Tafseer-e-Jalalain - Ash-Shu'araa : 160
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا قَوْمُ لُوْطِ : قومِ لوط ۨ الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں کو
(اور قوم) لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
آیت نمبر 160 تا 175 ترجمہ : قوم لوط نے (بھی) نبیوں کو جھٹلایا جب کہ ان کے بھائی لوط (علیہ السلام) نے ان سے کہا کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہارا امانتدار رسول ہوں، سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں تم سے اس پر کوئی صلہ نہیں چاہتا بس میرا صلہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے کیا تم اہل عالم یعنی انسانوں میں سے مردوں کیساتھ شہوت رانی کرتے ہو ؟ اور تمہاری بیبیوں کی جو چیز یعنی ان کی شرمگاہیں تمہارے لئے پیدا (حلال) کی گئیں ہیں ان کو چھوڑے ہوئے ہو، اپنی بیبیوں کی شرمگاہوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو، یہ تفسیر اور ترجمہ اس صورت میں ہوگا جب کہ مِن کو تبعیضیہ مانا جائے اور اگر من بیانیہ لیا جائے تو من ازواجکم ما کا بیان ہوگا، مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے جو چیز یعنی عورت تمہارے لئے حلال کی ہے اس کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ ہم جنسی کرتے ہو جو کہ حرام ہے بلکہ تم حد یعنی حلال سے حرام کی طرف سے تجاوز کرنے والے ہو (قوم کے) لوگوں نے جواب دیا اے لوط اگر تم ہمارے اوپر نکیر کرنے سے باز نہ آؤ گے تو یقیناً ہمارے شہر سے نکال دئیے جاؤ گے حضرت لوط (علیہ السلام) نے جواب دیا میں تمہاری حرکت سے سخت ناخوش ہوں، اے میرے پروردگار مجھے اور میرے اہل کو ان کے اعمال کے عذاب سے نجات دیجئے سو ہم نے ان کو اور ان کے تمام متعلقین کو نجات دی بجز ایک بڑھیا کے جو کہ ان کی بیوی تھی پیچھے رہ جانے والوں میں رہ گئی جس کو ہم نے ہلاک کردیا پھر ہم نے باقی اور سب کو (بھی) ہلاک کردیا پھر ہم نے ان پر ایک خاص قسم (یعنی) پتھروں کا مینہ برسایا من جملہ ہلاک کرنے کے طریقوں میں سے سو بہت برا مینہ تھا جو ان لوگوں پر برسا جن کو ڈرایا گیا تھا بلاشبہ اس میں عبرت ہے اور ان میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے، اور بیشک آپ کا رب بڑی قدرت والا رحمت والا ہے۔ تحقیق ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : اخوھم لوط (علیہ السلام) کا قوم لوط سے نہ تو نسبی تعلق تھا اور نہ دینی مشارکت اس لئے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادہ تھے اور بلاد مشرق میں بابل کے باشندہ تھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کرکے تشریف لائے تھے ابراہیم (علیہ السلام) نے شام میں مقام خلیل میں قیام فرمایا اور لوط (علیہ السلام) نے اس کے قریب یعنی ایک دن کی مسافت کی دوری پر سدوم میں قیام فرمایا، مگر حضرت لوط (علیہ السلام) نے اہل سدوم میں بود و باش اختیار کرلی تھی اور مصاہرت کا رشتہ بھی ان ہی لوگوں سے قائم ہوگیا تھا اسی وجہ سے حضرت لوط (علیہ السلام) کو ان کا بھائی کہا گیا ہے۔ قولہ : مَا خَلَقَ لَکُمْ ای اَحَلَّ لَکُمْ مِنْ اَزْواجِکُمْ یہ ما کا بیان ہے، شارح علام نے مِنْ اَزْوَاجِکُمْ کی تفسیر اَقْبَالِھنَّ سے کرکے دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اول یہ کہ مَا خَلَقَ لَکُمْ میں ما کی رعایت مقصود ہے، اگر ما کے بجائے مَنْ ہوتا تو اس کی تفسیر مِنْ اَزْوَاجِکُمْ کافی تھی اَقْبَالِھنَّ کی ضرورت نہیں تھی، دوم یہ کہ اَقْبَالھنَّ سے اشارہ کردیا کہ تمہاری بیبیوں کے تمہارے حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قبل ہی تمہارے لئے حلال ہے دبر حلال نہیں ہے، اس لئے کہ قبل ہی موضع حرث ہے نہ کہ دبر وہ تو موضع فرث ہے۔ قولہ : عَادون عادٍ کی جمع ہے جس کے معنی حد سے تجاوز کرنے والا یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا۔ قولہ : مِنَ القَالِینَ قالین القالی کی جمع ہے مادہ قَلٰوٌ یا قَلْیٌّ ہے اس کے معنی میں نفرت اور بیزاری کا مفہوم بھی شامل ہے، اصل معنی پھینکنے اور بھوننے کے ہیں، مِنَ القَالِینَ قالٍ محذوف کے متعلق ہو کر اِنَّ کی خبر ہے۔ قولہ : مِنْ عذابہٖ یہ مضاف محذوف کی طرف اشارہ ہے ای مِن عذاب مِمَّا یعملون اس لئے کہ ان کے جیسے عمل سے بچانے کا کوئی مطلب نہیں ہے اس لئے نبی تو اعمال قبیحہ سے محفوظ ہوتا ہی ہے، مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال بد کی پاداش میں جو عذاب نازل ہونے والا ہے اس سے مجھے اور میرے متعلقین کی حفاظت فرما۔ قولہ : اِلاَّ عجُوزًا لفظًا اہل میں شامل ہونے کی وجہ مستثنیٰ متصل ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ اہل ایمان میں سے نہیں تھی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے اہل حقیقت میں اہل ایمان ہی تھے اس اعتبار سے مستثنیٰ منقطع ہوگا، اِمرأتَہٗ عجُوزًا سے بدل ہے، حضرت لوط (علیہ السلام) کی کافرہ بیوی کا نام واعلہ تھا اور تفسیر روح البیان میں والھہ ملکھا ہے، لوط (علیہ السلام) کی ایک بیوی مومنہ بھی تھی، کافرہ بیوی چوں کہ قوم کے ہم خیال تھی اور ان کی بےحیائی سے راضی تھی اس لئے اس کو بھی قوم کے ساتھ ہلاک کردیا گیا قوم لوط پر زمین کو پلٹنے اور پتھروں کی بارش برسانے اور مختلف عذابوں کے ذریعہ ان کو ہلاک کردیا گیا۔ تفسیر و تشریح حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی میں نبی بنادیا گیا تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی، حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم سدوم اور عموریہ میں رہتی تھی، یہ بستیاں شام کے علاقہ میں تھیں۔ أتذرونَ ما خَلَقَ لکُمْ الخ ہم جنسی قوم لوط کی بری عادت تھی اس خباثت کی ابتداء اسی قوم سے ہوئی تھی اسی لئے اس فعل بد کو لواطت کہتے ہیں یعنی وہ فعل جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا، اب یہ بدفعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ کے بعض ممالک میں اس فعل کو قانوناً جائز تسلیم کرلیا گیا ہے یعنی ان کے یہاں اب یہ فعل قانوناً اور اخلاقاً کوئی جرم ہی نہیں ہے بلکہ مرد آپس میں ایک دوسرے سے باقاعدہ شادی کرسکتے ہیں (اَعاذنا اللہ منہ) قَالوا لئِنْ لَمْ تنتَہِ لوط (علیہ السلام) کے وعظ و نصیحت کے جواب میں ان کی قوم نے کہا تو بڑا پاکباز بنا پھرتا ہے اگر تو ہمارے کاموں پر نکیر کرنے سے باز نہ آیا تو تو یاد رکھ ہم تجھے اپنی بستی سے ناکل کریں گے، آج بھی بدی کا اس قدر زور اور غلبہ ہے کہ نیکی منہ چھپائے پھرتی ہے اور نیکوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے، ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے کہ سرراہ زنا کرنے والے سے یہ کہنے والا کہ ایک طرف راستہ سے ہٹ کر کرلو، بڑا نیک اور صالح سمجھا جائے گا۔
Top