Tafseer-Ibne-Abbas - At-Tawba : 65
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اِنَّمَا : کچھ نہیں (صرف) كُنَّا : ہم تھے نَخُوْضُ : دل لگی کرتے وَنَلْعَبُ : اور کھیل کرتے قُلْ : آپ کہ دیں اَبِاللّٰهِ : کیا اللہ کے وَاٰيٰتِهٖ : اور اس کی آیات وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول كُنْتُمْ : تم تھے تَسْتَهْزِءُ وْنَ : ہنسی کرتے
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اسکی آیتوں اور اس کے رسول ﷺ سے ہنسی کرتے تھے ؟
(65۔ 66) اے محمد ﷺ اگر استہزاء کے بارے میں آپ ان سے پوچھیں تو کہہ دیں گے کہ ہم تو ویسے ہی سواروں کی باتیں کررہے تھے اور آپس میں ہنسی مذاق کررہے تھے۔ اے نبی کریم ﷺ آپ ان سے فرما دیجیے کہ تم اس استہزاء پر عذر مت کرو تم تو خود اپنے آپ کو مومن کہہ کر کفر کرنے لگے اگر ہم جہیر بن حمیر کو معاف کردیں کیوں کہ اس نے خود ان کے ساتھ استہزاء نہیں کیا بلکہ ہنسا ہے تو ودیعۃ بن جزام اور جدی بن قیس کو ضرور سزا دیں گے کیوں کہ وہ تو پکے مشرک ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”ولئن سالتہم“۔ (الخ) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ غزوہ تبوک میں ایک شخص نے ایک دن ایک مجلس میں کہا کہ میں نے ان مہمانوں جیسا اور نہ ان سے زیادہ خواہش والا اور نہ ان سے زیادہ جھوٹا اور نہ ان سے زیادہ دشمن کے مقابلے کے وقت بزدل کسی کو دیکھا ہے ایک شخص نے یہ سن کر کہنے لگا تو جھوٹا ہے اور یقیناً تو منافق ہے میں تیرے بارے میں رسول اکرم ﷺ کو مطلع کروں گا چناچہ رسول اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع ہوگئی اور اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوگئی ، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی اونٹنی کے پیچھے لٹکا ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا یارسول اللہ ﷺ ہم تو محض مشغلہ اور خوش طبعی کررہے تھے اور رسول اکرم ﷺ فرما رہے تھے کہ کیا تم لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کی آیات کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی کرتے تھے۔ اس کے بعد دوسرے طریقہ پر حضرت ابن عمر ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اس روایت میں اس منافق کا نام عبداللہ بن ابی بیان کیا ہے نیز کعب بن مالک ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ مخشی بن حمیر نے کہا کہ میری یہ خواہش ہے کہ تم میں سے ہر ایک کے سو سو کوڑے لگانے کا فیصلہ کیا جائے تاکہ ہمیں اس بات سے نجات مل جائے کہ ہمارے بارے میں کوئی حکم قرآنی نازل ہو چناچہ رسول اکرم ﷺ کو اس بات کی اطلاع ہوگئی تو یہ منافقین عذر پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ تم اب عذر مت کرو، تو ان لوگوں میں سے مخشی بن حمیر کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا، چناچہ اس کا نام عبدالرحمن رکھا گیا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے شہادت نصیب ہو اور میری شہادت کی جگہ کا کسی کو علم نہ ہو، چناچہ جنگ یمامہ میں وہ مارے گئے نہ ان کی شہادت کی جگہ کا علم ہوسکا اور نہ یہ معلوم ہوسکا کہ کس نے انکو شہید کیا ہے۔ نیز ابن جریر ؒ نے حضرت قتادہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ کچھ منافقین نے غزوہ تبوک میں کہا کہ یہ شخص (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ چاہتے ہیں کہ شام کے قلعے اور محلات فتح ہوجائیں، کیسی نازیبا بات ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو ان کی اس بات پر مطلع کردیا، چناچہ یہ منافقین آپ کی خدمت میں آئے آپ نے فرمایا تم نے ایسی ایسی بات کی ہے وہ کہنے لگے کہ ہم تو محض ہنسی مذاق کررہے تھے چناچہ ان کے بارے میں یہ حکم نازل ہوا۔
Top