Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 154
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآئِفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ١ؕ یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ١ؕ یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ١ؕ یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا١ؕ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : اس نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْۢ بَعْدِ : بعد الْغَمِّ : غم اَمَنَةً : امن نُّعَاسًا : اونگھ يَّغْشٰى : ڈھانک لیا طَآئِفَةً : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے وَطَآئِفَةٌ : اور ایک جماعت قَدْ اَهَمَّتْھُمْ : انہیں فکر پڑی تھی اَنْفُسُھُمْ : اپنی جانیں يَظُنُّوْنَ : وہ گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں غَيْرَ الْحَقِّ : بےحقیقت ظَنَّ : گمان الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے ھَلْ : کیا لَّنَا : ہمارے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام مِنْ شَيْءٍ : کچھ قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : کہ الْاَمْرَ : کام كُلَّهٗ لِلّٰهِ : تمام۔ اللہ يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں فِيْٓ : میں اَنْفُسِھِمْ : اپنے دل مَّا : جو لَا يُبْدُوْنَ : وہ ظاہر نہیں کرتے لَكَ : آپ کے لیے (پر) يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَوْ كَانَ : اگر ہوتا لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَمْرِ : سے کام شَيْءٌ : کچھ مَّا قُتِلْنَا : ہم نہ مارے جاتے ھٰهُنَا : یہاں قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ كُنْتُمْ : اگر تم ہوتے فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھر (جمع) لَبَرَزَ : ضرور نکل کھڑے ہوتے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كُتِبَ : لکھا تھا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَتْلُ : مارا جانا اِلٰى : طرف مَضَاجِعِھِمْ : اپنی قتل گاہ (جمع) وَلِيَبْتَلِيَ : اور تاکہ ٓزمائے اللّٰهُ : اللہ مَا : جو فِيْ صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں میں وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ صاف کردے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ : میں تمہارے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں والے (دلوں کے بھید)
پھر خدا نے غم ورنج کے بعد تم پر تسلی نازل فرمائی (یعنی) نیند کہ تم میں سے ایک جماعت پر طاری ہوگئی اور کچھ لوگ جن کو جان کے لالے پڑ رہے تھے خدا کے بارے میں ناحق (ایام) کفر کے سے گمان کرتے تھے اور کہتے تھے بھلا ہمارے اختیار کی کچھ بات ہے ؟ تم کہہ دو کہ بیشک سب باتیں خدا ہی کے اختیار میں ہیں یہ لوگ (بہت سی باتیں) دلوں میں مخفی رکھتے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں کرتے تھے کہتے تھے کہ ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کیے جاتے کہہ دو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے اس سے غرض یہ تھی کہ خدا تمہارے سینوں کی باتوں کو آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو خالص اور صاف کر دے اور خدا دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے
(154) اس غم کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمایا کہ اہل صدق ویقین کو کفار سے بھاگنے کے بعد ایک اونگھ جیسے سکینت آگئی۔ (جنگ کی اس شدید افراتفری میں جب جسم وذہن پر شدید بوجھ ہوتا ہے اور جنگ کے مہیب شعلے اور تڑپتی لاشیں، زخمیوں کی چیخ و پکار کے اس سخت ترین ماحول میں کہ جب نیند اڑ جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بطور سکینت نیند کے جھونکے دے کر تروتازہ کردیا۔ ابوطلحہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا، جن پر احد کے روز نیند چھا رہی تھی، یہاں تک کہ میرے ہاتھ سے کئی بار تلوار گرگئی، حالت یہ تھی کہ وہ گرتی تھی اور میں پکڑتا تھا، پھر گرتی تھی اور میں پھر پکڑتا تھا۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 852) جس سے انکا سارا غم دور ہوگیا اور دوسری معتب بن قشیر منافق کی جماعت کو اپنی جان کی فکروہی رہی تھی ان پر اونگھ طاری نہیں ہوئی یہ لوگ جاہلیت کے عقیدہ کے مطابق یہ سمجھے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی مدد نہیں فرمائے گا اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارا ہی سب کچھ اختیار چلتا ہے، محمد ﷺ آپ فرما دیجیے کہ دولت ونصرت سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ یہ منافق اپنے دلوں میں ایسی خطرناک سازش پوشیدہ رکھتے ہیں، جو آپ کے سامنے قتل ہونے کے ڈر سے ظاہر نہیں کرتے۔ اے محمد ﷺ آپ ان منافقین سے فرما دیجیے کہ اگر تم مدینہ منورہ میں بھی ہوتے تو جن کے مقدر میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور احد کے میدان میں آتے یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ منافقین کے دلوں کی آزمائش کرتا اور ان کے نفاق کو سامنے لاتا ہے اور ان کے دلوں میں جو خیر و شر ہے، اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”انزل علیکم من بعد“۔ (الخ) ابن راہویہ نے حضرت زبیر ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ احد کے دن جب ہم پر دشمنوں کا خوف ہوا سمجھے دیکھتے کہ ہم میں سے ہر ایک پر ایک قسم کی اونگھ طاری ہوگئی اور میں خواب دیکھنے کی طرح معتب بن قشیر کا یہ قول سن رہا تھا کہ اگر اہمار اکچھ اور اختیار چلتا تو ہم یہاں مقتول نہ ہوتے، میں نے اس کے اس قول کو یاد کرلیا، اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ نے (آیت) ”ثم انزل“۔ سے ”۔ علیم بذات الصدور“۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں۔
Top