Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 28
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّمَآ : درحقیقت اَمْوَالُكُمْ : تمہارے مال وَاَوْلَادُكُمْ : اور تمہاری اولاد فِتْنَةٌ : بڑی آزمائش وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗٓ : پاس اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے۔ اور یہ کہ خدا کے پاس (نیکیوں) کا بڑا ثواب ہے۔
وَاعلمو انما اموالکم واولا دکم فتنة، انسان کے اخلاص میں جو چیز عام طور پر خلل ڈالتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت غداری اور خیانت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے اس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے اسی لئے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد جس کی محبت میں گرفتار ہو کر تم عموماً راستی سے ہٹ جاتے ہو دواصل یہ دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لئے سامان آزمائش ہے جسے تم بیٹا یا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں امتحان کا ایک پر چہ ہے اور جسے تم جائداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پر چہ ہے، یہ چیزیں تمہارے حوالہ کی ہی اس لئے گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے تمہیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق و حدود کا لحاظ کرتے ہو ؟ شان نزول : مذکورہ آیت کا مضمون عام ہے سب مسلمانوں کو شامل ہے، مگر اس کے نزول کا واقعہ اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ابو لبابہ ؓ ابن منذر کا قصہ ہے جو غزوہ بنی قریظہ میں پیش آیا، آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ نے بنو قریظہ کے قلعہ کا اکیس روز تک محاصرہ جاری رکھا جس سے عاجز ہو کر انہوں نے وطن چھوڑ کر ملک شام چلے جانے کی درخواست کی آپ نے ان کی شرارتوں کے پیش نظر اس کو قبول نہیں فرمایا بلکہ یہ اشاد فرمایا کہ صلح کی صرف یہ صورت ہے کہ سعد بن معاذ ؓ تمہارے بارے میں جو فیصلہ کریں اس پر راضی ہوجاؤ، بنو قریظہ نے درخواست کی کہ سعد بن معاذ کے بجائے ابو لبابہ کو یہ کام سپرد کیا جائے، کیونکہ ابولبابہ کے اہل و عیال اور جائداد بنی قریظہ میں تھی بنو قریظہ کو ان سے یہ توقع تھی کہ وہ ان کے بارے میں رعایت کریں گے، آپ نے ان کی درخواست پر ابو لبابہ کو بھیج دیا، بنی قریظہ کے مردوزن ان کے گرد جمع ہو کر رونے لگے اور یہ پوچھا کہ اگر ہم رسول اللہ ﷺ کے حکم پر قلعہ سے اتر آئیں تو کیا ہمارے معاملہ میں کچھ نرمی فرمائیں گے، ابولبابہ کو معلوم تھا کہ ان کے معاملہ میں نرمی برتنے کی رائے نہیں ہے، کچھ تو ان لوگوں کی گریہ وزاری کی وجہ سے اور کچھ اپنے اہل و عیال کی محبت سے متاثر ہو کر اپنے گلے پر تلوار کی طرح ہاتھ پھیر کر اشارةً بتلادیا کہ ذبح کئے جاؤ گے گویا اس طرح آنحضرت ﷺ کا راز فاش کردیا۔ حضرت ابولبابہ ؓ کا مسجد میں خود کو مسجد کے ستون سے باندھنا : مال اور اولا کی محبت میں یہ کام کر تو گزرے مگر فوراً ہی تنبہ ہوا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خیانت کی، جب وہاں سے واپس ہوئے تو اس درجہ ندامت سوار ہوئی کہ آپ ﷺ کی خدمت میں لوٹنے کے بجائے سیدھے مسجد میں پہنچے اور مسجد کے ایک ستون کے ساتھ خود کو باندھ دیا اور قسم کھائی کہ جب تک میری توبہ قبول نہ ہوگی میں اسی طرح بندھا رہوں گا، چاہے اس حالت میں موت ہی آجائے چناچہ سات روز تک نماز اور حاجت ضروریہ کے علاوہ ستون سے بندھے رہے، کھانا پینا بھی ترک کردیا یہاں تک کہ غشی طاری ہوجاتی تھی، رسول ﷺ کو اول جب اس کی اطلاع ملی تو فرمایا کہ اگر وہ اول ہی میرے پاس آجاتے تو میں اس کے لئے استغفار کرتا اور توبہ قبول ہوجاتی اب جبکہ وہ یہ کام کر گذرے تو اب قبولیت توبہ نازل ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا، چناچہ سات روز کے بعد آخر شب میں آپ پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، بعض حضرات نے ان کو خوشخبری سنا کر کھولنا چاہا مگر ابو لبابہ ؓ نے کہا جب تک خود آنحضرت ﷺ مجھے اپنے دست مبارک سے نہ کھولیں گے میں کھلنا پسند نہ کروں گا چناچہ آپ جب صبح کی نماز کے وقت مسجد میں تشریف لائے تو اپنے دست مبارک سے ان کو کھولا آیت مذکورہ میں جو خیانت کرنے اور مال واولاد کی محبت سے مغلوب ہونے کی ممانعت کا ذکر آیا ہے اس کا اصل سبب یہ واقعہ ہے۔ (واللہ اعلم) (معارف)
Top