بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Faatir : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ؕ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاطِرِ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین جَاعِلِ : بنانے والا الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے رُسُلًا : پیغامبر اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ : پروں والے مَّثْنٰى : دو دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ ۭ : اور چار چار يَزِيْدُ : زیادہ کردیتا ہے فِي الْخَلْقِ : پیدائش میں مَا يَشَآءُ ۭ : جو وہ چاہے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار ہے) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (اور) فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں۔ وہ (اپنی) مخلوقات میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔ بےشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں فاطر کی بالکل ٹھیک معنی میں نے سب سے پہلے ایک اعرابی کی زبان سے سن کر معلوم کئے۔ وہ اپنے ایک ساتھی اعرابی سے جھگڑتا ہوا آیا ایک کنویں کے بارے میں ان کا اختلاف تھا تو اعرابی نے کہا انا فطرتھا یعنی پہلے پہل میں نے ہی اسے بنایا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ابتداء بےنمونہ صرف اپنی قدرت کاملہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ ضحاک سے مروی ہے کہ فاطر کے معنی خالق کے ہیں۔ اپنے اور اپنے نبیوں کے درمیان قاصد اس نے اپنے فرشتوں کو بنایا ہے۔ جو پر والے ہیں اڑتے ہیں تاکہ جلدی سے اللہ کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچا دیں۔ اس میں سے بعض دو پروں والے ہیں بعض کے تین تین ہیں بعض کے چار چار پر ہیں۔ بعض ان سے بھی زیادہ ہیں۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اور ہر دو پر کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ تھا۔ یہاں بھی فرماتا ہے رب جو چاہے اپنی مخلوق میں زیادتی کرے۔ جس سے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ پر کردیتا ہے اور کائنات میں جو چاہے رچاتا ہے۔ اس سے مراد اچھی آواز بھی لی گئی۔ چناچہ ایک شاذ قرأت فی الحلن " ح " کے ساتھ بھی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top