Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 166
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَمَآ : اور جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچا يَوْمَ : دن الْتَقَى : مڈبھیڑ ہوئی الْجَمْعٰنِ : دو جماعتیں فَبِاِذْنِ : تو حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ وہ معلوم کرلے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مقابلے کے دن واقع ہوئی سو خدا کے حکم سے واقع ہوئی اور (اس سے) یہ مقصود تھا کہ خدا مومنوں کو اچھی طرح معلوم کرلے
(166۔ 167) رسول اکرم ﷺ اور ابو سفیان کی باہم جنگ میں جو تمہیں زخم اور شہادت وغیرہ ہوئی وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور ارادہ سے ہوئی تاکہ مومنین کی جہاد پر بہادری اور منافقین کے راستہ ہی سے مدینہ لوٹ جانے کا اللہ تعالیٰ مظاہرہ کرا دے اور ان منافقوں سے عبداللہ بن جبیر ؓ نے کہا تھا کہ میدان جہاد میں آؤ اور دشمنوں کو اپنے گھروں اور بال بچوں سے دور کرو اور منافق ایمان اور مسلمانوں سے قریب تر ہونے کی بجائے کفر سے زیادہ قریب ہوگئے اور کافر ان منافقین سے ان دنوں بہت زیادہ قریب تھے، یہ منافقین صرف اپنی زبانوں سے اسلام کی حمایت کی باتیں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اہل کفر اور منافقین کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
Top