Al-Qurtubi - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواری (جمع) يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم هَلْ : کیا يَسْتَطِيْعُ : کرسکتا ہے رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ : کہ وہ يُّنَزِّلَ : اتارے عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان قَالَ : اس نے کہا اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(وہ قصہ بھی یاد کرو) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تمہارا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (طعام کا) خوان نازل کرے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو۔
آیت نمبر 112 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) اذقال الحواریوں یعیسی ابن مریم اس کا اعراب پہلے گزرچکا ہے۔ (آیت) ھل یستطیع ربک کسائی، حضرت علی، حضرت ابن عباس ؓ ، سعید ابن جبیر اور مجاہد کی قراءت ھل تستطیع یعنی تا کے ساتھ ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 259) اور ربک نصب کے ساتھ ہے۔ کسائی نے ھل کا لام کو لا میں ادغام کیا ہے باقی قراء نے یا کے ساتھ پڑھا ہے اور ربک کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے یہ قراءت پہلی قراءت سے زیادہ واضح ہے۔ سدی نے کہا : اس کا معنی ہے اگر تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرے تو کیا تیرا رب تیری دعا قبول کرے گا ؟ پس یستطیع بمعنی یطیع ہوگا جیسا کہ علماء نے کہا : استجاب معنی اجاب ہوتا ہے اسی طرح استطاع بمعنی اطاع ہوتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے کیا تیرا رب قدرت رکھتا ہے ؟ یہ سوال ان کا اللہ تعالیٰ کی معرفت کے استحکام سے پہلے تھا اسی وجہ سے ان کی غلطی اور ان کی نامناسب تجویز پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جوابا فرمایا : (آیت) اتقوا اللہ ان کنتم موء منین اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو، یعنی اللہ کی قدرت میں شک نہ کرو۔ میں کہتا ہوں : اس میں نظر ہے، کیونکہ حواری انبیاء کرام مخلص جانثار اور قریبی لوگ ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) من انصاری الی اللہ قا الحواریون نحن انصار اللہ (آل عمران : 52) کون ہیں میرے مددگار اللہ کی راہ میں ؟ (یہ سن کر) کہا حواریوں نے کیا ہم مدد کرنے والے ہیں اللہ (کے دین) کی۔ اسی طرح نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” ہر نبی کے حواری (مخلص ساتھی) ہوتے ہیں اور میرا حواری (مخلص ساتھی) زبیر ہے “ (1) (صحیح بخاری، کتاب المناقب، جلد 1، صفحی 527) یہ معلوم ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کی معرت اور جو اس کے لیے واجب اور جائز تھا اور جو اس پر کہنا حلال تھا وہ لے کر آئے اور انہوں نے یہ اپنی امتوں تک پہنچا یا تھا پھر یہ بات ان خاص لوگوں پر کیسے مخفی تھی حتی کہ وہ اللہ کی قدرت سے بھی ناواقف تھے، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان لوگوں سے صادر ہوا جوان کے ساتھ تھے جس طرح بعض جہاں نے نبی مکرم ﷺ سے کہا تھا : ہمارے لیے ایک درخت متعین فرمادیں جس طرح ان مشرکوں کے لیے ایک متعین ہے (2) (جامع ترمذی، باب ماجاء لترکبن سنن من کان قبلکم، حدیث نمر 2106، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (مشرک زمانہ جاہلیت میں اس کی عبادت کرتے تھے) اور جس طرحضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے چند لوگوں نے کہا : (آیت) اجعل لنا الھا کمالھم الہۃ (الا عراف : 138) اس کا بیان انشاء اللہ سورة الاعراف میں آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک نہیں تھا، کیونکہ وہ مومن، عارف اور عالم تھے۔ یہ تیرے اس قول کی طرح ہے جیسے تو کسی کو کہتا ہے : کیا فلاں آنے کی طاقت رکھتا ہے ؟ حالانکہ تو جانتا ہے کہ وہ طاقت رکھتا ہے پس معنی یہ ہوگا کیا وہ یہ کرے گا، کیا وہ میری یہ بات قبول کرے گا یا نہیں ؟ وہ اللہ تعالیٰ کی استطاعت کو جانتے تھے کہ وہ یہ بھی کرسکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی کرسکتا ہے۔ یہ وہ خبر، دلالت اور نظر کے اعتبار سے جانتے تھے پس انہوں نے علم معاینہ کا ارادہ کیا تھا جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا : اے میرے رب ! دکھا مجھے کیسے تو مردوں کو زندہ کرے گا ؟ حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خبر اور نظر کے اعتبار سے یہ جانتے تھے لیکن انہوں نے اس معاینہ کا ارادہ کیا جس میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا، کیونکہ نظر اور خبر کے علم میں شبہ اور اعتراضات داخل ہوتے ہیں اور علم المعاینہ میں ایسی کوئی چیز داخل نہیں ہوتی اسی وجہ سے حواریوں نے کہا : (آیت) تطمئن قلوبنا جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا : (آیت) ولکن الیطمئن قلبی (بقرہ : 260 ) میں کہتا ہوں : یہ عمدہ تاویل ہے اور اس سے بھی بہتر تاویل وہ ہے کہ یہ ان لوگوں کا قول تھا جو حواریوں کے ساتھ تھے اس کا بیان آگے آئے گا۔ ابن عربی نے اللہ تعالیٰ کے اسماء میں المستطیع کو بھی داخل کیا ہے اور فرمایا : کتاب و سنت میں یہ اسم موجود نہیں ہے لیکن فعلا وارد ہے انہوں نے حواریوں کا قول ذکر کیا (آیت) ھل یستطیع ربک۔ ابن الحصار نے اپنی کتاب ’ شرح السنۃ “ میں اس کا رد کیا ہے۔ ابن الحصار نے کہا : اللہ تعالیٰ کا یہ قول اس بات کی خبر دے رہا ہے جو حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا (آیت) ھل تستطیع ربک استطاعت میں شک نہیں تھا اس سوال میں تلطف اور اللہ تعالیٰ کا ادب مقصود تھا، کیونکہ ہر ممکن کا وقوع اس کے علم میں ہے اور حواری تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں اچھے لوگ تھے پھر یہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ہر ممکن چیز پر قادر ہونے کے متعلق جہالت کا گمان کیسے جائز ہے ؟ رہی تاوالی قراءت۔ تو بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے کیا تو اپنے رب سے سوال کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟ یہ حضرت عائشہ ؓ اور مجاہد کا قول ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا قوم اللہ تعالیٰ کی ذات کو زیادہ جانتی تھی (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 259۔ دارالکتب العلمیہ بیروت) ، وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : اس کا مطلب ہے کیا تو اپنے رب سے سوال کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟ حضرت عائشہ ؓ سے یہ بھی مروی ہے فرمایا : حواریوں کو شک نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ دستر خوان کے اتارنے پر قادر ہے لیکن انہوں نے کہا : کیا تو اپنے رب سے سوال کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟ حضرت معاذبن جبل سے مروی ہے فرمایا : ہمیں نبی مکرم ﷺ نے پڑھایا : (آیت) ھل یستطیع ربک۔ معاذ نے کہا : میں نے کئی مرتبہ نبی مکرم ﷺ کو تا کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا۔ ھل تستطیع ربک (2) (جامع ترمذی، کتاب القراۃ من رسول للہ، باب فی فاتحۃ الکتاب، حدیث نمبر 2854، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے جو تو اپنے رب سے سوال کرے گا کیا تو دعوی کرتا ہے کہ تیرا رب تیری دعا قبول فرمائے گا ؟ بعض علماء نے فرمایا : کیا تو اپنے رب سے دعا یا سوال کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟ یہ مفہوم قریب قریب ہیں۔ محذوف نکالنا ضروری ہے جیسے فرمایا : (آیت) وسئل القریۃ (یوسف : 82) اور یا کی قراءت پر حذف کی ضرورت نہیں رہتی۔ (آیت) قال اتقوا اللہ یعنی گناہوں سے اور کثرت سوال سے بچو، کیونکہ تم نہیں جانتے ہو کہ وہ آیات کی تجویز پر تمہارے لیے کیا اتاردے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود وہی کرتا ہے جو اس کے بندوں کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ (آیت) ان کنتم مومنین یعنی اگر تم اس پر ایمان لانے والے ہو اور جو کچھ وہ لے کر آیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہو، وہ تمہارے لیے ایسی آیات لایا ہے جن میں کفایت ہے
Top