Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ
: جب کہا
الْحَوَارِيُّوْنَ
: حواری (جمع)
يٰعِيْسَى
: اے عیسیٰ
ابْنَ مَرْيَمَ
: ابن مریم
هَلْ
: کیا
يَسْتَطِيْعُ
: کرسکتا ہے
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ
: کہ وہ
يُّنَزِّلَ
: اتارے
عَلَيْنَا
: ہم پر
مَآئِدَةً
: خوان
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
قَالَ
: اس نے کہا
اتَّقُوا اللّٰهَ
: اللہ سے ڈرو
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
(وہ قصہ بھی یاد کرو) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تمہارا پروردگار ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (طعام کا) خوان نازل کرے؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو
نبی اسرائیل کی ناشکری اور عذاب الٰہی یہ مائدہ کا واقعہ ہے اور اسی کی وجہ سے اس سورت کا نام سورة مائدہ ہے یہ بھی جناب مسیح ؑ کی نبوت کی ایک زبر دست دلیل اور آپ کا ایک اعلی معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے آسمانی دستر خوان اتارا اور آپ کی سچائی ظاہر کی۔ بعض ائمہ نے فرمایا ہے کہ اس کا ذکر موجودہ انجیل میں نہیں عیسائیوں نے اسے مسلمانوں سے لیا ہے، واللہ اعلم، حضرت عیسیٰ کے ماننے والے آپ سے تمنا کرتے ہیں کہ اگر ہو سکے تو اللہ تعالیٰ سے ایک خوان کھانے سے بھرا ہوا طلب کیجئے ایک قرأت میں آیت (هَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّكَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ) 5۔ المائدہ :112) یعنی کیا آپ سے یہ ہوسکتا ہے ؟ کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ؟ مائدہ کہتے ہیں اس دستر خوان کو جس پر کھانا رکھا ہوا ہو، بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے بوجہ فقر و فاقہ، تنگی اور حاجت کے یہ سوال کیا تھا، جناب مسیح ؑ نے ان سے فرمایا کہ اللہ پر بھروسہ رکھو اور رزق کی تلاش کرو، ایسے انوکھے سوالات نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ فتنہ ہوجائے اور تمہارے ایمان ڈگمگا جائیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ہم تو کھانے پینے سے تنگ ہو رہے ہیں محتاج ہوگئے ہیں اس سے ہمارے دل مطمئن ہوجائیں گے کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے اپنی روزیاں آسمان سے اترتی خود دیکھ لیں گے، اسی طرح آپ پر جو ایمان ہے وہ بھی بڑھ جائے گا، آپ کی رسالت کو یوں تو ہم مانتے ہی ہیں لیکن یہ دیکھ کر ہمارا یقین اور بڑھ جائے گا اور اس پر خود ہم گواہ بن جائیں گے، اللہ کی قدرت اور آپ کے معجزہ کی یہ ایک روشن دلیل ہوگی جس کی شہادت ہم خود دیں گے اور یہ آپ کی نبوت کی کافی دلیل ہوگی، اب حضرت عیسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، عید ہونے سے مراد تو عید کا دن یا نماز گزار نے کا دن ہونا ہے یا اپنے بعد والوں کے لئے یادگار کا دن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کیلئے نصیحت و عبرت ہونا ہے یا اگلوں پچھلوں کے لئے کافی وافی ہونا ہے، حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں یا اللہ یہ تیری قدرت کی ایک نشانی ہوگی اور میری سچائی کی بھی کہ تو نے میری دعا قبول فرما لی، پس لوگوں تک ان باتوں کو جو تیرے نام سے ہیں انہیں پہنچاؤں گا یقین کرلیا کریں گے، یا اللہ تو ہمیں یہ روزی بغیر مشقت و تکلیف کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما تو تو بہترین رازق ہے، اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس کے اترنے کے بعد تم میں سے جو کوئی بھی جھٹلائے گا اور کفر کرے گا تو میں اسے وہ عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تمہیں سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تمہیں سخت تر عذاب میں داخل ہوجاؤ، اور جیسے منافقوں کے لئے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ قیامت کے دن بدترین عذاب تین قسم کے لوگوں کو ہوگا، منافقوں کو اور مائدہ آسمانی کے بعد انکار کرنے والوں کو اور فرعونیوں کو، اب ان روایات کو سنیئے جو اس بارے میں سلف سے مروی ہے، ابن عباس فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ ؑ نے نبی اسرائیل سے فرمایا کہ تم اللہ کے لئے ایک مہینے کے روزے رکھو پھر رب سے دعا کرو وہ قبول فرمائے گا انہوں نے تیس روزے پورے کر کے کہا اے بھلائیوں کے بتانے والے ہم اگر کسی کا کام ایک ماہ کامل کرتے تو وہ بعد فراغت ضرور ہماری دعوت کرتا تو آپ بھی اللہ سے بھرے ہوئے خوان کے آسمان سے اترنے کی دعا کیجئے حضرت عیسیٰ نے پہلے تو انہیں سمجھایا لیکن ان کی نیک نیتی کے اظہار پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ساتھ ہی دھمکا بھی دیا پھر فرشتوں کے ہاتھوں آسمان سے خوان نعمت اتارا، جس پر سات مچھلیاں تھیں سات روٹیاں تھیں، جہاں یہ تھے وہیں وہ ان کے کھانے کو رکھ گئے سب بیٹھ گئے اور شکم سیر ہو کر اٹھے، ابن ابی حاتم کی ایک مر فوع حدیث میں ہے کہ اس مائدہ آسمانی میں گوشت روٹی اترا تھا حکم تھا کہ خیانت نہ کریں کل کے لئے نہ لے جائیں لیکن انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی، لے بھی گئے اور چرا بھی لیا، جس کی سزا میں وہ بندر بن گئے حضرت عمار فرماتے ہیں اس میں جنت کے میوے تھے، آپ فرماتے ہیں اگر وہ لوگ خیانت اور ذخیرہ نہ کرتے تو وہ خوان یوں ہی رہتا لیکن شام ہونے سے پہلے ہی انہوں نے چوریاں شروع کردیں، پھر سخت عذاب کئے گئے، اے عرب بھائیو ! یاد کرو تم اونٹوں اور بکریوں کی دمیں مروڑ تے تھے، اللہ نے تم پر احسان کیا خود تم ہی میں سے رسول کو بھیجا جن سے تم واقف تھے جن کے حسب و نسب سے تم آگاہ تھے، اس رسول علیہ سلام نے تمہیں بتادیا کہ عجمیوں کے ملک تمہارے ہاتھوں فتح ہوں گے لیکن خبردار تم سونے چاندی کے خزانوں کے درپے نہ ہوجانا لیکن واللہ دن رات وہی ہیں اور تم وہ نہ رہے، تم نے خزانے جمع کرنے شروع کردیئے، مجھے تو خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی اللہ کا عذاب برس نہ پرے، اسحاق بن عبداللہ فرماتے ہیں جن لوگوں نے مائدہ آسمانی میں سے چرایا ان کا خیال ہے تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ختم ہوجائے اور کل کے لئے ہمارے پاس کچھ نہ رہے، مجاہدہ سے مروی ہے کہ جب وہ اتر تے ان پر مائدہ اترتا عطیہ فرماتے ہیں گو وہ تھی تو مچھلی لیکن اس میں ذائقہ ہر چیز کا تھا، وہب بن منبہ فرماتے ہیں ہر دن اس مائدہ پر آسمان سے میوے اتر تے تھے قسم قسم کی روزیاں کھاتے تھے، چار ہزار آدمی ایک وقت اس پر بیٹھ جاتے پھر اللہ کی طرف سے غذا تبدیل ہوجاتی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پر روٹیاں جو کی تھیں، سعید بن جیبر فرماتے ہیں اس پر سوائے گوشت کے تمام چیزیں تھیں۔ عکرمہ فرماتے ہیں اس پر چاول کی روٹی تھی، حضرت وہب فرماتے ہیں کہ ان کے اس سوال پر حضرت عیسیٰ بہت رنجیدہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ زمین کے رزق پر قناعت کرو اور آسمانی دستر خوان نہ مانگو اگر وہ اترا تو چونکہ زبردست نشان ہوگا اگر ناقدری کی تو بری طرح پکڑے جاؤ گے۔ ثمودیوں کی ہلاکت کا باعث بھی یہی ہوا کہ انہوں نے اپنے نبی سے نشان طلب کیا تھا لیکن حواریوں نے حضرت عیسیٰ کی ایک نہ مانی اور اصرار کیا کہ نہیں آپ ضرور دعا کیجئے اب جناب عیسیٰ اٹھے، صوف کا جبہ اتار دیا، سیاہ بالوں کا لبادہ پہن لیا اور چادر بھی بالوں کی اوڑھ لی، وضو کر کے غسل کر کے، مسجد میں جا کر نماز پڑھ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہوگئے، دونوں پیر ملائے، ایک پنڈلی دوسری پنڈالی سے لگا لی، انگلیاں بھی ملا لیں، اپنے سینے پر اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، نگاہیں زمین میں گاڑ لیں سر جھکا دیا اور نہایت خشوع و خضوع سے عاجزانہ طور پر گریہ وزاری شروع کردی، آنسو رخساروں سے بہ کر داڑھی کو تر کر کے زمین پر ٹپکنے لگے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہوگئی، اب دعا کی جس کا بیان اس آیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ایک سرخ رنگ کا خوان دو بادلوں کے درمیان آسمان سے اترا، جسے اتر تے ہوئے سب نے دیکھا، سب تو خوشیاں ما رہے تھے لیکن روح اللہ کانپ رہے تھے، رنگ اڑ گیا تھا اور زار و قطار رو رہے تھے کہ اللہ ہی خیر کرے، ذرا بےادبی ہوئی تو مارے گئے زبان مبارک سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ یا اللہ اسے تو رحمت کا سبب بنا عذاب کا سب نہ بنا، یا اللہ بہت سی عجیب و غریب چیزیں میں نے تجھ سے طلب کیں اور تو نے عطا فرمائیں، باری تعالیٰ تو ان نعمتوں کے شکر کی ہمیں تو فیق عطا فرما، اے پروردگار تو اپنی اس نعمت کو ہمارے لئے سبب غضب نہ بنا، الٰہی تو اسے سلامتی اور عافیت کر، اسے فتنہ اور عذاب نہ کر، یہاں تک کہ وہ خوان زمین تک پہنچ گیا اور حضرت عیسیٰ حواری اور عیسائیوں کے سامنے رکھ دیا گیا، اس میں سے ایسی پاکیزہ خوشبوئیں آرہی تھیں کہ کسی دماغ میں ایسی خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی، حضرت عیسیٰ اور آپ کے اصحاب اسے دیکھ کر سجدے میں گرپڑے یہودی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور جل بھن رہے تھے، حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی اس دسترخوان کے اردگرد بیٹھ گئے دیکھا کہ اس پر ایک رومال ڈھکا ہوا ہے، مسیح ؑ نے فرمایا کون نیک بخت جرات و ہمت کر کے اسے کھولتا ہے ؟ حواریوں نے کہا اے کلمتہ اللہ آپ سے زیادہ حقدار اس کا کون ہے ؟ یہ سن کر حضرت عیسیٰ کھڑے ہوئے، نئے سرے سے وضو کیا، مسجد میں جا کر کئی رکعت نماز ادا کی دیر تک روتے رہے پھر دعا کی کہ یا اللہ اس کے کھولنے کی اجازت مرحمت ہو اور اسے برکت و رزق بنادیا جائے، پھر واپس آئے اور بسم اللہ خیر الرازقین کہہ کر رومال اٹھایا، تو سب نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی لمبی چوڑی اور موٹی بھنی ہوئی مچھلی ہے، جس کے اوپر چھلکا نہیں اور جس میں کانٹے نہیں، گھی اس میں سے بہ رہا ہے اسی میں ہر قسم کی سبزیاں بھی ہیں، سوائے گندنا اور مولی کے اس کے سر کے پاس سرکہ رکھا ہوا ہے اور دم کے پاس نمک ہے، سبزیوں کے پاس پانچ روٹیاں ہیں، ایک پر زیتون کا تیل ہے دوسری پر کھجوریں ہیں اور ایک پر پانچ انار ہیں، شمعون نے جو حواریوں کے سردار تھے کہا کہ اے روح اللہ یہ دنیا کا کھانا ہے یا جنت کا ؟ آپ نے فرمایا ابھی تک تمہارے سوال ختم نہیں ہوئے ؟ ابھی تک کریدنا باقی ہی ہے ؟ واللہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اس پر تمہیں کوئی عذاب نہ ہو، حضرت شمعون نے کہا اسرائیل کے معبود برحق کی قسم میں کسی سرکشی کی بنا پر نہیں پوچھ رہا، اے سچی ماں کے اچھے بیٹے ! یقین ما نئے کہ میری نیت بد نہیں، آپ نے فرمایا نہ یہ طعام دنیا ہے نہ طعام جنت بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص حکم سے اسے آسمان و زمین کے درمیان اسی طرح کا پیدا کردیا ہے اور تمہارے پاس بھیج دیا ہے، اب اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور کھا کر اس کا شکر ادا کرو شکر گزاروں کو وہ زیادہ دیتا ہے اور وہ ابتداء پیدا کرنے والا قادر اور قدر دان ہے، شمعون نے کہا اے نبی اللہ ہم چاہتے ہیں کہ اس نشان قدرت میں ہی اور نشان قدرت دیکھیں۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ گویا ابھی تم نے کوئی نشان قدرت دیکھا ہی نہیں ؟ اچھا لو دیکھو یہ کہہ کر آپ نے اس مچھلی سے فرمایا اے مچھلی اللہ کے حکم سے جیسی تو زندہ تھی، زندہ ہوجا، اسی وقت اللہ کی قدرت سے وہ زندہ ہوگئی اور ہل جل کر چلنے پھرنے لگی، آنکھیں چمکنے لگیں، دیدے کھل گئے اور شیر کی طرح منہ پھاڑ نے لگی اور اس کے جسم پر کھپرے بھی آگئے، یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین ڈر گئے اور ادھر ادھر ہٹنے اور دبکنے لگے، آپ نے فرمایا دیکھو تو خود ہی نشان طلب کرتے ہو خود ہی اسے دیکھ کر گھبراتے ہو واللہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ مائدہ آسمانی تمہارے لئے غضب اللہ کا نمونہ نہ بن جائے، اسے مچھلی تو بحکم الٰہی جیسی تھی، ویسی ہی ہوجا، چناچہ اسی وقت وہ ویسی ہی ہوگئی، اب سب نے کہا کہ اے نبی اللہ آپ اسے کھانا شروع کیجئے اگر آپ کو کوئی برائی نہ پہنچے تو ہم بھی کھا لیں گے، آپ نے فرمایا معاذ اللہ وہی پہلے کھائے جس نے مانگی ہے، اب تو سب کے دلوں میں دہشت بیٹھ گئی کہ کہیں اس کے کھانے سے کسی وبال میں نہ پڑجائیں، حضرت عیسیٰ السلام نے یہ دیکھ کر فقیروں کو مسکینوں کو اور بیماروں کو بلا لیا اور حکم یا کہ تم کھانا شروع کردو یہ تمہارے رب کی دی ہوئی روزی ہے جو تماہرے نبی کی دعا سے اتری ہے، اللہ کا شکر کر کے کھاؤ تہیں مبارک ہو اس کی پکڑ اوروں پر ہوگی تم بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور الحمد اللہ پر ختم کرو، پس تیرہ سو آدمیوں نے بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن وہ کھانا مطلقاً کم نہیں ہوا تھا پھر سب نے دیکھا وہ دستر خوان آسمان پر چڑھ گیا وہ کل فقیر غنی ہوگئے وہ تمام بیمار تندرست ہوگئے اور ہمیشہ تک امیری اور صحت والے رہے، حواری اور صحابی سب کے سب بڑے ہی نادم ہوئے اور مرتے دم تک حسرت و افسوس کرتے رہے، آپ فرماتے ہیں اس کے بعد جب یہ دستر خوان اترتا تو بنی اسرائیل ادھر ادھر سے دوڑے بھاگے آتے کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا امیر، فقیر تندرست کیا مریض ایک بھیڑ لگ جاتی ایک دوسرے پر گرتے پڑتے آتے، یہ دیکھ کر باری مقرر ہوگئی ایک دن اترتا ایک دن نہ اترتا، چالیس دن تک یہی کیفیت رہی کہ دن چڑھے اترتا اور ان کے سونے کے وقت چڑھ جاتا جس کا سایہ سب دیکھتے رہتے۔ اس کے بعد فرمان ہوا کہ اب اس میں صرف یتیم فقیر اور بیمار لوگ ہی کھائیں، مالداروں نے اس سے بہت برا مانا اور لگے باتیں بنانے، خود بھی شک میں پڑگئے اور لوگوں کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے ڈالنے لگے یہاں تک حضرت عیسیٰ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ سچ سچ بتائیے کہ کیا واقعی یہ آسمان سے ہی اترتا ہے ؟ سنئے ہم میں سے بہت سے لوگ اس میں متردد ہیں۔ جناب مسیح ؑ سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے قسم ہے مسیح کے رب کی اب تمہاری ہلاکت کا وقت آگیا، تم نے خود طلب کیا، تمہارے نبی کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی آسمانی دستر خوان تم پر اترا، تم نے آنکھوں سے اسے اترتے دیکھا، رب کی رحمت و روزی اور برکت تم پر نازل ہوئی، بڑی عبرت و نصیحت کی نشانی تم نے دیکھ لی آہ اب تک تمہارے دلوں کی کمزوری نہ گئی اور تمہاری زبانیں نہ رکیں، مجھے تو ڈر ہے کہ اگر رب نے تم پر رحم نہ کیا تو عنقریب تم بدترین عذابوں کے شکار ہوجاؤ گے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت عیسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی کہ جس طرح میں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میں ان لوگوں کو وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہو۔ دن غروب ہوا اور یہ بےادب، گستاخ، جھٹلانے والے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے اپنے اپنے بستروں پر جا لیٹے نہایت امن وامان سے ہمیشہ کی طرح اپنے بال بچوں کے ساتھ میٹھی نیند میں تھے کہ پچھلی رات عذاب الٰہی آگیا اور جتنے بھی یہ لوگ تھے سب کے سب سور بنا دیئے گئے جو صبح کے وقت پا خانوں کی پلیدی کھا رہے تھے، یہ اثر بہت غریب ہے، ابن ابی حاتم میں قصہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے منقول ہے لیکن میں نے اسے پورا بیان کردیا ہے تاکہ سمجھ آجائے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اغلم۔ بہر صورت ان تمام آثار سے صاف ظاہر ہے کہ جناب مسیح ؑ کے زمانے میں بنو اسرائیل کی طلب پر آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے یہ دستر خوان نازل فرمایا۔ یہی قرآن عظیم کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ بعض کا یہ بھی قول ہے کہ یہ مائدہ اترا ہی نہ تھا یہ صرف بطور مثال کے بیان فرما دیا ہے۔ چناچہ حضرت مجاہد سے منقول ہے کہ جب عذاب کی دھمکی سنی تو خاموش ہوگئے اور مطالبہ سے دستبردار ہوگئے۔ حسن کا قول بھی یہی ہے اس قول کی تائید اس سے بھی ہوسکتی ہے کہ نصرانیوں کی کتب میں اس کا ذکر نہیں۔ اتنے بڑے اہم واقع کا ان کی کتابوں میں مطلق نہ پایا جانا حضرت حسن اور حضرت مجاہد کے اس قول کو قوی بناتا ہے اور اس کی سند بھی ان دونوں بزرگوں تک صحت کے ساتھ پہنچتی ہے واللہ اعلم۔ لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا امام ابن جریر کا مختار مذہب بھی یہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ فرمان ربی آیت (اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ) 5۔ المائدہ :115) میں وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں صحیح اور حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن زیادہ ٹھیک قول یہی ہے جیسے کہ سلف کے آثار و اقوال سے ظاہر ہے۔ تاریخ میں بھی اتنا تو ہے کہ بنی امیہ کے نائب موسیٰ بن نصیر نے مغربی شہروں کی فتح کے موقعہ پر وہیں یہ مائدہ پایا تھا اور اسے امیر المومنین ولید بن عبد الملک کی خدمت میں جو بانی جامع دمشق ہیں بھیجا تھا لیکن ابھی قاصد راستے ہی میں تھے کہ خلیفۃ المسلمین کا انتقال ہوگیا۔ آپ کے بعد آپ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوئے اور ان کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا یہ ہر قسم کے جڑاؤ اور جواہر سے مرصع تھا جسے دیکھ کر بادشاہ اور درباری سب دنگ رہ گئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مائدہ حضرت سلیمان بن داؤد ؑ کا تھا واللہ اعلم، مسند احمد میں ہے کہ قریشیوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے، آپ نے فرمایا بالکل سچا وعدہ ہے، انہوں نے کہا نہایت پختہ اور بالکل سچا۔ آپ نے دعا کی اسی وقت حضرت جبرائیل ؑ آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں کوہ صفا کو سونے کا بنا دیتا ہوں لیکن اگر پھر ان لوگوں نے کفر کیا تو میں انہیں وہ عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا ہو اس پر بھی اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں۔ آپ نے فرمایا یا اللہ معاف فرما، توبہ اور رحمت کا دروازہ ہی کھول دے، یہ حدیث ابن مردویہ اور مستدرک حاکم میں بھی ہے۔
Top