Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 74
یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
يَّخْتَصُّ : وہ خاص کرلیتا ہے بِرَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت سے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِيْمِ : بڑا۔ بڑے
وہ اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے خاص کرلیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے
وَاللہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔ اس آیت کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ یہود کے بڑے بڑے علماء جب اپنے شاگروں کو یہ سکھاتے کہ دن چڑھے ایمان لاؤ اور دن اترتے مرتد ہوجاؤ تاکہ جو لوگ فی الواقع مسلمان ہیں وہ بھی مذمذب ہو کر مرتد ہوجائیں، تو ان شاگروں کو مزید تاکید کرتے تھے کہ دیکھو صرف ظاہراً مسلمان ہونا حقیقۃً اور واقعۃً مسلمان نہ ہوجانا بلکہ یہودی رہنا اور یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جیسا دین، جیسی وحی و شریعت اور جیسا علم و فضل تمہیں دیا گیا ہے ویسا ہی کسی اور کو بھی دیا جاسکتا ہے، یا تمہارے بجائے کوئی اور بھی حق پر ہے جو تمہارے خلاف اللہ کے نزدیک حجت قائم کرسکتا ہے، اور تمہیں غلط ٹھہرا سکتا ہے، اس معنی کی رو سے جملہ معترضہ کو چھوڑ کر عند ربکم تک کل کا کل یہود کا قول ہوگا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اے یہودیو ! تم حق کو دبانے اور مٹانے کی یہ ساری حرکتیں اور سازشیں اس لیے کر رہے ہو کہ ایک تمہیں اس بات کا غم ہے جیسا علم و فضل، وحی اور شریعت اور دین تمہیں دیا گیا تھا اب ویسا ہی علم و فضل اور دین کسی اور کو کیوں دے دیا گیا ؟ دوسرا تمہیں یہ اندیشہ ہے کہ اگر حق کی یہ دعوت پنپ گئی اور اس نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں تو نہ صرف یہ کہ تمہیں دنیا میں جو جاہ اور وقار حاصل ہے وہ جاتا رہے گا بلکہ تم نے جو حق چھپا رکھا ہے اس کا بھی پردہ فاش ہوجائے گا، اور اس پر یہ لوگ اللہ کے نزدیک بھی تمہارے خلاف حجت قائم کر بیٹھیں گے، حالانکہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دین و شریعت اللہ کا فضل ہے، اور یہ کسی کی میراث نہیں بلکہ وہ اپنا فضل جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ یہ فضل کسی کو دینا چاہیے ؟
Top