Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Maaida : 67
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول بَلِّغْ : پہنچا دو مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف (تم پر مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب وَ : اور اِنْ : اگر لَّمْ تَفْعَلْ : یہ نہ کیا فَمَا : تو نہیں بَلَّغْتَ : آپ نے پہنچایا رِسَالَتَهٗ : آپ نے پہنچایا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْصِمُكَ : آپ کو بچالے گا مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
اے پیغمبر ! جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچ دو۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے۔ (یعنی پیغمبری کا فرض ادانہ کیا) اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔ بیشک خدا منکروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
(67) یعنی محمد ﷺ ان کے بتوں کا انکار کیجیے اور ان کے دین کو دلائل کے ساتھ غلط ثابت کیجیے اور آخری درجہ میں ان کے ساتھ قتال کیجیے اور جو قبول حق پر آمادہ ہوں انھیں اسلام کی دعوت دیجیے اور اگر آپ حکم الہی کی بجاآوری نہیں کریں گے تو آپ نے ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا اور یہود وغیرہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا اور جو دین خداوندی کا اہل نہیں ہوتا، اسے اللہ وہ راستہ نہیں دیکھاتا۔ شان نزول : (آیت) ”یایہا الرسول بلغ ماانزل الیک“۔ (الخ) ابوالشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے رسالت سے مشرف فرمایا تو میرے دل میں پریشانی ہوئی اور میں نے یہ سمجھ لیا کہ لوگ ضرور میری تکذیب کریں گے تو مجھے اس چیز کا ڈر ہوا کہ میں تمام احکام کی تبلیغ کردوں، ورنہ مجھے عذاب دیا جائے گا۔ تو اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ابن ابی حاتم ؒ نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار، کس طرح تبلیغ کروں میں اکیلا ہوں اور سب مل کر مجھ پر ہجوم کرجائیں گے تو اس وقت آپ ﷺ پر جملہ نازل ہوا، (آیت) ”وان لم تفعل فما بلغت رسلتہ“۔ اور حاکم ؒ وترمذی ؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی، (آیت) ”واللہ یعصمک من الناس“۔ تو آپ نے خیمہ سے سرنکالا اور فرمایا کہ لوگو واپس چلے جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ نیز طبرانی ؒ نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عباس ؓ رسول اکرم ﷺ کے عم محترم ان حضرات میں سے تھے جو آپ کا پہرہ دیا کرتے تھے، جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا تو انہوں نے پہرہ دینا چھوڑ دیا۔ نیز عصمۃ بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہم رات کو رسول اکرم ﷺ کا پہرہ دیا کرتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا تو پہرہ دینا چھوڑ دیا گیا۔ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ جب ہم اور رسول اکرم ﷺ کسی سفر میں ہوتے تو ہم آپکے لیے سب سے بڑا اور سب سے زیادہ سایہ دار درخت چھوڑ دیتے تھے جس کے نیچے آپ اتر کر آرام فرماتے، چناچہ ایک دن ایسے ہی ایک درخت کے نیچے آپ نے آرام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی تو ایک شخص نے آکر وہ تلوار اتارلی اور کہا محمد ﷺ تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بچا سکتا ہے تلوار رکھ دے اس نے تلوار رکھ دی، تب یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ”واللہ یعصمک من الناس“۔ اور ابن ابی حاتم ؒ اور ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بنی انمار کیا تو مقام ذات الرقیع میں ایک کھجوروں کے بلند باغ پر پڑاؤ کیا، رسول اکرم ﷺ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے تھے اور پیر کنوئیں میں لٹکا رکھے تھے۔ تو بنی نجار میں سے وارث نامی ایک شخص کہنے لگا کہ العیاذ باللہ میں ضرور محمد ﷺ کو قتل کروں گا، تو اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ کس طرح قتل کرے گا وہ کہنے لگا میں آپ سے آپ کی تلوار مانگوں گا، جب آپ اپنی تلوار دے دیں گے تو میں آپ کو قتل کردوں گا، چناچہ وہ آیا اور کہا محمد ﷺ ذرا اپنی تلوار تو دیجیے، میں سونگھتا ہوں، آپ نے تلوار دے دی تو اس کا ہاتھ کانپنے لگا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ تیرے اور تیرے ارادہ کے درمیان حائل ہوگیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ”یایھا الرسول بلغ ما ان (الخ) اور ابن مردویہ ؒ اور طبرانی ؒ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی حفاظت کی جاتی تھی اور ابوطالب بنی ہاشم میں سے کچھ لوگ آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے آپ ﷺ کے ساتھ بھیجنے کا ارادہ فرمایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا عم محترم اللہ تعالیٰ نے جن وانس سب سے میری حفاظت کا وعدہ فرمالیا ہے۔ نیز ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس سے اس چیز کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے مگر ظاہر اس کا مخالف ہے۔
Top