Tafseer-Ibne-Abbas - Al-A'raaf : 106
قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالَ : بولا اِنْ : اگر كُنْتَ : تو جِئْتَ : لایا ہے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی فَاْتِ بِهَآ : تو وہ لے آ اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے
فرعون نے کہا اگر تم نشانی لیکر آئے ہو تو اگر سچے ہو تو لے آؤ دیکھاؤ
(106 تا 122) وہ کہنے لگا کہ اپنے رسول ہونے پر دلیل لاؤ چناچہ پہلی نشانی ڈالی تو وہ بہت بڑا زرد رنگ کا اژدہا بن گیا اور پھر اپنی بغل سے ہاتھ نکالا تو وہ خوب چمکتا ہوا ہوگیا۔ سردار کہنے لگے یہ تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ تو فرعون نے ان سے کہا پھر ان کے بارے میں تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو، وہ کہنے لگے موسیٰ ؑ اور ہارون کو مہلت دو اور ابھی ان کو قتل مت کرو، یہاں تک کہ سب ماہر جادوگر آجائیں، چناچہ ستر جادوگر بلائے گئے اور انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم نے موسیٰ کو ہرا دیا تو ہمیں بڑا انعام ملے گا ؟ فرعون نے کہا ہاں ! میں تمہیں بہت بڑا انعام دوں گا۔ وہ جادوگر حضرت موسیٰ ؑ سے کہنے لگے کہ پہلے آپ ڈالتے ہیں یا ہم، حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے تم ہی پہلے ڈالو، چناچہ انہوں نے ستر لاٹھیاں اور ستر رسیاں ڈالیں اور جادو سے سب لوگوں کی نظر بندی کرکے انکو سخت خوفزدہ کردیا اور ایک طرح کا بڑا جادودکھایا۔ پھر حضرت ؑ نے اپنا عصا ڈالا، اس نے گرتے ہی ان کی تمام لاٹھیوں اور رسیوں کو نگلنا شروع کردیا چناچہ یہ چیز واضح ہوگئی کہ سچائی اور حق حضرت موسیٰ ؑ کے پاس ہے اور ان کا جادو سب کمزور اور باطل ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ ان پر غالب آگئے اور وہ ذلیل و خوار ہو کر واپس لوٹ گئے، اور وہ بلائے گئے جادوگر پروردگار کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے، فرعون نے اپنے دل میں سوچا کہ مجھے قہر ہے ! تو انہوں نے صفت بیان کردی کہ جو موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کا پروردگار ہے اس پر ایمان لائے ہیں اور وہ سجدہ میں اتنی جلدی گرے گویا کہ سجدہ میں ڈال دیے گئے۔
Top