Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 97
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ : جبرئیل کے دشمن فَاِنَّهُ : تو بیشک اس نے نَزَّلَهُ ۔ عَلٰى قَلْبِکَ : یہ نازل کیا۔ آپ کے دل پر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے وَهُدًى : اور ہدایت وَبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان والوں کے لئے
کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل کا دشمن ہو (اس کو غصے میں مرجانا چاہئے) اس نے تو (یہ کتاب) خدا کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے
(97) ان یہودیوں میں سے عبداللہ بن صوریا کہتا تھا کہ جبریل ؑ ہمارے دشمن ہیں، اس پر یہ آیت اتری یعنی اے محمد ﷺ آپ ﷺ فرمادیجئے ! جو اس بات کا قائل ہو وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے جبریل امین ؑ کے ذریعہ سے قرآن کریم آپ ﷺ پر اتارا ہے اور یہ قرآن حکیم توحید کے متعلق پہلی کتب کی تصدیق کرنے والا اور گراہیوں سے سیدھی راہ پر لانے والا اور جنت کی خوشخبری سنانے والا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”قل من کان عدولجبریل“۔ (الخ) حضرت امام بخاری ؒ نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری کی خبر سنی، حضرت عبداللہ بن سلام ؓ ایک زمین سے پھل چن رہے تھے وہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں آپ ﷺ سے تین باتیں پوچھنا چاہتا ہوں، جن کا علم نبی کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہوسکتا۔ 1۔ علامات قیامت کیا ہیں۔ 2۔ اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہوگا۔ 3۔ لڑکا اپنے باپ یا اپنی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے۔ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ان تینوں باتوں کے جواب کے متعلق ابھی جبریل امین نے مجھے آگاہ کیا ہے، عبداللہ بن سلام کہنے لگے جبریل ؑ ! آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! جبریل ؑ نے، عبداللہ بن سلام کہنے لگے فرشتوں میں سے جبریل تو یہودیوں کے دشمن ہیں، اس پر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ”قل من کان عدوالجبریل“۔ (الخ) شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ حدیث کے سیاق وسباق سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے یہودیوں کی تردید کے لیے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور اس تلاوت سے عبداللہ بن سلام ؓ کے واقعہ کے علاوہ اور دوسرا واقعہ موجود ہے، چناچہ امام احمد ؒ اور ترمذی ؒ اور نسائی ؒ نے بکر بن شہاب ؒ اور سعید بن جبیر ؓ کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگے اے ابوالقاسم ﷺ ! ہم آپ سے پانچ باتوں کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں اگر وہ پانچوں باتیں آپ ﷺ نے بتلا دیں تو ہم یہ پہچان لیں گے کہ آپ ﷺ سچے نبی ہیں۔ اور بقیہ حدیث کو بیان کیا جس میں یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کی بنی اسرائیل نے اپنے اور کن چیزوں کو حرام کیا تھا اور علامات نبوت کون سی ہیں اور گرج اور اس کی آواز کی حقیقت کیا ہے اور بچہ مذکر ومونث کیوں ہوتا ہے اور آسمان سے وحی کون لے کر آتا ہے، حتی کہ یہودی کہنے لگے ہمیں بتلائیے کہ آپ کے پاس وحی کون لے کر آتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا جبریل ؑ امین، یہودی کہنے لگے یہ تو جنگ و قتال اور عذاب الہی کے احکام لے کر آتے ہیں ہمارے دشمن ہیں، اگر آپ ﷺ میکائل ؑ کا نام لیتے جو رحمت، بارش، سبزہ وشادابی کو ساتھ لے کر آتے ہیں، تو یہ زیادہ اچھا ہوتا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اسحاق بن راہویہ ؒ نے اپنی مسند میں اور ابن جریر ؒ نے شعبی ؒ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ یہودیوں کے ہاں آتے اور ان سے توریت سن کر اس بات سے خوش ہوتے کہ توریت سے مضامین قرآن کریم کی کس طرح تصدیق ہوتی ہے، حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ان یہودیوں کے پاس سے گزرے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے یہودیوں سے کہا کہ میں تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم لوگ یہ بات جانتے ہو کہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، ان کا ایک عالم کہنے لگا کہ بےہم یہ بات جانتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ میں نے کہا ! تو پھر کیوں تم آپ کی اتباع نہیں کرتے، یہودی کہنے لگے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا کہ آپ کے پاس وحی کون لے کر آتا ہے، آپ نے فرمایا جبریل ، ؑ وہ ہمارے دشمن ہیں، جو شدت، عذاب، لڑائی اور تباہی و بربادی کے احکامات لے کر آتے ہیں۔ میں نے کہا تو فرشتوں میں سے کس سے تمہارے تعلقات محبت کے ہیں وہ بولے میکائیل ؑ سے جو باران رحمت لے کر آتے ہیں۔ میں نے کہا جبرائیل ؑ و میکائیل ؑ کا ان کے پروردگار کے یہاں کیا مقام ہے ؟ کہنے لگے کہ ایک ان میں سے اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب ہے اور دوسرا بائیں جانب ہے، میں نے کہا ! جبرائیل امین ؑ کے لئے یہ چیز جائز نہیں کہ وہ میکائیل سے دشمنی رکھیں اور میکائل ؑ کے حق میں اس چیز کا تصور محال ہے کہ وہ حضرت جبرائیل ؑ کے دشمن سے دوستی رکھیں اور جبرائیل ؑ و میکائیل ؑ اور ان کے پروردگار کی نظر میں وہ حضرات پسندیدہ ہیں جو ان سے محبت کریں اور وہ لوگ مبغوض ہیں جو ان سے دشمنی اور بغض رکھیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ کے ہاں حاضر ہوا تاکہ اس واقعہ سے آپ کو مطلع کر دوں جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ ﷺ نے فرمایا ! کیا میں تجھے ان آیتوں کے بارے میں بتاؤں جو ابھی مجھ پر اتری ہیں، میں نے عرض کیا ! ضرور یا رسول اللہ ﷺ تو آپ نے (آیت) ”من کان عدوا لجبریل“۔ سے کافرین“۔ تک ان آیتوں کی تلاوت فرمائی، میں نے عرض کیا اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ﷺ ! میں یہودیوں کے پاس سے اسی ارادہ سے آیا تھا تاکہ ان کے اور میرے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ آپ کو بتا دوں مگر میں آکر یہ منظر دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے آنے سے پہلے ہی آپ کو باخبر کردیا۔ اس حدیث کی امام شعبی ؒ تک سند صحیح ہے مگر امام شعبی ؒ نے حضرت عمر فاروق ؓ کا زمانہ نہیں پایا اور اسی روایت کو ابن جریر ؒ نے سدی ؒ نے کے حوالہ سے حضرت عمر ؓ سے اور ایسے ہی قتادۃ ؒ کے واسطہ سے حضرت عمر فاروق ؓ سے روایت کیا ہے مگر ان دونوں کی بھی سندیں منقطع ہیں اور ابن ابی حاتم ؒ نے دوسرے طریق سے عبدالرحمن بن ابی لیلی ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہودی حضرت عمر فاروق ؓ سے ملے اور کہنے لگے کہ جبریل ؑ جن کا تمہارے نبی ذکر کرتے ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل ؑ اور میکائیل ؑ کا دشمن ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا دشمن ہے، چناچہ حضرت عمر فاروق ؓ کی زبان سے جو کلمات ادا ہوئے تھے اسی کے موافق اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ اتاری، ان سندوں بعض کو بعض سندوں کے ساتھ تقویت حاصل ہورہی ہے اور ابن جریر ؓ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس آیت کا یہی شان نزول ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top