Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 154
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآئِفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ١ؕ یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ١ؕ یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ١ؕ یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا١ؕ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : اس نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْۢ بَعْدِ : بعد الْغَمِّ : غم اَمَنَةً : امن نُّعَاسًا : اونگھ يَّغْشٰى : ڈھانک لیا طَآئِفَةً : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے وَطَآئِفَةٌ : اور ایک جماعت قَدْ اَهَمَّتْھُمْ : انہیں فکر پڑی تھی اَنْفُسُھُمْ : اپنی جانیں يَظُنُّوْنَ : وہ گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں غَيْرَ الْحَقِّ : بےحقیقت ظَنَّ : گمان الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے ھَلْ : کیا لَّنَا : ہمارے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام مِنْ شَيْءٍ : کچھ قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : کہ الْاَمْرَ : کام كُلَّهٗ لِلّٰهِ : تمام۔ اللہ يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں فِيْٓ : میں اَنْفُسِھِمْ : اپنے دل مَّا : جو لَا يُبْدُوْنَ : وہ ظاہر نہیں کرتے لَكَ : آپ کے لیے (پر) يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَوْ كَانَ : اگر ہوتا لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَمْرِ : سے کام شَيْءٌ : کچھ مَّا قُتِلْنَا : ہم نہ مارے جاتے ھٰهُنَا : یہاں قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ كُنْتُمْ : اگر تم ہوتے فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھر (جمع) لَبَرَزَ : ضرور نکل کھڑے ہوتے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كُتِبَ : لکھا تھا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَتْلُ : مارا جانا اِلٰى : طرف مَضَاجِعِھِمْ : اپنی قتل گاہ (جمع) وَلِيَبْتَلِيَ : اور تاکہ ٓزمائے اللّٰهُ : اللہ مَا : جو فِيْ صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں میں وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ صاف کردے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ : میں تمہارے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں والے (دلوں کے بھید)
پھر خدا نے غم ورنج کے بعد تم پر تسلی نازل فرمائی (یعنی) نیند کہ تم میں سے ایک جماعت پر طاری ہوگئی اور کچھ لوگ جن کو جان کے لالے پڑ رہے تھے خدا کے بارے میں ناحق (ایام) کفر کے سے گمان کرتے تھے اور کہتے تھے بھلا ہمارے اختیار کی کچھ بات ہے ؟ تم کہہ دو کہ بیشک سب باتیں خدا ہی کے اختیار میں ہیں یہ لوگ (بہت سی باتیں) دلوں میں مخفی رکھتے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں کرتے تھے کہتے تھے کہ ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کیے جاتے کہہ دو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے اس سے غرض یہ تھی کہ خدا تمہارے سینوں کی باتوں کو آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو خالص اور صاف کر دے اور خدا دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے
آیت نمبر : 154۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ثم انزل علیکم من بعد الغم امنۃ نعاسا “۔ امنۃ اور امن دونوں مساوی اور ہم معنی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ امنۃ (راحت) اسباب خوف کے ساتھ ہوتی ہے اور امن خوف نہ ہونے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور یہ (امنۃ) منصوب ہے، انزل کے سبب، اور نعاصا اس (امنۃ) سے بدل ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے مفعول لہ کی بنا پر نصب دی گئی ہے گویا کہ یہ کہا ہے : انزل علیکم للامنۃ نعاسا، (پھر تم پر راحت کے لئے غنودگی اتاری) ابن محیصن نے امنۃ میم کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے، اللہ تعالیٰ نے احد کے دن ان غموں کے بعد مومنین پر غنودگی کے ساتھ فضل و احسان فرمایا یہاں تک کہ ان میں سے اکثر سو گئے، بلاشبہ سوتا وہی ہے جو امن و سکون میں ہوتا ہے اور خوفزدہ آدمی سو نہیں سکتا، بخاری نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے کہا : ہماری اوپر غنودگی اور نیند طاری ہوگئی احد کے دن حالانکہ ہم اپنی صفوں میں تھے انہوں نے بیان کیا : پس میری تلوار میرے ہاتھ سے گرنے لگتی تو میں اسے اٹھا لیتا اور کبھی وہ گر جاتی اور میں اسے اٹھا لیتا، (1) (صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ امنۃ نعاسا، جلد 2، صفحہ 655) یغشی اسے تا اور یا دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اگر یا کے ساتھ ہو تو ضمیر کا مرجع نعاس ہوگا، اور اگر تا کے ساتھ ہو تو ضمیر کا مرجع امنۃ ہوگا، اور الطائغۃ کا اطلاق واحد اور جمع دونوں پر ہوتا ہے۔ (آیت) ” وطائفۃ قد اھمتھم انفسھم “۔ مراد منافقین ہیں یعنی معتب بن قشیر اور اس کے ساتھی وہ مال غنیمت کے طمع اور مومنین کے خوف میں نکلے تو نیند ان پر طاری نہ ہوئی اور وہ اپنی حاضری پر تاسف کرنے لگے، اور وہ طرح طرح کی بدگمانیاں کرنے لگے اور (آیت) ” وطآئفۃ قدا ھمتھم کا معنی ہے اس نے انہیں غم پر ابھارا اور غم وہ ہے جس کا قصد کیا گیا، کہ ا جاتا ہے، اھمنی الشیء یعنی وہ میرا غم اور فکر ہے اور امر مھم : انتہائی سخت اور شدید معاملہ اور اھمنی الامر، امر نے مجھے غم اور اضطراب میں ڈال دیا، اور ھمنی کا معنی ہے اذا بنی اس نے مجھے پگھلا دیا، اور وطائفۃ میں واؤ حالیہ ہے اور بمعنی اذ ہے، یعنی اذ طائفۃ یظنون جبکہ ایک جماعت بدگمانی کرنے لگی کہ محمد ﷺ کا امر باطل ہے اور یہ کہ ان کی مدد نہیں کی جائے گی : ظن الجاھلیۃ یعنی اہل جاہلیت کی بدگمانی اور اس سے مضاف کو حذف کردیا گیا ہے۔ (آیت) ” یقولون ھل لنا من الامر من شیئ “ اس میں لفظ استفہام ہے اور اس کا معنی انکار ہے، یعنی مالنا شیء من الامر ‘(ہمارا اس کام میں کوئی دخل نہیں) یعنی خروج کے معاملہ میں، بلاشبہ ہمیں تو بالا کراہ نکالا گیا ہے، اور اس پر ان کی طرف سے بطور خبر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے، (آیت) ” لوکان لنا من الامر شیء ما قتلنا ھھنا “۔ ترجمہ ؛ اگر ہمارا اس کام میں کچھ دخل ہوتا تو ہم یہاں (اس بےدردی سے) نہ مارے جاتے۔ حضرت زبیر ؓ نے کہا ہے : اس دن ہم پر نیند طاری کردی گئی، اور میں معتب بن قشیر کا قول سن رہا تھا حالانکہ مجھ پر نیند غالب آرہی تھی وہ کہہ رہا تھا : اگر ہمارا اس کام میں کچھ دخل ہوتا تو ہم یہاں (اس بےدردی کے ساتھ) نہ مارے جاتے۔ (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 568) اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کے قول کا معنی یہ ہے ہمیں اس کامیابی میں سے کچھ حاصل نہیں ہوا جس کا وعدہ محمد ﷺ نے ہمارے ساتھ کیا تھا، واللہ اعلم۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” قل ان الامر کلہ للہ “۔ ابو عمرو اور یعقوب نے کلہ رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس لئے کہ یہ مبتدا ہے اور للہ اس کی خبر ہے اور پھر پورا جملہ اس کی خبر ہے، اور یہ اس قول کی طرح ہے : (آیت) ” ویوم القیمۃ تری الذین کذبوا علی اللہ وجوھھم مسودۃ “۔ (الزمر : 60) ترجمہ : اور روز قیامت آپ دیکھیں گے انہیں جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے تھے اس حال میں کہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ اور باقیوں نے اسے نصب کے ساتھ پڑھا ہے، جیسا کہ آپ کہتے ہیں : ان الامر اجمع للہ “۔ اور یہ تاکید ہے اور یہ احاطہ اور عموم میں اجمع کے معنی میں ہے اور اجمع صرف توکید کے لئے ہی ہوتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ امر کی صفت ہے اور اخفش نے کہا ہے : یہ بدل ہے یعنی مددونصرت اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کی مدد کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے رسوا کردیتا ہے اور جو یبر نے ضحاک (رح) سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری تعالیٰ (آیت) ” یظنون باللہ غیر الحق ظن الجاھلیۃ “۔ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد تقدیر کو جھٹلانا ہے (2) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 569) اور یہ اس لئے کہ انہوں نے اس بارے میں کلام کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ’‘’ قل ان الامر کلہ للہ “۔ یعنی اچھی اور بری تقدیر سب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے : (آیت) ” یخفون فی انفسھم “۔ یعنی وہ چھپائے ہوئے ہیں اپنے دلوں میں شرک، کفر اور تکذیب، (آیت) ” مالا یبدون لک “ وہ جو تمہارے لئے ظاہر نہیں کرتے۔ (آیت) ” یقولون لو کان لنا من الامر شیء ما قتلنا ھھنا “۔ یعنی (اگر ہمارا اس کام میں کچھ دخل ہوتا) تو ہماری جماعت قتل نہ کی جاتی، اور یہ بھی کہا گیا ہے : منافقین کہتے اگر ہماری عقل ہوتی تو ہم اہل مکہ کے ساتھ جنگ کے لئے نہ نکلتے اور نہ ہمارے سردار قتل کئے جاتے، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ جواب لوٹایا اور کہا : (آیت) ” قل لو کنتم فی بیوتکم لبرز “۔ آپ فرمائے : اگر تم اپنے گھروں میں (بیٹھے) ہوتے تو (وہاں سے) ضرور نکل آتے (وہ لوگ) (آیت) ” الذین کتب “۔ جن کے بارے لکھا جا چکا ہے (یعنی جن کا مقدر بنا دیا گیا ہے) علیہم القتل “۔ قتل یعنی لوح محفوظ میں۔ الی مضاجعھم یعنی اپنی قتل گاہوں کی طرف اور یہ بھی کہا گیا ہے : کتب علیھم القتل یعنی اس پر قتال (جنگ) فرض کیا گیا ہے پس اسے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ اسے اس کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔ ابو حیوہ نے لبرز با کے ضمہ اور را کی شد کے ساتھ پڑھا ہے، بمعنی یجعل یخرج (انہیں نکال لیا جائے گا) اور یہ بھی کہا گیا ہے : اے منافقین ! اگر تم پیچھے رہ جاتے تو تم اس کے علاوہ کسی دوسرے میدان جنگ کی طرف نکل پڑتے اس میں تم قتل کردیئے جاؤ گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آزما لے گا جو کچھ سینوں میں چھپا ہوا ہے اور اسے مومنین کے لئے ظاہر کر دے گا۔ اور قول باری تعالیٰ ” ولیبتلی “۔ میں واؤ مقحمہ ہے جیسا کہ اس قول میں ہے : (آیت) ” ولیکون من المؤقنین “۔ یعنی لیکون۔ اور اس فعل کو حذف کردیا گیا ہے جو لام کی کے ساتھ ہے، اور تقدیر عبارت ہے (آیت) ” ولیبتلی اللہ ما فی صدورکم ولیمحص ما فی قلوبکم “۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر قتال اور جنگ مقدر کردی ہے اور احد کے دن اس نے تمہاری مدد نہیں کی تاکہ وہ تمہارے صبر کو آزمائے، اور تم سے تمہارے گناہ معاف کر دے اگر تم توبہ کرو اور مخلص ہوجاؤ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیبتلی کا معنی ہے تاکہ تو وہ تمہارے ساتھ مختبر کا معاملہ کرے، اور بعض نے کہا ہے : تاکہ تم سے مشاہدہ واقع ہو جس کا اسے غیبا علم ہے، اور کہا گیا ہے : یہ مضاف کے حذف کی بنا پر۔ اور تقدیر عبارت ہے ” لیبتلی اولیاء اللہ تعالیٰ “۔ تاکہ وہ اولیاء اللہ کو آزمالے۔ اور تمحیص کا معنی پہلے گزر چکا ہے، (آیت) ” واللہ علیم بذات الصدور “۔ یعنی سینوں میں خیر وشر میں سے جو ہے (اللہ اسے جانتا ہے) اور یہ قول بھی ہے کہ ذات الصدور سے مراد سینے ہی ہیں، کیونکہ ذات الشیء سے مراد اس کی اپنی ذات ہی ہوتی ہے۔
Top