Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 154
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآئِفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ١ؕ یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ١ؕ یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ١ؕ یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا١ؕ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ثُمَّ
: پھر
اَنْزَلَ
: اس نے اتارا
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مِّنْۢ بَعْدِ
: بعد
الْغَمِّ
: غم
اَمَنَةً
: امن
نُّعَاسًا
: اونگھ
يَّغْشٰى
: ڈھانک لیا
طَآئِفَةً
: ایک جماعت
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
وَطَآئِفَةٌ
: اور ایک جماعت
قَدْ اَهَمَّتْھُمْ
: انہیں فکر پڑی تھی
اَنْفُسُھُمْ
: اپنی جانیں
يَظُنُّوْنَ
: وہ گمان کرتے تھے
بِاللّٰهِ
: اللہ کے بارے میں
غَيْرَ الْحَقِّ
: بےحقیقت
ظَنَّ
: گمان
الْجَاهِلِيَّةِ
: جاہلیت
يَقُوْلُوْنَ
: وہ کہتے تھے
ھَلْ
: کیا
لَّنَا
: ہمارے لیے
مِنَ
: سے
الْاَمْرِ
: کام
مِنْ شَيْءٍ
: کچھ
قُلْ
: آپ کہ دیں
اِنَّ
: کہ
الْاَمْرَ
: کام
كُلَّهٗ لِلّٰهِ
: تمام۔ اللہ
يُخْفُوْنَ
: وہ چھپاتے ہیں
فِيْٓ
: میں
اَنْفُسِھِمْ
: اپنے دل
مَّا
: جو
لَا يُبْدُوْنَ
: وہ ظاہر نہیں کرتے
لَكَ
: آپ کے لیے (پر)
يَقُوْلُوْنَ
: وہ کہتے ہیں
لَوْ كَانَ
: اگر ہوتا
لَنَا
: ہمارے لیے
مِنَ الْاَمْرِ
: سے کام
شَيْءٌ
: کچھ
مَّا قُتِلْنَا
: ہم نہ مارے جاتے
ھٰهُنَا
: یہاں
قُلْ
: آپ کہ دیں
لَّوْ كُنْتُمْ
: اگر تم ہوتے
فِيْ
: میں
بُيُوْتِكُمْ
: اپنے گھر (جمع)
لَبَرَزَ
: ضرور نکل کھڑے ہوتے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ
كُتِبَ
: لکھا تھا
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْقَتْلُ
: مارا جانا
اِلٰى
: طرف
مَضَاجِعِھِمْ
: اپنی قتل گاہ (جمع)
وَلِيَبْتَلِيَ
: اور تاکہ ٓزمائے
اللّٰهُ
: اللہ
مَا
: جو
فِيْ صُدُوْرِكُمْ
: تمہارے سینوں میں
وَلِيُمَحِّصَ
: اور تاکہ صاف کردے
مَا
: جو
فِيْ قُلُوْبِكُمْ
: میں تمہارے دل
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
: سینوں والے (دلوں کے بھید)
پھر اتارا اللہ نے تمہارے اوپر غم کے بعد امن اونگھ جو ڈھانپ رہی تھی ایک گروہ کو تم میں سے۔ اور ایک گروہ ایسا تھا کہ ان کو فکر مند کیا تھا ان کی جانوں نے وہ گمان کرتے تھے اللہ کے بارے میں ناحق خیال ، جاہلیت کا خیال۔ وہ کہتے تھے کیا معاملے میں ہمارے لیے بھی کچھ ہے ؟ آپ کہہ دیجئے۔ معاملہ سب کا سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اپنے نفسوں میں ان باتوں کو چھپاتے ہیں ، جن کو آپ کے ہمارے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں اگر معاملے میں ہمارے لیے کچھ ہوتا ، تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے۔ آپ کہہ دیجئے ، اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو وہ لوگ کلتے جن پر قتل کیا جانا لکھ دیا گیا ہے اپنی قتل گاہوں کی طرف تاکہ اللہ تعالیٰ آزمائے اس چیز کو جو تمہارے باطن میں ہے۔ اور تاکہ صاف کردے اللہ تعالیٰ اس چیز کو جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ دلوں کے رازوں کو جانتا ہے۔
ربط آیات : ان آیات کا تعلق بھی غزوہ احد ہی سے ہے۔ اس جنگ کی تفصیلات بیان ہوچکی ہیں۔ گذشتہ آیات میں بیان ہوچکا ہے۔ کہ اس جنگ کے دوران مسلمانوں کی کوتاہی کی بناء پر ان پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ابتدائی فتح حاصل ہونے کے بعد مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ بہت سے اکابر صحابہ شہید ہوئے خود حضور ﷺ زخمی ہوگئے حتی کہ آپ کی شہادت کی خبر بھی مشہور ہوگئی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی غلطی کو معاف فرما دیا۔ کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ فتح حاصل کرنے کے باوجود وہاں ٹھہر نہ سکے بلکہ واپس بھاگ گئے۔ آج کے درس میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر مہربانی فرما کر کس طرح ان کے غم واندوہ کو اطمینان میں بدل دیا۔ دوران جنگ نیند : ارشاد ہوتا ہے۔ ثم انزل علیکم من بعد الغم امنۃ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے غم کے بعد تم پر امن کی حالت نازل فرمائی۔ اور وہ امن کیا تھا۔ نعاسا۔ اونگھ تھی ، جو تم پر طاری ہوگئی۔ امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں۔ کہ دوران جنگ نیند یا اونگھ کا وارد ہوجانا حضور ﷺ کی نبوت و صداقت کی عظیم دلیل اور معجزہ ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ بہت سے مجاہدین شہید ہوچکے تھے۔ بہت سے زخمی حالت میں تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ خود زخمی تھے۔ یہ تو سخت پریشانی کا عام تھا۔ انسان کو نیند تو کجا ذرا سا چین بھی نصیب نہیں ہوسکتا ، ایسی حالت میں نیند کا آجانا اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی تھی۔ اور عام قانون بھی یہی ہے۔ کہ اگر لڑائی کی حالت میں نیند طاری ہوجائے تو فتح و کامیابی کی علامت ہوتی ہے۔ یہ ایک نیک فال ہوتا ہے۔ کیونکہ تھکے ک ماندے پریشان حال شخص کو کچھ دیر کے لیے نیند آجائے ، تو اسے سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ پریشانی دور ہوجاتی ہے۔ اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ نیند کی حالت صرف خالص ایمان والوں پر طاری ہوئی تھی۔ منافق اس نعمت سے محروم رہے۔ صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں کہ نیند یا اونگھ بھی ایسی طاری ہوئی کہ ہاتھ سے تلوار گر پڑتی تھی جسے پھر اٹھانا پڑتا تھا ، غرض اللہ تعالیٰ نے نیند کے ذریعے اہل ایمان کا غم دور کردیا ، ان کا بوجھ ہلکا کردیا اور وہ پھر سے تازہ دم ہوگئے۔ سورة نبا میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وجعلنا نومکم سباتا۔ اور ہم نے تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا ہے۔ اور یہ سکون اہل ایمان کو عین جنگ کی حالت میں حاصل ہوا۔ یغشی طائفۃ منکم۔ یہ اونگھ ڈھانپ رہی تھی تم میں سے ایک گروہ کو جو پکے سچے مسلمان تھے۔ منافقوں کو یہ چیز نصیب نہیں ہوئی۔ منافقوں کے شبہات : فرمایا منافقوں کی حالت اس وقت یہ تھی۔ وطائفۃ قد اھمتہم انفسہم۔ کہ اس گروہ کو ان کی جانیں فکر مند کر رہی تھیں ان کو چین نصیب نہیں ہوا۔ بلکہ وہ تو خوفزدہ ہو رہے تھے۔ کہ اب پتہ نہیں کیا ہوگا۔ ہم اس مشکل سے نکل سکیں گے یا نہیں۔ ان کے دلوں میں طرح طرح کے باطل خیالات آ رہے تھے۔ یظنون باللہ غیر الحق۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ناحق گمان کرتے تھے۔ غلط خیال قائم کرتے تھے۔ کہ شاید اللہ ان کی مدد نہیں کرے گا۔ اور انہیں فتح حاصل نہیں ہوگی۔ اور یہ گمان ایسے ہیں۔ ظن الجاھلیۃ۔ جاہلیت والے گمان ہیں۔ اور ساتھ ساتھ عقیدہ تقدیر کی تکذیب بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے وہ مشیت الہی کے مطابق ہے جو کچھ اللہ کی تقدیر میں موجود ہے ، وہ ہو کر رہے گا۔ تقدیر ٹل نہیں سکتی۔ مومن تو اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ جو بھی خیر و شر آتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی حکمت ، ارادے اور مشیت سے آتا ہے۔ مگر منافقین زمانہ جاہلیت کے گندے عقائد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یقولون ھل لنا من الامر من شیء۔ کیا معاملے میں ہمارے لیے بھی کچھ ہے ؟ یعنی ہمیں تو غم پر غم پڑ رہا ہے کیا ہمارے لیے اچھائی میں بھی کچھ حصہ ہے ؟ اس کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے۔ قل ان الامر کلہ للہ۔ اے نبی (علیہ السلام) آپ کہہ دیجئے کہ سارے کا سارا معاملہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اس کے ارادے اور مشیت میں کسی کو مجاز دخل نہیں وہ جو چاہے کرتا ہے اللہ تعالیٰ بتلا رہے ہیں کہ ان منافقوں کی حالت یہ ہے کہ یخفون فی انفسہم مالایبدون لک۔ یہ لوگ اپنے نفسوں میں منافقانہ سازشوں اور گندے خیالات کو چھپاتے ہیں ، جو آپ پر ظاہر نہیں کرتے۔ موت کا وقت مقرر ہے : اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں۔ کہ یہ بدبخت اپنی منافقت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ یقولون لوکان لنا من الامر شیء ما قتلنا ھھنا۔ کہتے ہیں کہ اگر معاملے میں ہمارے لیے بھی کچھ ہوتا ، تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کو ہماری بھلائی منظور ہوتی تو ہمارے اتنے آدمی شہید نہ ہوتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کہ ان کا یہ خیال باطل محض ہے۔ کہ اگر جنگ میں شریک نہ ہوتے تو بچ جاتے۔ بلکہ فرمایا۔ قل لو کنتم فی بیوتکم۔ اگر تم اپنے گھروں میں بھی پڑے ہوتے۔ لبرز الذین کتب علیھم القتل الی مضاجعھم۔ تو جن لوگوں کی تقدیر میں موت لکھی جا چکی ہے وہ اپنے قتل گاہ کی طرف ضرور نکل آتے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کے علم میں ہے کہ فلاں شخص کی موت کس مقام اور کس وقت پر واقع ہوگی۔ لہذا یہ ان کی خام خیالی ہے کہ اگر گھروں میں بیٹھ رہتے تو قتل نہ ہوتے جس خداوند کریم نے ان کے قتل کا مقام مقرر فرما دیا وہ ان کے اس مقام پر پہنچ جانے کا انتظام بھی فرما دیتا۔ لہذا اس قسم کے باطل خیالات دل میں نہیں لانے چاہئیں بلکہ تقدیر خداوندی پر راضی ہوجانا چاہئے۔ مومن کی آزمائش : تقدیر پر ایمان لانا ایک مومن کا جزو ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے بغیر کوئی چیز واقع نہیں ہوتی۔ جو انسان پیدا کیے گئے ہیں۔ ان کے حوادثات بھی ان کے ساتھ مقدر ہیں۔ غزوہ احد میں جو تکلیف پہنچی وہ مسلمانوں کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت یوں بیان فرمائی۔ ولیبتلی اللہ ما فی صدورکم۔ تاکہ اللہ تعالیٰ آزمائے اس چیز کو جو تمہارے دلوں میں ہے ایسی ہی مشکل صورت حال میں کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔ مقصد یہ تھا کہ آزما کر دیکھا جائے کہ ان میں سے کون سچے مومن ہیں اور کن کے دلوں میں کھوٹ موجود ہے۔ چناچہ منافقین کا ایک گروہ تو احد کی طرف آتے ہوئے راستے سے ہی واپس ہوگیا۔ اور جو میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ ان میں سے بعض کے دلوں میں مختلف وسوسے پیدا ہونے لگے۔ کہ ہمیں فتح کیوں نہیں حاصل ہورہی ہے اور یہ کہ اگر ہم اس جنگ کے لیے باہر نہ نکلتے تو شاید قتل ہونے سے بچ جاتے وغیرہ وغیرہ ، اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے کھرے اور کھوٹے کی آزمائش فرمائی۔ کیونکہ جو راسخ العقیدہ مسلمان تھے وہ ہر حالت میں ثابت قدم رہے۔ اس آزمائش کی دوسری حکمت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ ولیمحص ما فی قلوبکم۔ اور تاکہ اللہ تعالیٰ اس چیز کو صاف کردے جو تمہارے دلوں میں ہے۔ مطلب یہ کہ دلوں میں جو مختلف وسوسے اور شبہات پیدا ہو رہے تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان کو دور کرکے اہل ایمان کے دلوں کو ایسی اشیا سے پاک صاف کردیا۔ اس مقام پر آزمائش کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے صدور کا لفظ فرمایا کہ تمہارے سینوں میں جو بات پوشیدہ ہے اس کو آزمائے۔ اور آگے جہاں پاک صاف کرنے کا ذکر ہے وہاں قلوب کا لفظ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقیدہ ، ایمان اور اخلاص کا مرکز دل ہے لہذا اس کی پاکیزگی ضرورت ہے۔ تاکہ انسان کا عقیدہ اور ایمان درست ہوجائے اور اس میں دین کے لیے اخلاص پیدا ہوجائے۔ یہی وجہ ہے۔ کہ مومن لوگ امتحان میں بالکل پاک صاف ہو کر نکلتے ہیں۔ جب کہ روگی دل والے تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ اس آزمائش کے ذریعے ہم نے تمہارے دلوں میں موجود میل کچیل کو صاف فرما دیا۔ تمہیں احساس ہوگیا کہ فلاں غلطی کی وجہ سے ہم پر یہ سختی آئی ہے۔ لہذا آئندہ کے لیے خبردار اور مستعد ہوگئے۔ اسی لیے علامہ اقبال کہتے ہیں۔ مرد را روز بلا روز صفا است۔ یعنی مرد مومن کے لیے مصائب و مشکلات کا دن اس کے لیے باطنی صفائی کا دن ہوتا ہے۔ اسی طرح پرانے شعراء بھی کہتے ہیں۔ حوادثات اور مصائب کی خوبی اللہ ہی کے لیے ہے کیونکہ یہ مصائب کمینوں کے لیے زنگ آلدگی اور شریف لوگوں کے لیے دلوں کی صیقل کا باعث ہوتے ہیں۔ اسی طرح لوہے کی زبان سے کہلوایا۔ میں تو فقط ایک ٹکڑا تھا۔ پھر تو نے مجھے مصائب میں ڈال کر تلوار بنا دیا۔ اور حوادثات کی گردش نے میری دھار کو تیز کردیا۔ مطلب یہ کہ انسان مصائب کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتا ہے۔ جب آزمائش آئے تو اس پر جزع فزع کرنے کی بجائے اسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔ اور اپنے عقیدے پر ثابت قدم رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہ ریاضت و عبادت کا مقصد انسان کے نسمہ کی پاکیزگی ہے۔ نسمہ سے مراد روح ہے۔ جو مصائب و مشکلات میں پاک صاف ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے نسموں کو پاک کردیا۔ ان کے دلوں کی کجیاں دور ہوگئیں۔ واللہ علیم بذات الصدور۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے رازوں کو جاننے والا ہے۔ اس سے تمہاری کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، خواہ وہ زبان پر ہو یا سینے میں ہو۔ لہذا اپنے نسمہ کو پاک صاف رکھو۔ اس میں برے خیالات کو جگہ نہ دو ۔ ہر اچھائی اور تکلیف اللہ کی مقرر کردہ تقدیر کے مطابق واقع ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے مطابق وقتا فوقتا تمہارا امتحان لیتا رہتا ہے۔ اور مبارک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو اس امتحان میں پوا اترتے ہیں۔ شیطان کا پھسلاوا : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوسرے کا گروہ کا ذکر فرمایا جو اس امتحان میں پورا نہ اتر سکے۔ اور پھر اس لغزش کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہے۔ ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن۔ تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے پشت پھیری اس دن ، جس روز دو جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی۔ اور یہ جنگ اہل اسلام اور کفار کے درمیان تھی۔ اس جنگ میں مسلمان سخت افراتفری کے عالم میں مبتلا ہوگئے اور ان کی اکثریت میدان جنگ سے بھاگ نکلی۔ صرف قلیل تعداد میں مخلص لوگ ثابت قدم رہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ تھی۔ انما استزلھم الشیطن ببعض ما کسبوا۔ ان کے بعض اعمال یعنی کوتاہیوں کے سبب شیطان نے انہیں پھسلا دیا۔ تمام مسلمان بد دل ہوئے تھے بلکہ ان میں سے بعض نے کمزوری دکھائی حالانکہ اس سے پہلے اسلام کے لیے ان کی بڑی بڑی قربانیاں موجود تھیں۔ ان میں حضرت عثمان بھی شامل ہیں جو سابقین الاولین اور پہلی ہجرت یعنی حبشہ کی ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں۔ مگر اس موقع پر ثابت قدم نہ رہ سکے۔ بعض بزرگان دین فرماتے ہیں۔ کہ اس موقع پر آپ کے دل میں کچھ کدورت پیدا ہوگئی تھی۔ بہت سے اکابر صحابہ شہید ہوئے۔ خود حضور ﷺ کو زخم آئے بلکہ شہادت کی خبر مشہور ہوئی۔ افراتفری کے عالم میں حضرت عثمان کے پائے ثبات میں لغزش آگئی ، جس کی وجہ سے شیطان مخل ہوا۔ اس نے وسوسہ ڈالا اور پھر آپ ٹک نہ سکے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ مگر جلد ہی دل کی وہ میل کچیل صاف ہوگئی۔ حضور ﷺ کے زندہ ہونے کی خبر ملی اور آپ واپس آگئے۔ اس کے بعد پھر گھمسان کی لڑائی ہوئی اور کافروں کو بھاگتے بنی۔ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پھر راست قدم کردیا۔ اللہ کی طرف سے معافی : بہرحال صحابہ کرام ؓ کی یہ لغزش تھی کہ وہ ثابت قدم نہ رہ سکے ، اللہ کا نبی زخمی حالت میں موجود ہے ، وہ پکار رہا ہے۔ کہ اللہ کے بندو ! کدھر جا رہے ہو ، اس طرف آؤ، یہ یقیناً غلطی تھی ، جو بعض کوتاہیوں کی وجہ سے واقع ہوئی۔ شیطان نے وسوسہ اندازی کی۔ مگر اس کے باوجود ولقد عفا اللہ عنھم۔ اللہ نے ان کو معاف فرما دیا۔ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ ولقد عفا اللہ عنہم۔ اللہ نے ان کو معاف فرما دیا۔ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ ولقد عفا اللہ عنہم۔ اب پھر دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ نے ان غلطیوں سے درگزر فرمایا۔ لقد تاکید کے لیے ہوتا ہے۔ البتہ تحقیق اللہ ان کو معاف فرما چکا ہے۔ صحابہ کی اس عام معافی کے بعد اب کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان پر نکتہ چینی کرے۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت میں آتا ہے۔ کہ لوگوں نے حضرت عثمان ؓ پر اعتراض کیا۔ کہ آپ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ واقعہ ایسا ہی ہے۔ مگر اس کی وجہ کیا تھی۔ وہ تو بخوشی شریک جہاد ہونا چاہتے تھے۔ مگر حضور ﷺ نے منع فرما دیا۔ حضور ﷺ کی بیٹی اور آپ کی زوجہ بیمار تھیں۔ اللہ کے رسول نے حضرت عثمان کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کی تیمار داری کے لیے مدینہ میں ٹھہر جائیں آپ نے ان کی تسلی کے لیے فرمایا کہ آپ کی اس جنگ میں عدم شرکت کے باوجود اللہ تعالیٰ آپ کو شریک ہونے والوں جیسا اجر عطا کرے گا۔ اور اللہ کا رسول غنیمت میں ویسا ہی حصہ عطا کرے گا۔ جیسا کہ جہاد میں شرکت حضور نبی کریم ﷺ کے حکم کی وجہ سے تھی۔ حضور ﷺ کی لخت جگر اسی دوران فوت ہوگئیں۔ اور حضور ﷺ نے حضرت عثمان کو مال غنیمت میں سے برابر کا حصہ دیا۔ چناچہ حدیث میں حضرت عثمان کا نام بدری صحابہ میں موجود ہے۔ آپ پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے۔ کہ حضرت عثمان بیعت رضوان حدیبیہ میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ اس کے جواب میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان کو حضور ﷺ نے کفار مکہ کی طرف قاصد بنا کر بھیجا تھا۔ اس وقت اس کام کے لیے آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں تھا۔ اور بیعت رضوان کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی خبر مشہور ہوگئی۔ بیعت رضوان تو ان کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے ہوئی تھی لہذا اس واقعہ میں ان کی شرکت کیونکر ممکن تھی۔ غرضیکہ لوگوں کا یہ اعتراض بھی قابل قبول نہیں۔ حضرت عثمان اور دیگر صحابہ ؓ کی ان لغزشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کا اعلان فرما دیا۔ لہذا جو شخص اس کے بعد بھی صحابہ کبار پر طعن تشنیع کا مرتکب ہوگا ، اس کے اپنے ایمان میں فتور ہوگا۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام کے متعلق تو خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا۔ ؓ و رضوا عنہ۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ صحابہ کرام ؓ کو رضا الہی کی ڈگری حاصل ہوچکی ہے۔ فرمایا ان اللہ غفور حلیم بیشک اللہ بخشش کرنے والا اور بردبار ہے۔ وہ فوراً گرفت نہیں کرتا۔ بلکہ اہل ایمان کو موقع دیتا ہے۔ کہ اس قسم کی لغزشوں سے پرہیز کریں۔
Top