Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 100
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
آیت نمبر 100 تا 110 ترجمہ : وہ مہاجر وانصار جنہوں نے (دعوت ایمان کی طرف) سب سے پہلے (لبیک) کہنے میں سبقت کی اور وہ، وہ لوگ ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے یا جمیع صحابہ مراد ہیں نیز وہ لوگ جو عمل میں راستبازی کے ساتھ تا قیامت ان کے نقش قدم پر چلیں گے، اللہ ان کی طاعت سے راضی ہوا اور وہ اللہ کے اجر سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لئے ایسے باغات مہیا کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہوں گی، اور ایک قراءت میں مِنْ کی زیادتی کے ساتھ ہے، اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم الشان کامیابی ہے، اے اہل مدینہ تمہارے گردوپیش جو بدّو رہتے ہیں ان میں (بہت سے) منافق ہیں جیسا کہ اسلم اور اشجع، اور غفار، اور مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں، جو نفاق میں مشاق اور طاق ہیں تم انہیں نہیں جانتے یہ نبی ﷺ کو خطاب ہے ہم ان کو جانتے ہیں ہم عنقریب ان کو رسوائی یا قتل کا دنیا میں اور عذاب قبر کا دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑی سزا کے لئے آخرت میں لائے جائیں گے وہ آگ ہے، اور کچھ لوگ دوسرے بھی ہیں جنہوں نے پیچھے رہ جانے کے قصور کا اعتراف کرلیا ہے (آخرون) مبتداء ہے (اعترفوا بذنوبھم) صفت ہے (خلطوا عَمَلا صالحًا) خبر ہے، ان کا عمل مخلوط ہے کچھ نیک ہے اور وہ (عمل نیک) اس سے پہلے ان کا جہاد میں شریک ہونا ہے اور اپنے قصور کا اعتراف وغیرہ ہے اور کچھ بد اور وہ انکا (جہاد سے) پیچھے رہ جانا ہے، اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا اور بڑی رحمت والا ہے، (یہ آیت) ابو لبابہ اور ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے خود کو مسجد (نبوی) کے ستونوں سے باندھ لیا تھا جب ان کو اس کی اطلاع ہوئی کہ یہ آیت پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی، اور انہوں نے قسم کھالی کہ ان کو سوائے نبی ﷺ کے کوئی اور نہ کھولے، چناچہ جب آیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے ان کو کھولا، اور جب (خُذْ مِن اموالھم الآیة) نازل ہوئی، کہ آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے آپ اس کے ذریعہ ان کو ان کے گناہوں سے پاک صاف کردیں گے چناچہ آپ ﷺ نے ان کے اموال میں سے ایک تہائی لے لیا اور اس کو صدقہ کردیا، اور آپ ان کے لئے دعا کیجئے، یقینا آپ کی دعاء ان کے لئے (باعث) تسکین ہے (یعنی) باعث رحمت ہے، اور ان کی توبہ کی قبولیت کے لئے اطمینان ہے اللہ خوب سننے والا ہے خوب جاننے والا ہے کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات کو قبول کرتا ہے ؟ اور بلاشبہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کر کے ان پر بڑا رحم کرنے والا ہے، اور استفہام تقریر کے لئے اور اس سے مقصد ان کو توبہ اور صدقات پر آمادہ کرنا ہے اے نبی ! تم ان (منافقوں) سے یا عام لوگوں سے کہو کہ تم جو چاہو عمل کرو اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ طرز عمل اب تمہارا کیا رہتا ہے ؟ اور بعث کے ذریعہ تم عالم الغیب والشہادہ یعنی اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے تو وہ تم کو بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، اور وہ تمہارے عمل کی جزاء دے گا، اور متخلفین میں سے کچھ لوگ اور بھی ہیں جن کا معاملہ خدا کا حکم آنے تک ملتوی ہے ان کے بارے میں وہ جو چاہے حکم دے (مُرْجئون) ہمزہ اور ترک ہمزہ دونوں طرح ہے یعنی ان کی توبہ مؤخر کردی گئی ہے یا تو بغیر توبہ کے موت دے کر ان کو عذاب دے گا یا ان کی توبہ قبول کرے گا اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں خوب جاننے والا ہے اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں باحکمت ہے اور وہ تین ہیں جن کا ذکر آئندہ آتا ہے مرارہ بن ربیع اور کعب بن مالک، اور ہلال بن امیہ (یہ تینوں حضرات) سستی اور راحت پسندی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے نہ کہ نفاق کی وجہ سے، اور نہ دوسروں کے مانند انہوں نے نبی ﷺ کے سامنے (جھوٹے) عذر پیش کئے جس کی وجہ سے ان کا معاملہ پچاس راتوں تک معلق رہا، اور لوگوں نے بھی ان سے قطع تعلق کرلیا (بائیکاٹ کردیا) یہاں تک کہ بعد میں ان کی توبہ کی (قبولیت) نازل ہوئی اور ان میں کچھ لوگ اور ہیں وہ بارہ منافقین ہیں جنہوں نے اہل مسجد قباء کو نقصان پہنچانے اور کفر کرنے کے لئے ایک مسجد بنائی، اس لئے کہ منافقوں نے وہ مسجد ابو عامر راہب کے کہنے سے بنائی تھی تاکہ اس کے لئے جائے پناہ ہو اور اس کی طرف آنے والا اس میں قیام کرے اور وہ نبی ﷺ سے لڑنے کے لئے قیصر روم کا لشکر لانے کے لئے چلا گیا تھا، اور مومنوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لئے کہ جو ان میں سے مسجد قباء میں نماز پڑھتے ہیں اپنی کچھ نمازیں ان کی مسجد (ضرار) میں پڑھیں (اس طرح مومنین کی جمیعت منتشر ہوجائے) اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس مسجد کے بنانے سے پہلے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ برسر پیکار رہا ہے اور یہ شخص وہی ابو عامر مذکور ہے اور وہ ضرور قسم کھا کر کہیں گے کہ ہمارا مقصد تو صرف بھلائی ہے کہ وہ مسکین کے ساتھ بارش اور گرمی میں سہولت کرنا ہے اور مسلمانوں پر وسعت کرنا ہے، مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں قطعی جھوٹے ہیں اور ان لوگوں نے نبی ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ اس مسجد میں نماز پڑھ دیں، تو یہ آیت نازل ہوئی، آپ اس میں ہرگز نماز نہ پڑھیں، چناچہ آپ نے کچھ لوگوں کو بھیجا جنہوں نے اس کو منہدم کردیا اور نذر آتش کردیا اور اس جگہ کو کوڑی بنادی تاکہ اس میں مردار ڈالے جائیں جو مسجد اول روز سے تقوے پر بنائی گئی ہے اس روز اس کی بنیاد رکھی گئی جس روز آپ ﷺ دار ہجرت میں نزول فرما ہوئے، وہ مسجد قباء ہے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے وہ اس کے لئے زیادہ مناسب ہے کہ آپ اس میں نماز پڑھیں، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں یعنی ان کو اجر عطا کرے گا، اور اس میں تاء کا طاء میں ادغام ہے اصل میں، ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں عویمر بن ساعدہ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ (انصار) کے پاس مسجد قباء میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے قصہ میں تم لوگوں کی طہارت کی تعریف فرمائی ہے تو بتائو وہ طہارت کیا ہے جس کو تم اختیار کرتے ہو ؟ تو انہوں نے عرض کیا واللہ یا رسول اللہ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے (نہیں کرتے) کہ ہمارے پڑوسی کچھ یہود تھے کہ وہ پانی سے استنجا کیا کرتے تھے تو ہم بھی ان کی طرح کرنے لگے اور ایک حدیث میں جس کو بزار نے روایت کیا ہے (انصار) نے کہا کہ ہم پتھر وغیرہ سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے استنجا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا وہ بات یہی ہے، تم اس کو لازم پکڑے رہو، پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے کہ جس نے اپنی بنیاد خوف خدا اور اس کی رضا مندی کی امید پر رکھی یا وہ کہ جس نے اپنی بنیادندی کے ایسے کھوکھلے کنارہ پر رکھی جو گرنے ہی والا ہے (جُرُف) راء کے ضمہ اور سکون کے ساتھ ہے بمعنی کنارہ، تو وہ کنارہ اپنے بانی کو لے کر نار جہنم میں گرپڑا یہ تقوے پر بناء کی تمثیل ہے اپنے انجام کے اعتبار سے اور استفہام تقریر کے لئے ہے یعنی پہلے شخص بہتر ہے، اور وہ مسجد قباء کی مثال ہے اور دوسری مثال مسجد ِضرار کی ہے اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ہمیشہ ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ان کے دلوں میں کھنکتی رہے گی (شبہ پیدا کرتی رہے گی) سوائے اس کے کہ ان کے قلوب ہی پارہ پارہ ہوجائیں بایں طور کہ وہ مرجائیں، اللہ اپنی مخلوق کے حالات سے بخوبی واقف اور ان کے معاملات میں حکمت والا ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : والسَّابِقونَ الْاوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ (الآیة) اس جملہ کی ترکیب جو راجح اور ظاہر ہے وہ یہ ہے، السَّابقون موصوف الاولون صفت دونوں مل کر مبتداء من المھاجرین والانصار حال، والذین معطوف السَّابقون پر، اتبعوھم، الذین کا صلہ اور باحسان محذوف سے متعلق ہو کر حال، رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ، جملہ ہو کر اَلسَّابقونَ مبتداء کی خبر۔ اس کے علاوہ بعض حضرات نے دو ترکیبیں اور کی ہیں مگر صاحب اعراب القرآن نے ان کو ضعیف بلکہ غلط کہا ہے۔ پہلی : السابقون مبتداء اور اَلْآوّلونَ اس کی خبر۔ دوسری : السابقون مبتداء اور من المھاجرین والانصار اس کی خبر۔ قولہ : مَنْ شَھدَ بَدْرًا اَوْ جمیع الصحابة، اس عبارت میں سابقین اولین میں دو قولوں کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : وفی قرائہ بزیادة مِنْ ای تجری مِنْ تحتھا الانھٰرُ ۔ قولہ : مَرَدوا ماضی جمع مذکر غائب ای تمرّنوا عَلَیہ، وہ مشتاق ہوگئے، ہر خیر سے خالی ہوگئے، اسی سے الشیطان المارد ہے، یعنی برائی پر ڈٹ گیا قولہ : قوم لفظ قوم مقدر مان کر اس سوال کا جواب دیا ہے کہ مبتداء کے لئے ذات ہونا ضروری ہے حالانکہ آخَرُوْنَ ذات نہیں بلکہ وصف ہے قوم محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ الآخرون صفت ہے اور اس کا موصوف جو کہ مبتداء ہے قوم محذوف ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : نعتہ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ قوم آخرون نکرہ ہے اور نکرہ کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے اس کا جواب دیا کہ اعترفوا بذنوبھمْ ، قوم کی صفت ہے جس کی وجہ سے قوم نکرہ نہیں رہا لہٰذا مبتداء واقع ہونا درست ہے۔ قولہ : سواری یہ سَارِیة کی جمع ہے ستون کو کہتے ہیں۔ قولہ : صدقة تطھرھم، تُطَھِّرُھم، صَدَقَة کی صفت ہے تُطَھّر کی ضمر صدقہ کی طرف راجع ہے تطَھّر مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور اگر تطھر حاضر کا صیغہ ہو اور مخاطب آپ ﷺ ہوں تو بھا کا تعلق تَطَھِّرْ اور تُزَکِّیْھِمْ دونوں سے ہوگا، ای تُطَھِّرھم بھا وتذکیھم بھا۔ قولہ : مرجئونَ اس میں دوسری قراءت بغیر ہمزہ کے ہے، ای مُرْجَوْنَ ای مؤخرون وموقوفون، مُرْجَوْن اِرْجاء سے اسم مفعول جمع مذکر غائب، وہ لوگ جن کا معاملہ ٹال دیا گیا ہو، یا معلق کردیا گیا ہو۔ قولہ : ابی عامر یہ حضرت حنظلہ ؓ غسیل ملائکہ کے والد ہیں انہوں نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا، جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو اس نے آپ ﷺ کے ساتھ مناظرہ کیا تھا۔ قولہ : مَعْقلاً ، ٹھکانہ، جائے پناہ۔ قولہ : الفِعلة اس میں اشارہ ہے کہ الحسنیٰ صفت ہے اور اس کا موصوف الفعلة یا الخصلة وغیرہ محذوف ہے۔ قولہ : بالمسکین، بعض نسخوں میں بالمسکین کے بجائے بالمسلمین ہے جو کہ زیادہ مناسب ہے۔ قولہ : شفا، طرف، کنارہ۔ قولہ : جُرُفٍ ، کنویں کا کچا کنارہ، ندی وغیرہ کا کنارہ جس کو پانی نے خالی کردیا ہو۔ قولہ : ھارٍ ، اسم فاعل۔ گرنے کے قریب، مادہ ھُوْر، ھارٍ کی اصل ھَاوِر یا ھَائر تھی ھاور کے واو کو یا ھائر کے ہمزہ کو قلب مکانی کر کے راء کے بعد کردیا ھاور یا ھائِر ہوگیا پھر وائو اور ہمزہ کو یاء سے بدل کر ھَاوِیْر کردیا حالت جر کی وجہ سے یاء ساقط ہوگئی، بعض حضرات نے کہا ہے کہ ھَاوِر کے وائو اور ھائر کے ہمزہ کو بغیر قلب مکانی کے تخفیفاً حذف کردیا۔ قولہ : مع بانیہ اس میں اشارہ ہے کہ بہ میں باء بمعنی مع ہے نہ کہ سببیہ۔ قولہ : خیر، یہ مَنْ کی خبر ہے۔ قولہ : تمثیل للبناء بما یؤل الیہ، الیہ کا مرجع سقوط ہے، یہ اس بناء کی تمثیل ہے جو تقوے کی ضد پر بنائی گئی ہو، یعنی مشبہ بہ وہ عمارت ہے جو ایسی جگہ بنائی گی ہو کہ جو گرنے اور دھسنے کے قریب ہو اور مشبہ دینی احکام و اعمال کو کفر ونفاق پر مرتب کرنا ہے۔ قولہ : ریبة ای سبب ریْبةٍ ۔ تفسیر وتشریح وَالسَّابقُوْنَ الْاَوَّلوْنَ (الاْیة) سابق میں بدوی عربوں کا ذکر تھا یہاں شہری عربوں کا ذکر ہے اس میں اختلاف ہے کہ سابقین سے کوئی لوگ مراد ہیں، عبد اللہ بن عباس ؓ کے شاگردوں میں سے جہاں مجاہد کا قول نہ ہو تو سعید بن مسیّب کے قول کے مطابق رفع اختلاف کیا جاتا ہے، سعید بن مسیّب کے قول کے مطابق سابقین میں مہاجرین وانصار میں سے وہ صحابہ ہیں جو بیت المقدس اور بیت اللہ دونوں قبلوں کی طرف آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک تھے۔ عطاء بن ابی رباح کے قول کے مطابق وہ صحابہ سابقین الاولین میں داخل ہیں جو غزوہ بدر سے پہلے ایمان لائے اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے، دونوں قبلوں کی طرف نماز اور غزوہ بدر چونکہ ایک ہی سال 2 ھ کے واقعے ہیں اس لئے سعید بن مسیّب اور عطاء بن ابی رباح کے قول میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا، لیکن سعید بن مسیّب عطاء بن ابی رباح سے زیادہ ثقہ ہیں اس لئے اس تفسیر میں ان ہی کا قول راجح ہوگا، مطلب یہ ہے کہ اس قول کی بناء پر وَالَّذینَ اتبعوھم باحسان سے دونوں صورتوں میں باقی صحابہ مراد ہوں گے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرچہ صحابہ کے آپس میں درجات مختلف ہیں مگر اللہ تعالیٰ تمام صحابہ سے اور تمام صحابہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، اور ان کے لئے جنت کا وعدہ ہے اور خدا کا وعدہ سچ ہے لہٰذا یہ لوگ قطعی جنتی ہیں، جس کے دل میں ان کی طرف سے بغض ہو یا ان میں سے کسی کو برا سمجھے اس کا ایمان باقی نہیں رہا، اس تفسیر کے مطابق اس آیت میں صرف صحابہ کا ذکر ہے، صحیح بخاری میں ابو سعید خدری کی روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا '' میرے صحابہ کے حق میں کوئی شخص کسی طرح کی کوئی بری بات منہ سے نہ نکالے میرے صحابہ کا بڑا درجہ ہے ان کا تھوڑا عمل دوسروں کے زیادہ عمل سے بہتر ہے ''۔ صحابہ مقتدایانِ امت ہیں : محققین اہل سنت نے یہیں سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ اصحاب نبی مقتد ایان امت ہیں، مشاجرات صحابہ کی جو روایتیں ہم تک پہنچی ہیں ان کی وجہ سے ہمارے لئے یہ روا نہیں کہ ہم ایک کی اتباع کے زور میں دوسرے کی عیب جوئی اور نکتہ چینی کرنے لگیں، امیر المومنین حضرت علی تو اجل صحابہ اور خلفاء راشدین میں سے ہیں امیر معاویہ جو کہ یہ فضیلت نہیں رکھتے ہیں وہ بھی بہرحال صحابی ہیں ان کے حق میں بھی زبان طعن کھولنا درست نہیں۔ وممن حولکم من الاعراب (الآیة) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت رسول خدا ﷺ نے جمعہ کا خطبہ پڑھتے پڑھتے چار پانچ آدمیوں سے فرمایا کہ تم منافق ہو نکل جائو، حضرت عمر ؓ مسجد کی طرف آرہے تھے ان لوگوں کو مسجد سے آتے دیکھ کر سمجھے کہ شاید نماز ہوچکی اور چھپ گئے ان لوگوں نے بھی حضرت عمر ؓ کو دیکھ لیا وہ بھی چھپ گئے تاکہ ان کا حال حضرت عمر ؓ پر ظاہر نہ ہو، جب حضرت عمر مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ ابھی نماز نہیں ہوئی، ایک شخص بولا کہ آج تو منافق بڑے ذلیل ہوئے خدا نے ان کو مسجد سے نکلوا دیا، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک عذاب تو یہی ہے کہ مسلمانوں کی مسجد سے یہ لوگ نکالے گئے اور بھری محفل میں رسوائی ہوئی اور دوسرا عذاب قبر کا اور پھر آخرت کا۔ مدینہ کے اطراف ومضافات میں قبیلہ جہینہ، مزینہ، اسلم، اشجع، اور غفار رہتے تھے ان میں بھی کچھ لوگ منافق تھے اور مدینہ میں عبد اللہ بن ابی اور اس کی جماعت کے لوگ منافق تھے، کچھ لوگوں کے نفاق کا علم تو آپ ﷺ کو بذریعہ وحی ہوگیا تھا اور کچھ کا نفاق کی علامات کے ذریعہ آپ کو علم ہوگیا تھا، مگر بعض اپنے نفاق کو چھپانے میں بڑے مشتاق تھے کہ نبی ﷺ کو بھی کمال درجہ فراست اور دانشمندی کے باوجود ان کے نفاق کا علم نہ ہوسکا، اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا '' لا تعلمھم نحن نعلمھم ''۔ اس آیت میں آپ ﷺ کے علم غیب کلی کی بصراحت نفی ہے : اس آیت میں آپ ﷺ کے علم غیب کلی کی صریح نفی موجود ہے جس کا دعویٰ ہمارے زمانہ میں بعض عالم نما جاہلوں نے کیا ہے۔ وَآخرونَ اعْترفوا بذنوبھم، تفسیر ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابو الشیخ میں جو شان نزول ان آیتوں کا بیان کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس گروہ صحابہ نے اپنے قصور کا اعتراف کر کے آپ ﷺ کے تبوک سے مدینہ آنے سے پہلے خود کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا تھا اور قسم کھائی تھی کہ جب تک ان کی توبہ قبول نہ ہوگی وہ نہ کھلیں گے، جب ان کی توبہ قبول ہوگئی تو انہوں نے اپنا تمام مال آپ ﷺ کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کردیا کہ یا رسول اللہ جس مال کی محبت نے ہم کو غزوہ کی شرکت سے باز رکھا آپ اس کو قبول فرمائیں یہ راہ خدا میں صدقہ ہے آپ نے پورا مال قبول کرنے سے انکار کردیا البتہ ایک تہائی مال قبول فرما صدقہ کردیا، پونے دو ماہ بعد ان حضرات کی توبہ قبول ہوئی۔ محدثین نے ان آیات کے شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ غیر منافق سے غیر مخلصانہ عمل کے صدور کے باوجود کس کو محض گنہگار مومن سمجھا جائے ؟ تو اس کے لئے قرآن کی سابقہ آیات میں تین معیار بتائے گئے ہیں۔ (1) اپنے قصور کے لئے اعذارلنگ اور تاویلات وتوجیہات پیش نہیں کرے گا، بلکہ جو قصور سرزد ہوا ہے اسے صاف صاف اور سیدھی طرح مان لے گا۔ (2) اس کے سابق طرز عمل کو نگاہ ڈال کر دیکھ جائے گا کہ یہ عدم اخلاص کا عادی مجرم تو نہیں ہے اگر پہلے وہ جماعت کا ایک صالح فرد رہا ہے اور اس کے کارنامہ زندگی میں مخلصانہ خدمات، ایثار و قربانی اور سبقت الی الخیرات کا ریکارڈ موجود ہے تو باور کرلیا جائے گا کہ اس وقت جو قصور اس سے سرزد ہوا ہے وہ عدم ایمان واخلاص کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک کمزوری ہے جو وقتی طور پر رونما ہوگئی ہے۔ (3) اس کے آئندہ طرز عمل پر نظر رکھی جائے گی کہ آیا اس کا اعتراف قصور محض زبانی ہے یا فی الواقع اس کے اندر کوئی گہرا احساس ندامت موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے قصور کی تلافی کے لئے بےتاب ہے۔ محدثین کا بیان کردہ شان نزول : محدثین نے ان آیات کے شان نزول کا جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیات ابو البابہ بن عبد المنذر اور ان کے چھ ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھیں ابو لبابہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیعت عقبہ کے موقع پر ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے پھر جنگ بدر اور جنگ احد اور دوسرے معرکوں میں برابر شریک رہے مگر غزوہ تبوک میں کسی عذر شرعی کے بغیر شریک نہ ہوئے، ایسے ہی مخلص ان کے ساتھ تھے، جب آپ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے، اور ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ غزوہ میں شریک نہ ہونے والوں کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی کیا رائے ہے، تو انہیں سخت ندامت ہوئی، قبل اس کے کہ ان سے کوئی باز پرس ہوتی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ستون سے باندھ لیا اور اس وقت تک کھولے جانے پر راضی نہ ہوئے جب تک کہ ان کی توبہ قبول نہ ہوجائے چناچہ ایسا ہی ہوا اور ان کو آپ ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے ایک روز صبح کی نماز کے بعد کھول دیا اور ان کو توبہ کی قبولیت کی خوشخبری سنائی، ان حضرات نے اس کی خوشی اور صدقہ میں اپنا تمام مال آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا مگر آپ نے ثلث مال ہی قبول فرمایا۔ ملے جلے اعمال نیک وبد کیا تھے ؟ خَلطُوْا عَمَلاً صالحًا وآخر سیّئًا، اس آیت میں فرمایا کہ ان لوگوں کے کچھ اعمال نیک اور کچھ بد تھے، انکے نیک اعمال تو ان کا ایمان، روزہ نماز کی پابندی اور تبوک سے پہلے جہاد وغزوات میں شرکت اور اس واقعہ تبوک میں اپنے جرم کا اعتراف اور اس پر ندامت اور توبہ کرنا وغیرہ ہیں، اور برے اعمال عذر شرعی کے بغیر غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونا اور منافقوں کے ساتھ عملی موافقت تھی۔ جن مسلمانوں کے اعمال ملے جلے، اچھے برے ہوں وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں : اگرچہ یہ آیت ایک مخصوص جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر حکم اس کا قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے عام ہے بشرطیکہ وہ اپنے گناہوں سے تائب ہوجائیں۔ یعنی ان کے لئے بھی معافی اور مغفرت کی امید ہے۔ ابو عثمان (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس امت کے لئے بڑی امید دلانے والی ہے، اور صحیح بخاری میں بروایت سمرہ بن جندب ؓ معراج نبوی کی ایک تفصیلی حدیث میں ہے کہ ساتویں آسمان پر جب آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہوئی تو آپ نے ان کے پاس کچھ لوگ دیکھے جن کے چہرے روشن تھے اور کچھ ایسے کہ ان کے چہروں پر کچھ داغ تھے، یہ دوسرے قسم کے لوگ ایک نہر میں داخل ہوئے اور جب غسل کر کے واپس آئے تو ان کے چہرے بھی صاف تھے، جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کو بتایا کہ یہ سفید چہرے والے وہ لوگ ہیں کہ جو ایمان لائے اور گناہ سے اجتناب کیا '' الّذین آمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلمٍ '' اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملے جلے اچھے برے عمل کئے اور پھر توبہ کرلی، اور اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ (معارف) وَالَّذین اتخذوا مَسْجدًا ضرارًا (الآیة) اس آیت میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک مسجد بنائی تھی، مدینہ میں دو مسجدیں تو پہلے سے تھیں ایک مسجد قباء اور دوسری مسجد نبوی منافقوں نے ایک تیسری مسجد بنائی جس کو قرآن میں '' مسجد ضرار '' کہا گیا ہے اور نبی ﷺ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ بارش اور گرمی وسردی اور اس قسم کے موقعوں پر بیماروں اور کمزوروں کو زیادہ دور ہونے کی وجہ سے مسجد نبوی آنے میں دقت پیش آتی ہے ان کی سہولت کے لئے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے، آپ وہاں چل کر برکت کے طور پر نماز پڑھ پڑھ دیں۔ اس مسجد کے بنانے کا واقعہ جس کی تفصیل سابق میں گذر چکی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ میں قبیلہ خزرج کا ایک شخص جا کا نام ابو عامر تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی راہب بن گیا تھا اس کا شمار علماء اہل کتاب میں ہوتا تھا اور رہبانیت کی وجہ سے اس کی درویشی کا سکہ بھی مدینہ کے اطراف کے جاہلوں میں خوب چل رہا تھا، جب آپ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو اس کی مشیخت خوب چل رہی تھی یہ شخص آپ ﷺ کو اپنا حریف سمجھ کر مخالفت پر آمادہ ہوگیا، دو سال تک تو اسے یہ امید رہی کہ قریش کی طاقت ہی اسلام کو مٹانے کے لئے کافی ہوگی، لیکن جنگ بدر میں جب مشرکین مکہ نے شکست فاش کھائی تو اس سے ضبط نہ ہوسکا اور اسلام کے خلاف قریش اور دیگر قبائل میں تبلیغ شروع کردی اور تمام معرکوں میں یہ خود بھی دشمنوں کی جانب سے شریک جنگ رہا آخر کار جب اس کو اس بات سے مایوسی ہوگئی کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کے سیلاب کو روک سکے گی، اس نے عرب کو چھوڑ کر روم کا رخ کیا تاکہ قیصر کو اس خطرہ سے آگاہ کرے جو عرب سے اٹھ رہا تھا یہ وہی موقع تھا کہ جب مدینہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ قیصر عرب پر چڑھائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے اس کی روک تھام کے لئے آپ ﷺ کو تبوک کی مہم پر جانا پڑا۔ ابو عامر راہب کی ان تمام سرگرمیوں میں مدینہ کے منافقین کا ایک گروہ شریک سازش تھا، جب ابو عامر راہب روم روانہ ہونے لگا تو اس کے اور مدینہ کے منافقوں کے درمیان یہ تجویز منظور ہوئی کہ مدینہ میں اپنی ایک الگ مسجد بنائی جائے تاکہ اس میں اپنی منافقانہ سرگرمیوں کو جاری رکھا جاسکے اس طرح آسانی سے ان پر کوئی شبہ بھی نہ کرے گا، اور ابو عامر کے جو ایجنٹ مدینہ آیا کریں گے وہ بھی اس مسجد میں آسانی سے ٹھہر سکیں گے، یہ تھی وہ ناپاک سازش جس کے تحت وہ مسجد تیار کی گئی تھی، جب مسجد تیار ہوگئی تو اشرار و منافقین کی ایک جماعت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بطور برکت اس میں نماز پڑھنے کی درخواست کی مگر آپ نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں اس وقت جنگ کی تیاری میں مشغول ہوں آئندہ دیکھوں گا، اس کے بعد آپ تبوک کی طرف روانہ ہوگئے، واپسی پر جب آپ ﷺ مدینہ کے قریب ذی اوان کے مقام پر پہنچے تو مذکورہ آیات نازل ہوئیں، آپ نے اسی وقت چند آدمیوں کو مدینہ بھیج دیا تاکہ آپ کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے وہ اس مسجد ضرار کو مسمار کردیں۔
Top