Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 106
قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالَ : بولا اِنْ : اگر كُنْتَ : تو جِئْتَ : لایا ہے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی فَاْتِ بِهَآ : تو وہ لے آ اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے
اس نے جواب دیا کہ اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے تو اس کو پیش کرو۔ اگر تم سچے ہو
تفسیر آیت 106 تا 108۔ قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰيَةٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۔ فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ۔ وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا ھِىَ بَيْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِيْنَ۔ فرعون کے لیے یہ بات نہایت عجیب تھی کہ ایک شخص، وہ بھی اس کی رعیت میں سے، اس کے پاس خدا کا راسول ہو کر آئے۔ وہ خود، جیسا کہ ہم خود دوسرے مقام میں تصریح کرچکے ہیں، اپنے آپ کو سب سے بڑے دیوتا یعنی سورج کا اوتار اور لوگوں کا رب اعلی بنائے بیٹھا تھا اس وجہ سے اس نے سنتے ہی کہا، اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ تم خدا کے رسول ہو کر آئے ہو تو اپنے رسول ہونے کی کوئی نشانی دکھاؤ۔ حضرت موسیٰ نے اس کے مطالبہ پر ‘ عصا ’ اور ‘ ید بیضا ’ کے معجزے دکھائے۔ معجزات کے باب میں سنت الٰہی : معجزات کے باب میں سنت الٰہی یہ معلوم ہوتی ہے کہ قوموں کے مذاق اور رجحانات کی رعایت سے دیے جاتے ہیں تاکہ ان پر حجت ہوسکیں۔ مصر میں، تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں سحر و شعبدہ کا بڑا زور اور سوسائٹی میں ساحروں کو بڑا مقام حاصل تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ایسے معجزے دیے جن سے ساحروں کے طلسم کو باطل کیا جاسکے۔ عربوں میں اس کے برعکس، سب سے زیادہ قدر و عظمت فصاحت و بلاغت کو حاصل تھی اور سوسائٹی پر دھاک خطیبوں اور شاعروں کی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے ہمارے حضور کو قرآن کا معجزہ عطا ہوا جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے فصیحو ؓ بلیغوں کو عاجز و درماندہ کردیا۔ یہاں ‘ ثعبان ’ کے ساتھ ‘ مبین ’ کی صفت آئی ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ لٹھیا سچ مچ کا اژدہا بن گئی، ایسا کھلا اژدہا کہ کسی کے لیے ذرا شب ہے کی گنجائش باقی نہیں رہی، یہ بات نہیں تھی کہ ایک چیز محض رینگنے لگ گئی ہو یا اس کے اندر سر اور دم نمایاں ہوگئی ہو بلکہ عین میں اژدر، اپنی تمام خصوصیات وصفات کے ساتھ۔ اسی طرح بَيْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِيْنَ میں ناظرین کے لفظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہاتھ میں جو چمک ظاہر ہوتی تھی وہ محض فریب نظر کی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ غور و تامل سے دیکھنے والوں کو اس کی تابانی بالکل اصلی و حقیقی معلوم ہوتی۔ یہ ملحوظ رہے کہ ‘ نظر ’ لفظ اصلاً عربی میں غور و تامل سے دیکھنے کے لیے آتا ہے۔ معجزہ اور سحر میں امتیاز : یہاں یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ معجزہ اور سحر و شعبدہ میں امتیاز منطقی تعریف کے ذریعہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ ان کا اصلی فرق دو چیزوں سے نمایاں ہوتا ہے۔ اول تو باہمی تقابل سے جس طرح مسِ خام اور کندن کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو دونوں کا فرق صاف نمایاں ہوجائے گا اسی طرح جب ایک شخص معجزہ اور سحر کو ایک دوسرے کے مقابل میں دیکھتا ہے تو معجزے کی سطوت و جلالت، اس کے ظہور کا انداز، باطل پر اس کا غلبہ اور اس کی قہرمانیت پکار کر شہادت دیتی ہے کہ یہ کمہاروں کی مٹی سے بنا ہوا کھلونا نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق کہی اور ہی سے ہے۔۔ جو ہر جام جم از کان جہان دگر است۔۔ دوسری چیزن پیش کرنے والے کی شخصیت اور کردار ہوتی ہے۔ سحر و شعبدے دکھانے والے ہمیشہ سوسائٹی کے اراذل و انفار ہوئے ہیں، جن کی ذلت و نکبت، جن کے اخلاق کی پستی اور طبیعت کی دناءت و رذالت ہمیشہ ضرب المثل رہی ہے۔ برعکس اس کے معجزے ان لوگوں کے ہاتھوں ظاہر ہوئے ہیں جو انسانیت کے گل سرسبد مانے گئے ہیں، جن سے دنیا نے علم و عمل اور حکمت و معرفت کے سبق سیکھے ہیں، جن کی زندگی کا ہر دور اور جن کا ہر قول و فعل اسوہ اور نمونہ قرار پایا ہے، جو زندگی کی سخت سے سخت آزمائشوں میں بھی ہمیشہ سو فی صدی کھرے پائے گئے ہیں۔ یہاں ان اشارات پر کفایت کیجیے۔ آگے مناسب مواقع سے ان کی تفصیل آئے گی۔
Top