Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ۧ
وَاذْكُرْ
: اور یاد کرو
فِي الْكِتٰبِ
: کتاب میں
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
اِنَّهٗ كَانَ
: بیشک وہ تھے
صِدِّيْقًا
: سچے
نَّبِيًّا
: نبی
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے
آیت نمبر 41 تا 50 ترجمہ : آپ کفار مکہ کو کتاب میں مذکور ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ سنائیے یعنی اس کی خبر بیان کیجئے بیشک وہ بڑی راستی والے نبی تھے یعنی نہایت سچے نبی تھے اور اِذ قال لابیہ خبْرَہ سے بدل ہے (یعنی اس وقت کا قصہ بیان کیجئے) جب انہوں نے اپنے والد آزر سے عرض کیا تھا یَا اَبَتِ اے ابا جان، تایائے اضافت کے عوض میں ہے (عوض اور معوض) دونوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے اور آزر بت پرستی کرتا تھا آپ ان (بتوں) کی پوجا پاٹ کیوں کرتے ہیں ؟ جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں یعنی نہ کفایت کرسکیں، نہ نفع پہنچا سکیں اور نہ نقصان کو دفع کرسکیں اے میرے مہربان باپ میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا لہٰذا آپ میری بات مانیں میں آپ کو صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ دکھاؤں گا اے ابا جان آپ شیطان کی پرستش نہ کریں بت پرستی میں اس کی اطاعت کر کے بیشک شیطان تو (حضرت) رحمان کا بڑا ہی نافرمان ہے یعنی بکثرت نافرمانی کرنے والا ہے اے ابا جان مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ پر عذاب الٰہی نہ آپڑے کہ کہیں آپ شیطان کے ساتھی نہ بن جائیں، یعنی معاون اور جہنم میں ساتھی نہ بن جائیں (یہ سن کر) باپ نے جواب دیا اے ابراہیم کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے ؟ جس کی وجہ تو ان پر نکتہ چینی کرتا ہے (کان کھول کر سن لے) اگر تو ان کی چھیڑ چھاڑ سے باز نہ آیا تو میں تجھ کو پتھروں سے کچل دوں گا یا تیرے ساتھ گالی گلوچ سے پیش آؤں گا جا ایک طویل زمانہ تک مجھ سے دور رہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا تو میرا سلام لو یعنی میں آپ کو تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کے لئے درخواست کروں گا، بلاشبہ وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے حَفِیَّا، حَفِی سے مشتق ہے اس کے معنی ہیں احسان کرنے والا، لہٰذا وہ میری درخواست کو شرف قبولیت بخشے گا، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اس وعدہ کو اپنے اس قول سے پورا فرمایا جو سورة شعراء میں مذکور ہے واغفِرْ لِاَبِیْ اور یہ دعاء کرنا اس وقت کی بات ہے جب تک یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ دشمن خدا ہے، جیسا کہ سورة برأۃ میں مذکور ہے میں تو تم سے بھی اور ان (بتوں) سے بھی کنارہ کشی اختیار کر رہا ہوں جن کی تم خدا کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو میں تو اپنے رب کی بندگی کرتا رہوں گا مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کی بندگی کر کے محروم نہ رہوں گا جیسا کہ تم بتوں کی بندگی کر کے محروم رہے ہو چناچہ جب ابراہیم (علیہ السلام) ان کو اور اللہ کے سوا ان کے سب معبودوں کو چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے تو ہم نے ان کو دو بیٹے جن سے وہ انس حاصل کرے اسحٰق اور یعقوب عطا کئے اور ان کو نبی بنایا اور ہم نے ان تینوں کو اپنی رحمت سے مال واولاد عطا کی اور ہم نے ان کو اعلیٰ درجہ کا ذکر جمیل عطا کیا اور وہ تمام اہل ادیان میں ان کی اچھی تعریف ہے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد واذکر فی الکتاب ابراھیم کا عطف واذکر فی الکتاب مریم پر ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا عطف وانذرھم یوم الحسرۃ پر ہو، قولہ خبرہٗ کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ابراہیم کے پہلے مضاف محذوف ہے اس لئے کہ خبر احوال کی ہوتی ہے نہ کہ ذات کی قولہ صِدِّیْقًا مبالغہ کا صیغہ ہے بہت راست گو، نبی اور صدیق کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے ہر نبی صدیق ہوتا ہے مگر ہر صدیق کا نبی ہونا ضروری نہیں اسی طرح ولی اور صدیق میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے ہر صدیق ولی ہوتا ہے مگر ہر ولی کا صدیق ہونا ضروری نہیں مقام صدیقیت مقام کے اعتبار سے مقام نبوت سے نیچا ہے قولہ اِذ قال لِاَبیہ خبرہ سے بدل الاشتمال ہے قولہ اِنَّہٗ کان صدِّیقا نبیا ما قبل کی علت ہے اور بدل اور مبدل منہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے صدیقاً کان کی خبر اول ہے اور نبیًّا خبر ثانی ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حقیقی والد ہیں قرآن کے طرز بیان سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ آزر آپ کے چچا ہیں عرف کے اعتبار سے مجازاً اَبْ کہہ دیا گیا ہے، ان کے والد کا نام تارخ ہے قولہ اراغب مبتدا ہے اور اَنْتَ قائم مقام فاعل خبر ہے، استفہام تعجبی ہے، چونکہ اراغب استفہام پر اعتماد کئے ہوئے، لہٰذا نکرہ کا مبتداء بنانا صحیح ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ أراغبٌ خبر مقدم اور انت مبتدا مؤخر ہو قولہ لئن اس میں لام قسم ہے ای واللہ لئن لم تنتہ قولہ العصی والعاصی دونوں کے ایک ہی معنی ہیں عَصِیٌّ اصل میں عَصُویٌ تھا، واؤ کو یا کیا اور یا کو تا میں ادغام کردیا پھر یا کی مناسبت سے صاد کو کسرہ دے دیا، عِصیَّ ہوگیا قولہ واھْجُرْنِیْ ملیا کا عطف واحذرنی محذوف پر ہے جس پر لا رجمنک دلالت کرر ہا ہے تاکہ دونوں جملے انشائیہ ہوجائیں، معطوف اور معطوف علیہ میں موافقت سیبویہ کے یہاں ضروری ہے ملیًا طویل زمانہ، ایک معنی اس کے صحیح سالم کے بھی ہیں، مطلب یہ کہ زمانہ دراز کے لئے تو میری نظروں کے سامنے سے ٹل جا، دوسرے معنی کے اعتبار سے ترجمہ یہ ہوگا کہ تو مجھے میری حالت پر چھوڑ دے مجھ سے چھیڑ چھاڑ نہ کر، ورنہ کہیں مجھ سے اپنے ہاتھ پیر نہ توڑ والینا، ملیًا ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جیسا کہ مفسر علام نے دھرًا طویلاً مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے، واھجرنی کی ضمیر فاعل سے حال بھی ہوسکتا ہے قولہ ناصرًا وقرینًا مناسب تھا کہ مفسر علام قرینًا پر اکتفاء کرتے اس لئے کہ دخول نار کے بعد کوئی کسی کا معاون نہیں ہوگا قولہ فتکون للشیطان ولیًا آیت کا ظاہر مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے ساتھ ولایت مس عذاب پر مرتب ہے، یعنی مس عذاب کی وجہ سے شیطان کے ساتھ ولایت ہوگی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیطان سے ولایت کی وجہ سے مس عذاب ہوگا، اس شبہ کا جواب مفسر علام نے قریناً فی النار کا اضافہ کر کے دے دیا قولہ حَفِیّ صفت مشبہ ہے بڑا مہربان، اکرام میں مبالغہ کرنے والا قولہ کُلاَّ جعلنا کا مفعول اول ہے تخصیص کے لئے فعل پر مقدم کردیا گیا ہے۔ تفسیر و تشریح واذکُرْ فی الکتابِ ابراھیم اس سورة میں مذکور قصوں میں سے یہ تیسرا قصہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کا خلاصہ : تورات اور تاریخی روایات کے اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نسب نو پشتوں کے واسطوں سے حضرت نوح (علیہ السلام) کے صاحبزادے سام سے ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم کے والد کا نام : علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا کیا نام ہے ؟ توریت اور تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے والد صاحب کا نام تارخ ہے مگر قرآن عزیز نے آپ کے والد کا نام آزر بتایا ہے وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ لِاَبِیْہِ آزَرَ اَتَتَّخِذ اَصْنَامًا آلِھَۃ ً بعض مفسرین نے اس اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی شخصیت کے ہیں تارخ علم اسمی ہے اور آزر علم وصفی ہے ان میں سے بعض حضرات تطبیق اس طرح دیتے ہیں کہ آزر عبری زبان میں محبّ صنم کو کہتے ہیں اور چونکہ تارخ میں بت پرستی اور بت تراشی دونوں وصف موجود تھے اس لئے آزر کے لقب سے مشہور ہوا، اور بعض کا خیال ہے کہ آزر کے معنی اَعْوَج (کم فہم) یا خفیف العقل کے ہیں اور چونکہ تارخ میں یہ بات موجود تھی اس لئے اس کو اس وصف سے موصوف کیا گیا، قرآن عزیز نے اسی وصفی نام کو بیان کیا ہے۔ اور دوسرے علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آزر اس بت کا نام ہے، تارخ جس کا پجاری اور مہنت تھا مجاہد ؓ سے روایت ہے کہ قرآن عزیز کی مسطورہ بالا آیت کا مطلب یہ ہے کہ اَتَتَّخِذ آزَرَ اِلھا ای اتتخذ اصناماً آلِھَۃ ً کیا تو آزر کو خدا مانتا ہے یعنی بتوں کو خدا مانتا ہے غرضیکہ ان کے نزدیک آزر ابیہ کا بدل نہیں ہے بلکہ ایک بت کا نام ہے اس طرح قرآن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام مذکور نہیں ہے، ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا اور چچا کا نام آزر اور چونکہ آزر ہی نے ان کی تربیت کی تھی اور بمنزلہ اولاد کے پالا تھا اس لئے قرآن عزیز میں آزر کو باپ کہہ کر پکارا گیا ہے جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے العم صِنو ابیہ چچا باپ ہی کی طرح ہوتا ہے، عبد الوہاب نجار کی رائے یہ ہے کہ کہ ان اقوال میں سے مجاہد (رح) کا قول قرین قیاس ہے اس لئے کہ مصریوں کے قدیم دیوتاؤں میں ایک کا نام اَزَوْرِیس بھی آتا ہے جس کے معنی خدائے قوی اور معین کے ہیں اور اصنام پرست اقوام کا شروع سے یہ دستور رہا ہے کہ قدیم دیوتاؤں کے نام پر ہی جدید دیوتاؤں کے نام رکھ لیا کرتے تھے اس لئے اس دیوتا کا نام بھی قدیم مصری دیوتا کے نام پر آزر رکھا گیا ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا۔ ہمارے نزدیک یہ تمام تکلفات باردہ ہیں اس لئے کہ قرآن عزیز نے جب صراحت کے ساتھ آزر کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ کہا ہے تو پھر علماء کو انساب اور بائبل کے تخمینی قیاسات سے متاثر ہو کر قرآن عزیز کی یقینی تعبیر کو مجاز کہنے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر خواہ مخواہ قرآن عزیز میں نحوی مقدرات ماننے پر کونسی شرعی اور حقیقی ضرورت مجبور کرتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آدار کالدی زبان میں بڑے پجاری کو کہتے ہیں اور عربی زبان میں یہی آزر کہلایا، تارخ چونکہ بت تراش اور سب سے بڑا پجاری تھا اس لئے آزر ہی کے نام سے مشہور ہوگیا حالانکہ یہ نام نہ تھا بلکہ لقب تھا اور جب لقب نے نام کی جگہ لے لی تو قرآن عزیز نے بھی اسی نام سے پکارا۔ (ماخوذ از قصص القرآن ج 1، ص 151) وَاذْکُرْ فِی الکِتابِ اِبْرَاھِیْمَ اے محمد ﷺ آپ ﷺ اہل مکہ کو ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ سنائیے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ ہم ان کی نسبی اولاد ہیں شاید ان کو اپنے جد امجد کے بت شکنی اور بت بیزاری کے حالات سن کر توحید و رسالت کا مسئلہ سمجھ میں آجائے وہ اپنے ہر قول وفعل میں بڑے راستی والے پیغمبر تھے اور ان کا جو قصہ ہم بیان کرنا چاہتے ہیں وہ اس وقت پیش آیا تھا جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے جو کہ مشرک تھا کہا تھا اے میرے ابا جان آپ ایسی چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہو کہ جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے اور نہ وہ تمہارے کچھ کام آسکیں، اے میرے ابا جان میرے پاس ایسا علم پہنچا ہے جو آپ کے پاس نہیں پہنچا، تم میرے کہنے پر چلو میں تم کو سیدھا راستہ بتلاؤں گا اور اے ابا جان آپ شیطان کی پرستش نہ کریں یعنی اس کو اور اس کی بندگی کو خود تم بھی ناپسند کرتے ہو اور بت پرستی میں شیطان پرستی یقیناً لازم ہے اس لئے کہ وہی یہ حرکت کراتا ہے اسی کا نام شیطان پرستی ہے، بیشک شیطان رحمان کا بڑا نافرمان ہے وہ اطاعت کے لائق کیسے ہوسکتا ہے، اے ابا جان مجھے قوی اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر رحمان کی طرف سے عذاب نہ آپڑے پھر تم عذاب میں شیطان کے ساتھ مبتلا ہوجاؤ، اپنے صاحبزادے کی مذکورہ تمام باتیں سن کر کہنے لگا کیا تم میرے معبودوں سے پھرے ہوئے ہو اگر تم ان بتوں کی مذمت اور مجھے ان کی عبادت سے منع کرنے سے باز نہ آئے تو میں تم کو ضرور بالضرور پتھروں سے مار مار کر سنگسار کردوں گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کے ادب واحترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت ہی شفقت اور پیار کے لہجے میں ابا جان کو توحید کا وعظ سنایا لیکن توحید کا سبق کتنے ہی شیریں اور نرم لہجے میں بیان کیا جائے مشرک کے لئے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے چناچہ مشرک باپ نے اس نرمی اور پیار کے جواب میں نہایت ہی درشتی اور تلخی کے ساتھ موحد بیٹے سے کہا اگر تو میرے معبودوں سے روگردانی کرنے سے باز نہ آیا میں تجھے سنگسار کر دوں گا ورنہ تو میری نظروں کے سامنے سے ٹل جا (دوسرا ترجمہ) ملیاً کے ایک معنی صحیح سالم کے بھی ہیں اس وقت ترجمہ یہ ہوگا یعنی مجھے میرے حال پر چھوڑ دے اور مجھے توحید کا سبق سکھانے سے باز آجا اگر تو باز نہ آیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تو مجھ سے اپنے ہاتھ پیر تڑوا بیٹھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا (بہتر) میرا سلام لو اب تم سے کہنا سننا بےسود ہے اب میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا کہ وہ تم کو ہدایت کرے بیشک وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے، جب تم میری حق بات کو نہیں مانتے تو تم میں میرا رہنا بھی فضول ہے اس لئے میں تم سے اور جن کی تم پوجا کرتے ہو کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں کہیں جا کر اطمینان سے اپنے رب کی بندگی کروں گا غرضیکہ اس گفتگو کے بعد ان سے اس طرح علیحدہ ہوئے کہ ملک شام کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے اور ہم نے ان کو اسحٰق بیٹا اور یعقوب پوتا عطا کیا، اسماعیل (علیہ السلام) چونکہ پہلے پیدا ہوچکے تھے اس لئے ان کا اس جگہ ذکر نہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا ذکر مستقلاً عنقریب ان کے اوصاف کے ساتھ آرہا ہے اس وجہ سے یہاں ترک کردیا گیا۔ صدیق کی تعریف : صدیق کے اصطلاحی معنی میں علماء کا اختلاف ہے، بعض نے فرمایا کہ جس شخص نے عمر میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو وہ صدیق ہے، اور بعض نے فرمایا کہ جو شخص اعتقاد اور قول وفعل ہر چیز میں صادق ہو اور جو دل میں ہو وہی زبان پر ہو ایسا شخص صدیق، روح المعانی اور مظہری میں اسی آخری قول کو اختیار کیا گیا ہے۔ صدیقیت کے درجات : صدیقیت کے درجات مختلف ومتفاوت ہیں اصل صدیق تو رسول اور نبی ہی ہوسکتا ہے اور ہر نبی اور رسول کے لئے صدیقیت وصف لازم ہے مگر اس کا عکس لازم نہیں کہ جو صدیق ہو اس کا نبی ہونا ضروری ہو بلکہ غیر نبی بھی صدیق ہوسکتا ہے، حضرت مریم (علیہ السلام) کو خود قرآن کریم نے اُمُّہٗ صَدِّیقۃ کا خطاب دیا ہے حالانکہ جمہور امت کے نزدیک وہ نبی نہیں ہیں اور کوئی عورت نبی نہیں ہوسکتی۔ بڑوں کو نصیحت کرنے کے آداب اور طریقے : یَا اَبَتِ عربی لغت کے اعتبار سے یہ لفظ باپ کی تعظیم و محبت کا خطاب ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام جامعیت اوصاف و کمالات کا عطا فرمایا تھا ان کی یہ تقریر اپنے والد کے سامنے ہو رہی ہے، اعتدال مزاج اور رعایت اضداد کی ایک بےنظیر تقریر ہے ایک طرف باپ کو شرک وکفر اور کھلی گمراہی میں نہ صرف مبتلا بلکہ اس کا داعی دیکھ رہے ہیں، جس کے مٹانے ہی کے لئے خلیل اللہ پیدا کئے گئے ہیں، دوسری طرف باپ کا ادب اور عظمت اور محبت ہے اور ان دونوں ضدوں کو خلیل اللہ نے کس طرح جمع فرمایا، اول تو یا اَبَتِ کا لفظ جو باپ کی مہربانی اور محبت کا داعی ہے ہر جملہ کے شروع میں اس لفظ سے خطاب کیا، پھر کسی جملہ میں باپ کی طرف کوئی لفظ ایسا منسوب نہیں کیا جس سے اس کی توہین یا دل آزادی ہو کہ اس کو گمراہ یا کافر کہتے بلکہ حکمت پیغمبرانہ کے ساتھ صرف ان بتوں کی بےبسی اور بےحسی کا اظہار فرمایا کہ ان کو خود اپنی غلط روش کی طرف توجہ ہوجائے، دوسرے جملہ میں اپنی اس نعمت کا اظہار فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم نبوت کی عطا فرمائی تھی تیسرے اور چوتھے جملہ میں انجام بد سے ڈرایا جو اس کفروشرک کے نتیجے میں آنے والا تھا، اس پر بھی باپ نے بجائے کسی غورو فکر کے ان کی فرزند انہ گذارش پر کچھ نرمی کا پہلو اختیار کرتے۔۔۔۔ پورے تشدد کے ساتھ خطاب کیا انہوں نے تو خطاب یا ابت کے پیارے لفظ سے کیا جس کا جواب عرف میں یَا بُنَیَّ کے لفظ سے ہونا چاہیے تھا مگر آزر نے ان کا نام لے کر یا ابراہیم سے خطاب کیا اور ان کو سنگسار کر کے قتل کرنے کی دھمکی اور گھر سے نکل جانے کا حکم دیا اس کا جواب خلیل اللہ کی طرف سے کیا ملتا ہے وہ سنئے، فرمایا : سَلاَمٌ عَلَیْکَ یہاں لفظ سلام دو معنی کے لئے ہوسکتا ہے اول یہ کہ سلام مقاطعہ ہو، یعنی کسی سے شریفانہ اور مہذب طریقہ سے قطع تعلق کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بات کا جواب دینے کے بجائے لفظ سلام کہہ کر علیحدہ ہوجائے جیسا کہ قرآن کریم نے اپنے مقبول اور صالح بندوں کی صفت میں بیان فرمایا وَاِذَا خَاطَبَھُمْ الجَاھِلُوْنَ قالُوْا سلاماً یعنی جب جاہل لوگ ان سے جاہلانہ خطاب کرتے ہیں تو یہ ان کے دو بدو ہونے کے بجائے لفظ سلام کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ باوجود مخالفت کے میں تمہیں کوئی گزند اور تکلیف نہ پہنچاؤں گا، اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہاں سلام عرفی سلام ہی کے معنی میں لیا جائے، اس میں فقہی اشکال ہوتا ہے جس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے۔ ساَسْتَغْثِرلَکَ رَبِّی یہاں بھی ایک اعتراض ہوتا ہے اعتراض یہ ہے کہ کسی کافر کے لئے استغفار کرنا شرعاً ممنوع ہے آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا تھا کہ وَاللہِ لاَ سْتغْفِرَنَّ لَکَ مَالَمْ انہ عنہ بخدا میں آپ کے لئے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی مَا کَانَ لِنَبِیٍّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا ان یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمشرکِینَ یعنی نبی اور ایمان والوں کے لئے جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں اس آیت کے نازل ہونے پر آپ نے چچا کے لئے استغفار کرنا چھوڑ دیا۔ اشکال کا جواب : یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ سے وعدہ کرنا کہ میں آپ کے لئے استغفار کروں گا یہ ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے اس کے بعد ممانعت کردی گئی، سورة ممتحنہ میں حق تعالیٰ نے خود اس واقعہ کا بطور استثناء ذکر فرما کر اس کی اطلاع دے دی ہے اِلاَّ قَوْلَ اِبراھِیمَ لِاَبِیْہِ لَا َسْتَغْفِرَنَّ لَکَ اور اس سے زیادہ واضح سورة توبہ میں آیت مذکورہ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أ نْ یَّسْتَغْفِرُوْا کے بعد دوسری آیت میں فرمایا مَا کَان استغفار اِبْرَھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مَوْعدۃٍ وَعَدَھَا اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوّ لِّللہِ تَبَرَّ أ مِنْہٗ جس سے معلوم ہوا کہ یہ استغفار اور اس کا وعدہ باپ کے کفر پر جمے رہنے اور خدا کا دشمن ثابت ہونے سے پہلے کا تھا جب باپ کے عدو اللہ ہونے کی حقیقت معلوم ہوگئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی برأت کا اعلان فرمادیا۔ البلاغۃ : الکنایَۃ اللَّطیفۃ : “ لِسان صدق ” کنایۃ عن الذکر الحسن والثناء الجمیل باللسان لِأن الثناء یکون باللسان کما یکنٰی عن العطاء بالید۔
Top