Tafseer-e-Jalalain - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیرلیا
ترجمہ :۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو ایمان سے پھر گیا یعنی مرتد ہوگیا جب ایمان پر اس کو عار دلائی گئی اور کہا مجھے اللہ کے عذاب سے خوف آیا، تو اس کے لئے عاردلانے والا اس بات کا ضامن ہوگیا کہ وہ اس کی طرف سے اللہ کے عذاب کو اپنے اوپر اٹھا لے گا، اگر وہ اپنے شرک کی طرف لوٹ آئے اور اسے مال میں سے اتنا دیدے، چناچہ یہ شخص مرتد ہوگیا اور اس شخص نے مقررہ مال میں سے قلیل حصہ دیدیا اور باقی مال کو روک لیا اکدی کدیۃ سے ماخوذ ہے، کدیہ چٹان کے مانند زمین کا وہ سخت حصہ جو کنواں کھودنے والے کھودنے سے روکدے جب کھودتا ہوا اس چٹان پر پہنچے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے ؟ کہ وہ جانتا ہے منجملہ اس کے یہ علم بھی ہے کہ دوسرا شخص اس کے آخرت کے عذاب کو اٹھا لے گا، نہیں (نہیں) اور وہ شخص ولید بن مغیرہ ہے یا اس کے علاوہ دوسرا کوئی شخص ہے اور جملہ اعندہ رایت بمعنی اخبرنی کا مفعول ثانی ہے، کیا اس کو اس کی خبر نہیں دی جو موسیٰ کے صحیفوں میں ہے تو رات کے سفر ناموں میں یا ان سے پہلے صحیفوں میں اور ابراہیم کے صحیفوں میں جس نے وہ حق پورا کیا جس کا اس کو حکم دیا گیا اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعہ جن کو اس نے پورا کیا اور الاتزر وازرۃ وزراخری الخ ماکا بیان ہے، یہ کہ کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ان مخففہ عن الثقلیہ ہے ای انہ لاتحملنفس ذنب غیرھا بالیقین کوئی نفس کسی نفس کے گناہوں کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ان مخففہ عن الثقلیہ ہے ای انہ لاتحمل نفس ذنب غیرھا بالیقین کوئی نفس کسی نفس کے گناہوں کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو صرف اسی عمل خیر کی سعی کا صلہ ملے گا جس کے لئے اس نے سعی کی ہوگی چناچہ اس کو غیر کی سعی کا صلہ نہ ملے گا، اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی، یعنی آخرت میں اپنی سعی کو دیکھ لے گا اور پھر اس کو پوری پوری جزاء دی جائے گی بولا جاتا ہے جزیتہ سعیہ وبسعیہ (یعنی میں نے اس کی سعی کا صلہ دیدیا) اور یہ کہ تیرے پروردگار کی طرف (ہر شئی) کی انتہا ہے یعنی مرنے کے بعد تیرے پروردگار کی طرف رجوع کرنا اور لوٹن اے، سو وہ ان کو جزاء دے گا اور ان اگر فتحہ کے ساتھ ہے تو (الا تزر وازرۃ وزر اخری) پر عطف ہوگا اور اگر کسرہ کے ساتھ ہے تو جملہ مستانفہ ہوگا اور یہی دونوں صورتیں مابعد میں بھی ہوں گی، (یعنی) وانہ ھو اضحک سے عادن الاولیٰ تک میں، ثانی صورت میں (آئندہ) جملوں کا مضمون (مذکورہ) صحیفوں میں نہیں ہوگا اور یہ کہ وہی جس کو چاہتا ہے ہنساتا ہے یعنی خوش کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رلاتا ہے یعنی رنجیدہ کرتا ہے اور یہ کہ وہی دنیا میں موت دیتا ہے اور زندہ کرتا ہے بعث کے لئے اور یہ کہ اس نے مذکر و مئونث دونوں صفیں نطفہ منی سے پیدا کیں جبکہ رحم میں پٹکایا جائے اور یہ کہ اس کے ذمہ میں ہے دوسری مرتبہ پیدا کرنا (نشاۃ) مد اور قصر کے ساتھ یعنی پہلی تخلیق کے بعد دوسری تخلیق فرمائی اور یہ کہ کفایت مال کے ذریعہ اس نے لوگوں کو مستغنی کیا اور مال عطا کیا، جس کو اس نے جمع کرلیا اور وہی شعریٰ کا رب ہے وہ ایک تارا ہے جو جوزا کے پیچھے ہوتا ہے، جس کی زمانہ جاہلیت میں پوجا کی جاتیھی اور اس نے عاد اولیٰ کو ہلاک کردیا اور ایک قرأت میں تنوین کو لام میں ادغام کر کے اور لام کی ضمہ کے ساتھ بغیر ہمزہ کے ہے، اور یہ قوم ہود ہے (عاد) اخریٰ صالح کی قوم ہے اور ثمود کو (ہلاک کردیا ) (ثمود) منصرف ہے باپ کا نام ہونے کی وجہ سے غیر، منصرف ہے قبیلہ کا نام ہونے کی صورت میں اور وہ عاد پر معطوف ہے تو ان میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا اور اس سے پہلے قوم نوح کو یعنی عاد وثمود سے پہلے ہم نے ان کو ہلاک کردیا اور بلاشہ وہ عاد وثمود سے زیادہ ظالم اور زیادہ سرکش تھے نوح (علیہ السلام) کے ان میں ساڑھے نو سال سو سال کر کے طویل زمانہ تک قیام کرنے کی وجہ سے اور وہ ایمان نہ لانے کے ساتھ ساتھ ان کو ایذا پہنچاتے اور ان کو مارتے اور الٹائی ہوئی بستیوں کو کہ وہ قوم لوط کی بستیاں تھیں پٹخ دیا یعنی انکو اوپر لیجا کر پلٹ کر زمین پر پٹخ دیا، جبرئیل (علیہ الصلوۃ والسلام) کو اس کا حکم دے کر، اس کے بعد ان بستیوں کو پتھروں سے ڈھانپ لیا (ما غشی کو) ہولناکی کو ظاہر کرنے کے لئے مبہم رکھا ہے اور سورة ہود میں ہے کہ ہم نے ان کی بستیوں کو تہ وبالا کردیا، اور ہم نے ان پر کنکر کے پتھر برسائے پس تو انسان اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں میں جو اس کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرتی ہیں شک کرتا ہے اور جھٹلاتا ہے (اے شخص) یہ محمد ﷺ پہلوں کی مانند ڈرانے والا ہے یعنی اس سے پہل یرسولوں جیسا رسول ہے تم لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے، جیسا کہ وہ اپنی قوموں کی طرف بھیجے گئے تھے، قریب آنے والی قریب آگئی یعنی قیامت قریب آگئی اور اللہ کے سوا اس کو کوئی ظاہر کرنے والا نہیں یعنی وہی اس کو کھول سکتا ہے اور ظاہر کرسکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول لایجلیھا لوقتھا الا ھو اس کے وقت کو اللہ ہی ظاہر کرے گا، کیا تم اس کلام قرآن سے تعجب کرتے ہو اور استہزاء کرتے ہو اور اس کے وعدوں اور وعیدوں کو سن کر روتے نہیں ہو اور تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو یعنی جو تم سے مطلوب ہے اس سے تم لہو اور غفلت میں پڑے ہوئے ہو سو تم اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور اس کی بندگی کرو اور بتوں کو سجدہ نہ کرو اور نہ ان کی بندگی کرو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : افرایت الذی تولی ہمزہ استفہام تقریر کے لئے ہے۔ قولہ : رأت بمعنی اخبرنی، الذی اسم موصول صلہ سے مل کر مفعول اول۔ قولہ : واعطی قلیلاً واکدی اعطی تولی پر معطوف ہے اور قلیلاً مصدر محذوف کی صفت ہے، ای اعلطیٰ اعطائً قلیلاً ، قلیلاً کو مفعول بہ قرار دینا بھی درست ہے۔ قولہ : اعندہ علم الغیب الخ ہمزہ استفہام انکاری ہے اور جملہ ہو کر رأیت کا مفعول ثانی ہے۔ قولہ : تولی ای اسلم ثم ارتد اکثر کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد لیدین بن مغیرہ ہے اور یہ آیت اسی کے بارے میں نازل ہوئی۔ قولہ : اعطاہ من مالہ اعطاہ کی ضمیر مستر تولی کے فاعل مستتر کی طرف راجع ہے اور ہ ضمیر بارز ضمن کے فاعل کی طرف راجع ہے، یعنی ضام نے الذی تولی پر دو چیزیں لازم کیں ایک یہ کہ ترک توحید کر کے شرک کی طرف لوٹ آئے، دوسرے یہ کہ ضمان کے عوض مال کی ایک مخصوص مقدار اس کو دے اور ضامن نے خود اپنے اوپر صرف ایک چیز لازم کی اور وہ آخرت میں اللہ کے عذاب کا ضمان ہے۔ قولہ : تمم ما امربہ حضرت ابراہیم نے ان احکام کو بخوشی پورا کیا جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا، مثلاً ذبح ولد، وقوع فی الذار، خصال فطرت، ہجرت وطن وغیرہ قولہ : وبیان مالاتزر وازرۃ وزر اخری الخ یعنی الاتزر الخ بما میں ما سے بدل واقع ہونے کی وجہ سے محلاً مجرور ہے اور مراد مفسر رحمتہ اللہ تعالیٰ کے قول الی آخرہ سے فبای آلاء وربک تتماری تک ہے۔ قولہ : بالفتح عطفاً و قری بالکسر استینافاً یعنی ان الی ربک المنتھی کے ان میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ الا تزر وازرۃ وزر اخری پر عطف کیا جائے اور ان کو منصوب پڑھا جائے، اس صورت میں فبای آلاء ربک تتماری تک ماکابیان ہوگا اور آخر تک کا پورا مضمون صحف موسیٰ و صحف ابراہیم میں ہوگا اور اگر ان کو بالکسر پڑھا جائے تو اس صورت میں وان الی ربک المنتھی سے آخر تک جملہ مستانفہ ہوگا اور آخر تک مضمون صحف موسیٰ اور صحف ابراہیم میں نہ ہوگا، بلکہ صرف پہلے تین (1) الا تزر وازرۃ وزر اخری (2) ان لیس للانسان الا ماسعی (3) ان سعیہ سوف یری ثم یجزاہ الجزاء الاوفی کا مضمون صحف موسیٰ و صحف ابراہیم میں ہوگا۔ کہ الاتزر وازرۃ وزر اخریٰ پر عطف کیا جائے اور ان کو منصوب پڑھا جائے، اس صورت میں فبای الآء ربک تتماری تک ما کا بیان ہوگا اور آخر تک کا پورا مضمون صحف موسیٰ و صحف ابراہیم میں ہوگا اور اگر ان کو بالکسر پڑھا جائے تو اس صورت میں وان الی ربک المنتھی سے آخر تک جملہ مستانفہ ہوگا اور آخر تک مضمون صحف موسیٰ اور صحفت ابراہیم میں نہ ہوگا، بلکہ صرف پہلے تین یعنی (1) الاتزر وازرۃ وزراخری (2) ان لیس للانسان الا ماسعی (3) ان سعیہ سوف یری ثم یجزاہ الجزاء الاوفیٰ کا مضمون صحف موسٰ و صحف ابراہیم میں ہوگا۔ قولہ :۔ وکذا مابعدھا مابعد سے مراد وانہ اضحک وابکی سے لے کر وانہ خلق الزوجین الذکر والانثیٰ تک ہے۔ ملحوظہ : بما فی صحف موسیٰ کے ما کے بیان میں ان گیارہ جگہ واقع ہوا ہے، یہ اس صورت میں ہے جبکہ ان الی ربک المنتھی کا الا تزر وازرۃ الخ پر عطف کرتے ہوئے ان کو مفتوح پڑھا جائے ورنہ تو صرف اول تین جگہ ان مفتوجہ ہوگا اور باقی آٹھ جگہ ان مک سورة ہوگا۔ قولہ :۔ واقنی اقنائٌ سے ماضی واحد مذکر غائب، اس نے جمع کیا ای اعطی المال الذی اتخذ قنیۃ، قنیۃ وہ مال جس کو ذخیرہ کیا جائے اور خرچ کرنے کا ارادہ نہ ہو (اعراب القرآن، درویش) اقنی کے اہل لغت اور مفسرین نے مختلف معنی بیان کئے ہیں قتادہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس نے اس کے معنی ارضی (راضی کردیا) بتائے ہیں، عکرمہ نے ابن عباس سے اس کے معنی قنع بتائے ہیں (مطمئن کردیا) امام رازی فرماتے ہیں انسان کی ضرورت سے زائد جو کچھ اس کو دیا جائے وہ اقناء ہے، ابوعبید اور دیگر متعدد اہل لغت کا قول ہے کہ اقنی، قنیۃ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں محفوظ اور باقی رہنے والا مال، مثلاً مکان، اراضی، باغات وغیرہ (لغات القرآن) ابن زید، ابن کیسان اور اخفش نے اقنی کے معنی افقر کے کئے ہیں، یعنی اس نے فقیر بنایا، ابن جریر نے یہی معنی مراد لئے ہیں اور ہمزہ افعال کو سلب ماخذ کے لئے لیا ہے جیسے اش کی سلب شکایت کے معنی میں ہے، سیاق وسباق سے بھی یہ معنی مناسب معلوم ہوتے ہیں اس لئے کہ سابق سے متقابل چیزوں کا ذکر چلا آرہا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس نے جس کو چاہا غنی کیا اور جس کو چاہا فقیر کیا۔ قولہ :۔ ھو رب الشعریٰ شعریٰ آسمان کا روشن ترین تازہ ہے، اس کو ” کلب اکبر “ بھی کہتے ہیں، اس کے اور بھی مختلف نام ہیں انگریزی میں اس کو (Dog Star) کہتے ہیں، عرب میں اس کی پوجا ہوتیھی، قریش کا قبیلہ بنو خزاعہ خاص طور پر اس کی پوجا کرتا تھا کہتے ہیں کہ یہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے مگر زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ سال نوری سے بھی زیادہ ہے اس لئے یہ سورج سے چھوٹا اور کم روشن نظر آتا ہے، روشنی کی رفتار فی سیکنڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل ہے (فلکیات جدیدہ) اس کی عبادت کی ابتداء ابوکبشہ نے کی تھی جو کہ سادات قریش میں تھا، ابوکبشہ آپ ﷺ کی امہات کی جانب سے جد اعلیٰ ہے، اسی وجہ سے قریش آپ کو ابن ابی کبشہ کہا کرتے تھے، اس مناسبت سے کہ آنحضرت ﷺ نے جب عرب کے دین کے خلاف دعوت دینی شروع کی تو لوگوں نے آپ کو ابن ابی کبشہ کہنا شروع کردیا یعنی جس طرح ابو کبشہ نے اپنے زمانہ میں بت پرستی کی مخالفت کر کے ستارہ پرستی شروع کی گویا کہ اسی طرح آپ نے بت پرستی کی مخالفت کرتے ہوئے خدا پرستی شروع کی، یہ شدید گرمی کے موسم میں جوزاء کے بعد طلوع ہوتا ہے اس کو شعریٰ یمانی بھی کہتے ہیں، اس کے مقابل ایک شعریٰ شامی ہے وہ بھی روشن ترین ستاروں میں سے ہے، اس کو ” کلب اصغر “ کہتے ہیں۔ قولہ :۔ المئوتفکۃ ایتفاک (افتعال) سے اسم فاعل واحد مئونث (جمع) المئوتفکات الٹی ہوئی (بستیاں) مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں ہیں جو موجودہ بحیرہ مردار کے ساحل پر آباد تھیں جن کا سب سے بڑا شہر سندوم یا سدوم تھا، حضرت لوط (علیہ السلام) کا حکم نہ ماننے اور ظلم ولواطت سے باز نہ آنے کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے الٹ دیا تھا اور کنکر پتھروں کی بارش کر کے نیست و نابود کردیا تھا۔ قولہ :۔ وفی ھود فجعلنا، صحیح یہ تھا کہ وفی ھود فلما جاء امرنا جعلنا عالیھا سافلھا فرماتے، یا پھر وفی الحجر فجعلنا عالیھا سافلھا فرماتے۔ قولہ :۔ تشک تتماری کی تفسیر تشک سے کر کے اشارہ کردیا کہ تفاعل تعدد فی الفاعل سے خالی ہے۔ قولہ :۔ نفس مفسر علام نے نفس محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ کاشفہ، موصوف محذوف کی صفت ہے۔ قولہ :۔ سامدون، السمود، اللھو (ن) وقیل الاعراض و قیل الاستکبار، وقیل ھو الغناء (گانا) ۔ تفسیر و تشریح شان نزول : افرایت الذی تولی مجاہد اور ابن زید اور مقاتل رحمتہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ مذکوروہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی، اور ضحاک نے کہا ہے کہ نضر بن الحارث کے بارے میں نازل ہوئی اور محمد بن کعب قرظی نے کہا کہ ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی، اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ واقعہ : واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اس کا رجحان اسلام کی طرف ہوگیا تھا اور آنحضرت ﷺ سے بھی ربط ضبط اور تعلقات رکھتا تھا، مقاتل نے کہا کہ ولید نے قرآن کی تعریف کی تھی، مگر اس کے کسی دوست نے اس کو عار دلائی اور ملامت کرتے ہوئے کہا کہ تو نے اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑ دیا ؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے اللہ کے عذاب سے ڈر لگتا ہے، اس ساتھی نے کہا تو مجھے کچھ دیدے تو میں آخرت کا تیرا عذاب اپنے سر لے لوں گا، تو عذاب سے بچ جائے گا، چناچہ ولید نے اس کی یہ بات مان لی اور خدا کی راہ پر آتے آتے رہ گیا اور اس کو طے شدہ مال کا کچھ حصہ دیدیا، اس نے مزید مطالبہ کیا تو کشاکشی کے بعد کچھ اور بھی دیدیا، مگر مزید دینے سے انکار کردیا، اسی واقعہ کی طرف آیت میں اشارہ ہے، اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود کفار مکہ کو یہ بتانا تھا کہ آخرت سے بےفکری اور دین کی حقیقت سے بیخبر ی نے ان کو کیسی جہالتوں اور حماقتوں میں مبتلا کردیا تھا۔
Top