہ ہے اللہ تعالیٰ قبلہ کے تعلق سے ان کی نیتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ شان نزول : (آیت) وللہ المشرق والمغرب“ (الخ) مسلم، ترمذی ؒ ، نسائی ؒ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ واپسی کے وقت اپنی سواری پر جس جانب بھی آپ کی سواری کا چہرہ ہوتا تھا نفل نماز ادا فرما رہے تھے، اس کے بعد ابن عمر ؓ نے (آیت) ”وللہ المشرق والمغرب“۔ آیت کریمہ پڑھی اور فرمایا اسی کے حکم کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے اور امام حاکم ؒ نے حضرت عمر ؓ سے ہی روایت کی ہے کہ (آیت) ”فاینما تولو فثم وجہ اللہ“۔ یہ آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جس جانب بھی آپ کی سواری کا چہرہ اور رخ ہو اس پر نفل نماز پڑھ سکتے ہو، امام حاکم ؒ فرماتے ہیں یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اس آیت مبارکہ کے بارے میں جو احادیث مروی ہیں ان سب میں ازروئے سندیہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے اور اس پر علماء کرام کی ایک جماعت نے اعتماد کیا ہے مگر اس آیت کے نازل ہونے کا سبب بلکہ صرف اتنا ہے کہ اس چیز کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ دوسری روایات میں سبب نزول کی تصریح بھی موجود ہے چناچہ ابن جریر ؒ اور ابن ابی حاتم ؒ نے علی بن ابی طلحہ ؓ کے ذریعہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نماز کی حالت میں ”بیت المقدس“ کی طرف چہرہ کرنے کا حکم دیا اس سے یہودی بہت خوش ہوئے، چناچہ آپ نے دس ماہ سے زیادہ ”بیت المقدس“ کی طرف نماز میں چہرہ اور رخ کیا اور آپ قبلہ ابراہیمی کو پسند فرماتے تھے اور اس کے لیے دعا بھی کرتے تھے، اس کی طرف بھی دیکھتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے پھر پہلے قبلہ کی طرف چہرہ کرنے کا حکم صادر فرما دیا ، (آیت) ”۔ فولووجوھکم شطرہ“۔ اس پر یہودیوں کو شک ہوا کہ کیا وجہ ہے کیہ جس قبلہ کی طرف یہ نماز پڑھ رہے تھے پھر اس قبلہ کو ترک کردیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ آپ فرما دیجئے کہ مشرق ومغرب سب ہی جہتیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اس حدیث کی اسناد قوی ہیں اور حدیث کے معنی سے بھی اس کی تائید ہورہی ہے، لہٰذا اسی پر اعتماد کرلو اور اس آیت کریمہ کے بارے میں دیگر ضعیف روایات بھی موجود ہیں، چناچہ ترمذی، ابن ماجہ اور دارقطنی نے بذریعہ اشعث بن سمان ؒ عاصم بن عبداللہ ؒ ، عبداللہ بن عامر ؒ عامر بن ربیعہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک اندھیری رات میں سفر کر رہے تھے ہم میں سے کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ قبلہ کس طرف ہے ہر ایک نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق نماز ادا کرلی۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بتائی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) فاینما تولو فثم وجہ اللہ الخ امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں یہ حدیث ضعیف ہے اور اشعت روایت حدیث میں ضعیف ہیں۔ اور دار قطنی اور ابن مردویہ نے بواسطہ عزری ؒ ، عطا ؒ ، حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا، میں بھی اسی لشکر میں موجود تھا، اچانک ہمیں بہت سخت قسم کی اندھیرے کا سامنا ہوا جس وجہ سے ہم قبلہ کو نہ پہچان سکے، ہم میں سے ایک جماعت نے کہا کہ ہم نے قبلہ کی تحقیق کرلی، قبلہ اس کے شمالی جانب میں ہے، ان لوگوں نے اس طرف نماز ادا کرلی اور علامت کے لیے کچھ نشان کردیے، جب صبح ہوئی اور سورج طلوع ہوا تو یہ نشانات قبلہ کے علاوہ دوسری سمت پر تھے جب ہم اپنے سفر سے واپس لوٹے تو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس واقعہ کو بیان کیا تو آپ نے اپنی گردن جھکالی اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ”۔ وللہ المشرق والمغرب نازل فرمائی۔ اور ابن مردویہ ؒ نے بواسطہ کلبی ؒ ، ابوصالح ؒ ، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا ان کو راستہ میں اندھیرے سے واسطہ پڑگیا، جس کی وجہ سے قبلہ کا رخ معلوم نہ ہوسکا، چناچہ سب نے نماز ادا کرلی پھر سورج نکلنے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ قبلہ کے رخ کے علاوہ دوسرے رخ پر نماز پڑھی ہے، جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس لوٹے تو آپ کے سامنے یہ واقعہ پیش کیا گیا تب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا کہ مشرق ومغرب سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے الخ۔ اور ابن جریر ؒ نے قتادۃ ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا بھائی نجاشی انتقال کرگیا ہے اس پر نماز پڑھو، صحابہ کرام ؓ نے گزارش کی ہم ایسے شخص پر نماز پڑھیں جو مسلمان ہی نہیں ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وان من اھل الکتاب لمن یؤمن یؤمن باللہ“۔ پھر صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ وہ قبلہ کی طرف چہرہ کرکے نماز نہیں پڑھتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرق ومغرب سب اللہ کی ملک ہیں، یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور مرسل ہے یا معضل۔ اور ابن جریر ؒ ہی نے مجاہد ؒ سے روایت کیا ہے کہ جب آیت کریمہ (آیت) ادعونی استجب لکم“۔ نازل ہوئی تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہاں یاد کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ”فاینما تولو۔ الخ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top