Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 106
قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالَ : بولا اِنْ : اگر كُنْتَ : تو جِئْتَ : لایا ہے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی فَاْتِ بِهَآ : تو وہ لے آ اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے
فرعون نے کہا اگر تو واقعی کوئی نشانی لے کر آیا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو پیش کر
فرعون کی طرف سے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب : 117: فرعون نے جب یہ سنا تو کہنے لگا کہ موسیٰ ! آج تو پیغمبر بن کر میرے سامنے بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے وہ دن بھول گیا جب تو نے میرے ہی گھر یعنی بادشاہ وقت کے ہاں پرورش پائی اور بچپن کی زندگی گزاری اور کیا تو یہ بھول گیا کہ تو نے ایک مصری کو قتل کیا اور یہاں سے بھاگ گیا۔ اس کی تفصیل سورة شعراء میں کی گئی۔ فرعون کے لئے یہ بات نہایت عجیب تھی کہ ایک شخص وہ بھی بنی اسرائیل سے رسول ہو کر آئے اور اس شخص کے سامنے جو خود کو سب سے بڑے دیوتا یعنی سورج کا اوتار اور لوگوں کا ” رب اعلیٰ “ بنائے بیٹھا تھا اس کے سامنے توحید الٰہی کا درس دے۔ اسی وجہ سے اس نے سنتے ہی کہا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ تم اللہ کے رسول ہو کر آئے ہو تو اپنے رسول ہونے کی کوئی نشانی پیش کرو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعوت کا اتنا فائدہ ہوا کہ فرعون نے بات سننا یا بات کرنا گوارا کرلیا اور اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو دعوت الٰہی کے مزید پیش کرنے کا موقع مل گیا۔
Top