Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 156
وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَ١ؕ قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ١ۚ وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ
وَاكْتُبْ : اور لکھدے لَنَا : ہمارے لیے فِيْ : میں هٰذِهِ : اس الدُّنْيَا : دنیا حَسَنَةً : بھلائی وَّ : اور فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اِنَّا : بیشک ہم هُدْنَآ : ہم نے رجوع کیا اِلَيْكَ : تیری طرف قَالَ : اس نے فرمایا عَذَابِيْٓ : اپنا عذاب اُصِيْبُ : میں پہنچاتا ہوں (دوں) بِهٖ : اس کو مَنْ : جس اَشَآءُ : میں چاہوں وَرَحْمَتِيْ : اور میری رحمت وَسِعَتْ : وسیع ہے كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَسَاَكْتُبُهَا : سو میں عنقریب لکھدوں گا لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو يَتَّقُوْنَ : ڈرتے ہیں وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
اور لکھ دے ہمارے لئے اس دنیا میں بھلائی اور آخرت میں ہم نے رجوع کیا تیری طرف فرمایا میرا عذاب ڈلاتا ہوں میں اس کو جس پر چاہوں اور میری رحمت شامل ہے ہر چیز کو سو اس کو لکھ دوں گا ان کے لئے جو ڈر رکھتے ہیں اور دیتے ہیں زکوٰة اور جو ہماری باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔
پانچویں آیت میں حضرت موسیٰ ؑ کی اس دعا کا تکملہ یہ بھی مذکور ہے، وَاكْتُبْ لَنَا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَآ اِلَيْكَ ، یعنی اے ہمارے پروردگار آپ ہمارے لئے اس دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دیجئے اور آخرت میں بھی، کیونکہ ہم آپ کی طرف خلوص و اطاعت سے رجوع کرتے ہیں۔
اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَاۗءُ ۚ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤ ْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤ ْمِنُوْنَ یعنی اے موسیٰ اول تو میری رحمت مطلقا میرے غضب پر سابق ہے چناچہ میں اپنا عذاب اور غضب تو صرف اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اگرچہ مستحق عذاب ہر نافرمان ہوتا ہے لیکن پھر بھی سب پر عذاب واقع نہیں کرتا، بلکہ ان میں سے خاص خاص لوگوں پر عذاب واقع کرتا ہوں جو انتہائی سرکش اور متمرد ہوتے ہیں، اور میری رحمت ایسی عام ہے کہ سب اشیاء کو محیط ہو رہی ہے باوجودیکہ ان میں سے بہت سے لوگ مثلا سرکش اور نافرمان اس کے مستحق نہیں مگر ان پر بھی ایک گونہ رحمت ہے گو دنیا ہی میں سہی، پس جب میری رحمت سب غیر مستحقین کے لئے بھی عام ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے لئے تو کامل طور پر ضرور ہی لکھ دوں گا جو حسب وعدہ اس کے مستحق بھی ہیں بوجہ اس کے کہ اطاعت کرتے ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور جو کہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں، تو یہ لوگ پہلے ہی سے مستحق رحمت ہیں اس لئے آپ کو قبول دعا بشارت دیتے ہیں۔
اس جواب کی تقریر میں حضرات مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، کیونکہ یہاں صاف لفظوں میں قبولیت دعا مذکور نہیں، جیسے دوسرے مواقع میں صاف فرما دیا گیا قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤ ْلَكَ يٰمُوْسٰى یعنی اے موسیٰ و ہارون آپ کا سوال پورا کردیا گیا، اور دوسری جگہ ارشاد ہے اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا یعنی اے موسیٰ و ہارون آپ دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، یہاں اس طرح کی کوئی صراحت نہیں، اس لئے بعض حضرات نے ان آیات کا مفہوم یہ قرار دیا کہ موسیٰ ؑ کی یہ درخواست اپنی امت کے بارے میں تو قبول نہ ہوئی البتہ امت محمدیہ کے حق میں قبول کرلی گئی جن کا ذکر بعد کی آیات میں وضاحت کے ساتھ آرہا ہے، مگر تفسیر روح المعانی میں اس احتمال کو بعید قراردیا ہے، اس لئے جواب کی صحیح تقریر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی دعا کے دو جزء تھے ایک یہ کہ جن لوگوں پر عتاب و عذاب ہوا ہے ان کو معافی دی جائے اور ان پر رحمت کی جائے، دوسرا یہ کہ میرے لئے اور میری پوری قوم کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی مکمل لکھ دی جائے، پہلی دعاء کا جواب اس آیت میں مذکور ہے اور دوسری دعا کا جواب دوسری آیت میں مذکور ہے، پہلی آیت کا حاصل یہ ہے کہ میری عادت ہی یہ ہے کہ میں ہر گناہ گار پر عذاب نہیں کرتا بلکہ صرف ان پر جن کو میں (بوجہ انتہائی سرکشی کے) عذاب ہی دینا چاہتا ہوں اس لئے ان لوگوں کو بھی عذاب نہ دیا جائے گا آپ بےفکر رہیں، رہی رحمت کی درخواست سو میری رحمت تو ہر چیز پر حاوی اور محیط ہے انسان ہو یا غیر انسان، مومن ہو یا کافر، فرماں بردار ہو یا نافرمان، بلکہ جن کو دنیا میں کوئی عذاب و تکلیف دی جاتی ہے وہ بھی رحمت سے خالی نہیں ہوتے کم ازکم یہ کہ جس مصیبت میں مبتلا ہیں اس سے بڑی مصیبت ان پر نہیں ڈالی گئی حالانکہ اللہ تعالیٰ کو اس پر بھی قدرت تھی۔
استاذ محترم حضرت مولانا انور شاہ صاحب نے فرمایا کہ وسعت رحمت کے یہ معنی ہیں کہ رحمت کا دائرہ کسی سے تنگ نہیں، اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر چیز مرحوم ہے جیسا ابلیس ملعون نے کہا کہ میں بھی ایک شئی ہوں ہر شئی مرحوم ہے لہذا میں بھی مرحوم ہوں، قرآن کریم کے الفاظ میں اس طرف اشارہ موجود ہے کہ یوں نہیں فرمایا کہ ہر شئی پر رحمت کی جائے گی بلکہ یہ فرمایا کہ صفت رحمت تنگ نہیں وسیع ہے جس پر اللہ تعالیٰ رحمت فرمانا چاہیں فرما سکتے ہیں، قرآن کریم میں اس کی شہادت دوسری جگہ اس طرح آئی ہے فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ۚ وَلَا يُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ ، یعنی اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کریں تو ان سے فرما دیجئے کہ تمہارا پروردگار وسیع رحمت والا ہے مگر مجرمین سے ان کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا، اس میں بتلا دیا کہ وسعت رحمت مجرمین پر عذاب کے منافی نہیں۔
خلاصہ یہ کہ موسیٰ ؑ کی یہ دعا ان لوگوں کے حق میں بلا کسی شرط کے قبول کرلی گئی یعنی مغفرت و معافی کی بھی اور رحمت کی بھی۔
اور دوسری دعا جس میں دنیا و آخرت کی مکمل بھلائی ان کے لئے لکھ دینے کی درخواست تھی اس کے متعلق چند شرائط لگائی گئیں، مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو ہر مومن و کافر پر رحمت عام ہوسکتی ہے مگر عالم آخرت اچھے برے کے امتیاز کا مقام ہے یہاں رحمت کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو چند شرائط کو پورا کریں اول یہ کہ وہ تقوٰی اور پرہیزگاری اختیار کریں یعنی تمام واجبات شرعیہ کو ادا کریں اور ناجائز کاموں سے دور رہیں، دوسرے یہ کہ وہ اپنے اموال میں سے اللہ تعالیٰ کے لئے زکوة نکالیں، تیسرے یہ کہ ہماری سب آیات پر بلا کسی استثناء اور تاویل کے ایمان لائیں، یہ موجودہ لوگ بھی اگر یہ صفات پوری اپنے اندر پیدا کرلیں تو ان کے لئے بھی دنیا وآخرت کی مکمل بھلائی لکھ دی جائے گی۔
لیکن اس کے بعد کی آیت میں اس طرف اشارہ کردیا کہ ان صفات کو پوری جامعیت کے ساتھ حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو ان کے بعد آخر زمانہ میں آئیں گے اور نبی امی کا اتباع کریں گے اور اس کے نتیجہ میں وہ مکمل فلاح کے مستحق ہوں گے۔
حضرت قتادہ نے فرمایا کہ جب آیت وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ نازل ہوئی تو ابلیس نے کہا کہ میں اس رحمت میں داخل ہوں لیکن بعد کے جملوں میں بتلا دیا کہ رحمت آخرت ایمان وغیرہ کی شرائط کے ساتھ مشروط ہے اس کو سن کر ابلیس مایوس ہوگیا مگر یہود ونصارٰی نے دعوی کیا کہ ہم میں تو یہ صفات بھی موجود ہیں یعنی تقوٰی اور اداء زکوٰة اور ایمان مگر اس کے بعد جو شرط نبی امی پر ایمان لانے کی بیان ہوئی تو اس سے وہ یہود ونصارٰی نکل گئے جو حضور ﷺ پر ایمان نہیں لائے۔ غرض اس اسلوب بدیع میں حضرت موسیٰ ؑ کی قبولیت دعا کا بیان بھی ہوگیا اور امت محمدیہ کے مخصوص فضائل کا ذکر بھی۔
Top