Al-Qurtubi - At-Tawba : 100
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
آیت نمبر 100 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ جب اللہ تعالیٰ نے اعرابیوں کی اقسم ذکر کیں تو پھر اس نے مہاجرین وانصار کا ذکر کیا اور بیان فرمایا کہ ان میں سے پہلے پہلے ہجرت کرنے والے بھی ہیں اور ان میں سے ان کی اتباع اور پیروی کرنے والے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی۔ تحقیق ان کے طبقات اور ان کی اصناف کی تعداد میں اختلاف ہے۔ ہم اس میں سے کچھ ذکر کریں گے اور اس میں غرض اور مدعی بیان کریں گے انشاء اللہ تعالی۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے (آیت) والانصار کو (آیت) السابقون پر عطف کرتے ہوئے رفع کے ساتھ پڑھا ہے (2) (المحررالوجیز، جلد 3، صفحہ 74) ۔ اخفش نے کہا ہے : (آیت) الانصار میں جر اور کسرہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقون مہاجرین وانصار دونوں میں سے تھے۔ اور الانصار اسلامی نام ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے کہا گیا : تمہارے لیے لوگوں کے اس قول کے بارے تمہاری کیا رائے ہے۔ الانصار کیا یہ نام اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے یا زمانہ جاہلیت میں تمہیں اس کے ساتھ پکارا جاتا تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا : بلکہ یہ وہ اسم ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں یاد فرمایا ہے۔ اسے ابوعمر نے ” الاستذکار “ میں ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ مہاجرین وانصار میں سے (آیت) السابقون الاولون کو فضیلت دینے پر قرآن کریم کی نص موجود ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی۔ یہ حضرت سعید بن مسیب ؓ اور ایک جماعت کا قول ہے۔ اور امام شافعی ـ۔ کے اصحاب کے قول کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو بیعت رضوان میں حاضر ہوئے اور اس سے مراد بیعت حدیبیہ ہے۔ یہ حضرت شعبی۔ نے کہا ہے (1) (معالم التنزیل، جلد 3، صفحہ 98) ۔ اور محمد بن کعب اور عطابن یسار نے کہا ہے : وہ اہل بدر ہیں۔ اور تمام نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ جس نے تحویل قبلہ سے پہلے ہجرت کی تو وہ مہاجرین اولین میں سے ہے اس میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ اور رہے ان میں سے افضل تو وہ ترتیب یہ ہے : مسئلہ نمبر 3۔ ابومنصور بغدادی تمیمی نے کہا ہے : ہمارے اصحاب نے اس پر اجماع کیا ہوا ہے کہ ان میں افضل خلفائے اربعہ ہیں، پھر باقی چھ دس کی تکمیل تک، پھر اصحاب بدر، پھر اصحاب احد پھر بیعت رضوان یا حدیبیہ والے۔ مسئلہ نمبر 4۔ اور رہاوہ جوان میں سے سب سے اول اسلام لایاتومجاہد نے حضرت شعبی۔ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا، لوگوں میں اسلام لانے کے اعتبار سے اول کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ابوبکر ؓ ۔ کیا تو نے حضرت حسان ؓ کا قول نہیں سنا : اذا تذکرت شجوا من اخی ثقۃ فاذکر اخاک ابابکر بما فعلا جب تو قابل اعتماد اور ثقہ بھائی کے کارناموں اور جرأت کا تذکرہ کرے تو اپنے بھائی ابوبکر ؓ کے ان کارناموں کا ذکر کر جو انہوں نے کیے۔ خیر البریۃ اتقاھا واعدلھا بعد النبی واوفاھا بما حملا وہ حضور ﷺ کے بعد تقوی اور عدل کے اعتبار سے ساری مخلوق سے بہتر اور افضل ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرنے والے ہیں۔ الثانی التالی المحمود مشھدہ واول الناس منھم صدق الرسلا (2) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1003) وہ دوسرے ہیں، پیچھے آنے والے ہیں ان کی شہادت قابل ستائش ہے اور لوگوں میں سے سب سے پہلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ اور ابو الفرج علامہ جوزی۔ نے یوسف بن یعقوب بن ماجثون۔ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے اپنے باپ اور اپنے مشائخ محمد بن منکدر، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، صالح بن کیسان، سعد بن ابراہیم، عثمان بن محمد اخنسی کو اس حال میں پایا ہے کہ وہ اس بارے میں ذرا شک نہ کرتے تھے کہ قوم میں سے سب سے اول اسلام قبول کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہیں۔ اور یہی قول حضرت ابن عباس، حضرت حسان اور حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ کا ہے اور یہی حضرت ابراہیم نخعی نے بھی کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو سب سے اول اسلام لایاوہ حضرت علی ؓ ہیں (3) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 98) ۔ حضرت زید بن ارقم، حضرت ابو ذر اور حضرت مقداد وغیرہم ؓ سے یہی مروی ہے، حاکم ابو عبداللہ نے کہا ہے : میں اصحاب تواریخ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتا کہ ان میں حضرت علی ؓ سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو سب سے پہلے اسلام لائے وہ حضرت زید بن حارثہ ؓ ہیں (1) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 99) ۔ معمر نے حضرت زہری سے اسی طرح ذکر کیا ہے۔ اور یہی قول حضرت سلیمان بن یسار، عروہ بن زبیر اور عمران بن ابی انس ؓ کا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ نے اسلام قبول کیا (2) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 99) ۔ یہ کئی اسناد سے حضرت زہری۔ سے مروی ہے اور یہی قول حضرت قتادہ، محمد بن اسحاق بن یسار اور ایک جماعت کا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے۔ اور ثعلبی مفسر نے اس پر علماء کے اتفاق کا دعوی کیا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ سب سبے پہلے اسلام لائیں اور ان کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آپ کے بعد کون اسلام لایا ؟ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ حنظلی ان روایات کے در میں تطبیق کرتے ہیں، پس وہ فرماتے ہیں : مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اسلام لائے، عورتوں میں سے حضرت خدیجۃ الکبری ؓ اور بچوں میں سے حضرت علی ؓ اور آزاد کیے ہوئے غلاموں میں سے حضرت زید بن حارثہ ؓ اور غلاموں میں سے حضرت بلال ؓ (3) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 99) (سب سے پہلے اسلام لائے ) ۔ واللہ اعلم اور محمد بن سعد نے ذکر کیا ہے کہ مجھے مصعب بن ثابت نے خبر دی ہے انہوں نے کہا مجھے ابو الاسود محمد بن عبدالرحمن بن نوفل نے بتایا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد حضرت زبیر ؓ اسلام لائے اور وہ چوتھے یا پانچویں اسلام قبول کرنے والے فرد ہیں۔ لیث بن سعد نے بیان کیا ہے اور ابو الاسود نے مجھے بیان کیا ہے انہوں نے کہا : حضرت زبیر ؓ اسلام لائے اس وقت ان کی عمر آٹھ برس تھی اور روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے سات سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی عمر دس برس تھی۔ مسئلہ نمبر 5۔ محدثین کے طریقہ میں سے معروف یہ ہے کہ ہر وہ مسلمان جس نے رسول اللہ ﷺ کا دیدار کیا ہے وہ آپ ﷺ کے اصحاب میں سے ہے۔ امام بخاری۔ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ جس مسلمان نے حضور ﷺ کی صحبت اختیار کی یا آپ ﷺ کا دیدار کیا تو وہ آپ ﷺ کے اصحاب میں سے ہے (4) (صحیح بخاری، کتاب المناقب، جلد 1، صفحہ 515) ۔ اور حضرت سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے کہ وہ کسی کو صحابی شمار نہ کرتے تھے مگر اسے جو ایک یا دو سال تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مقیم رہا اور آپ ﷺ کی معیت میں ایک یا دو غذوئوں میں شریک ہوا۔ اگر حضرت سعید بن مسیب ؓ سے یہ قول صحیح ہے تو پھر یہ لازم کرتا ہے کہ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ کو یا جو کوئی اس ظاہری شرط کے نہ پائے جانے میں ان کے ساتھ شریک ہے انہیں صحابہ کرام میں شمار نہ کیا جائے حالانکہ یہ ان میں سے ہیں جنہیں صحابہ کرام میں سے شمار کرنے میں ہمیں کوئی اختلاف معلوم نہیں۔ مسئلہ نمبر 6۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مہاجرین میں سے اول السابقین حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہیں۔ اور علامہ ابن عربی نے بیان کیا ہے : یہ سبقت تین چیزوں کے ساتھ ثابت ہوتی ہے۔ الصفۃ اور وہ ایمان ہے (5) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1002) اور زمان ومکان۔ ان وجوہ میں اصل صفات میں سبقت لینا ہے۔ اور اس پر دلیل حضور ﷺ کا ارشاد ہے جو صحیح میں موجود ہے۔ ” ہم بعد میں آنے والے اولون ہیں مگر یہ کہ انہیں کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں کتاب ان کے بعد دی گئی پس یہ ان کا وہ دن ہے جس میں انہوں نے اختلاف کیا ہے پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے لیے ہدایت اور رہنمائی فرمائی پس یہودیوں کے لیے آنے والا کل ہے اور عیسائیوں کے لیے آنے والے کل کے بعد آنے والا دن (یعنی پرسوں) ہے “ (1) (صحیح بخاری، کتاب الجمع، جلد 1، صفحہ 120 ) ۔ رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے کہ سابقہ امم میں سے جنہوں نے زمان کے اعتبار سے ہم سے سبقت لی ہے تو ہم ایمان، اللہ تعالیٰ کے امر کی پیروی، اس کی بارگاہ میں عجز و انکساری، اس کے امر کو تسلیم کرنے، اس کی تکلیف کے ساتھ رضامندی کا اظہار کرنے اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو برداشت کرنے میں سبقت لے گئے ہیں، ہم اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے اور نہ اس کے ساتھ کسی اور کو اختیار کرتے ہیں، نہ رائے سے اس کی شریعت کو بدلتے ہیں جیسا کہ اہل کتاب نے کہا اور یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے جو وہ عطا فرمائے۔ اس کے آسانی پہچانے کے ساتھ ہے جس پر وہ راضی ہو۔ ہم ہدایت نہ پاسکتے اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نہ عطا فرماتا۔ مسئلہ نمبر 7۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : یہ آیت شریعت کے مناقب میں سے ہر منقبت کی طرف (آیت) السابقون الاولون کو فضیلت دینے کو متضمن ہے چاہے وہ علم ہو یا دین، شجاعت یا اس کے سوا کوئی اور وصف، اس کا تعلق مال عطا کرنے سے ہو یا اعزازوکرام میں رتبہ سے ہو۔ اس مسئلہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ کے درمیان اختلاف ہے۔ دوسروں پر عطا کے سبب سابقین کو فضیلت دینے کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ پس حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے مروی ہے کہ آپ اس سے لوگوں کے درمیان کسی کو فضیلت نہ دیتے تھے کہ ان میں سے بعض بعض کو عطا کرنے میں سبقت لے گئے۔ اور حضرت عمر ؓ آپ کو کہتے تھے : کیا آپ سبقت لے جانے والے کو اس کی طرح قرار دیتے ہیں جس کے لیے سبقت نہیں ہے ؟ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا : بلاشبہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیا اور اس کا اجر بھی اسی پر ہے۔ اور حضرت عمر ؓ اپنی خلافت کے دور میں فضیلت دیتے تھے۔ پھر آپ ؓ نے اپنے وصال کے وقت کہا : اگر میں کل تک زندہ رہاتو میں ضرور ادنی لوگوں کو اعلی کے ساتھ ملادوں گا، پھر اسی رات آپ ؓ کا وصال ہوگیا اور خلافت ہمارے آج دن تک اس اختلاف پر قائم ہے۔ قولہ تعالیٰ : والذین اتبعوھم باحسان “۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) حضرت عمر ؓ نے (آیت) ” والانصار “ رفع کے ساتھ پڑھا ہے (آیت) ” الذین “ کو انصار کی صفت قرار دے کر اس سے واؤ کو ساقط کردیا ہے، اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے انہیں رجوع کرا لیا، پس حضرت عمر ؓ نے ابی بن کعب ؓ سے پوچھا تو انہوں نے زید کی تصدیق کی تو حضرت عمر ؓ نے اس کی طرف رجوع کرلیا، اور کہا : ہم نہیں دیکھ رہے مگر یہ کہ ہم اتنے بلند مرتبہ پر فائز ہوئے کہ ہمارے ساتھ کوئی اور اسے نہیں پائے گا، تو حضرت ابی ؓ نے کہا : بلاشبہ میں کتاب اللہ میں سورة جمع کے شروع میں اس کا مصداق پاتا ہوں : (آیت) ” واخرین منھم لما یلحقوا بھم “۔ (الجمعہ : 3) (اور دوسرے لوگوں کا بھی اس میں سے (تزکیہ کرتا ہے تعلیم دیتا ہے) جو ابھی ان سے آکر نہیں ملے) اور سورة حشر میں ہے : (آیت) ” والذین جآء ؤ من بعدھم یقولون ربنا اغفرلناولاخواننا الذین سبقونا بالایمان “۔ (الحشر : 10) (اور اس مال میں) ان کا بھی حق ہے جو ان کے بعد آئے جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں بھی بخش دے اور ہماے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے) اور سورة الانفال میں یہ قول ہے : (آیت) ” والذین امنوا من بعد و ھاجروا وجھدوا معکم فاولئک منکم “۔ (الانفال : 75) (اور جو لوگ ایمان لائے بعد میں اور ہجرت بھی کی اور جہاد بھی کیا تمہارے ساتھ مل کر تو وہ بھی تمہی میں سے ہیں) پس قرات واؤ کے ساتھ ثابت ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے قول باحسان کے بیان کیا ہے کہ وہ امور خیر جن میں وہ ان کے افعال واقوال کی اتباع کرتے ہیں، نہ کہ ان میں جو ہفوات وزلات ان سے صادر ہوئیں، کیونکہ وہ معصوم نہیں رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین مسئلہ نمبر : (2) علماء نے تابعین اور ان کے مراتب میں اختلاف کیا ہے، پس الخطیب الحافظ نے کہا ہے : تابعی وہ ہے جسے صحابی کی صحبت اور معیت حاصل ہو، ان میں سے ہر ایک کو تابع اور تابعی کہا جاتا ہے، اور حاکم ابو عبداللہ وغیرہ کا کلام یہ شعور دلاتا ہے کہ اس میں اتنا کافی ہے کہ اس نے صحابی سے سماع کیا ہو یا اس سے ملاقات کی ہو اگرچہ صحبت عرفہ نہ پائی جائے، تحقیق یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک اہم تابعین کا اطلاق ان پر ہوتا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لائے جیسا کہ حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن عاص اور وہ جو فتح مکہ کے وقت اسلام لانے والوں میں سے ان کے قریب قریب ہیں، کیونکہ یہ ثابت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نیحضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی بارگاہ میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی شکایت کی، تو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے حضرت خالد کو فرمایا :” میرے لیے میرے صحابہ کو بلاؤ، پس قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی ہر روز احد پہاڑ کی مثل سونا خرچ کرے تو وہ ان کے ایک مد کو اور نہ اس کے نصف کو پہنچ سکتا ہے “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل جلد 2، صفحہ 310) اور تعجب کی بات ہے کہ حاکم ابو عبداللہ ؓ نے مقرن مزنی کے دو بیٹوں نعمان اور سوید کو تابعین میں شمار کیا ہے جب انہوں نے تابعین میں سے بھائیوں کا ذکر کیا، حالانکہ وہ دونوں معروف صحابی ہیں اور ان کا ذکر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں کیا گیا ہے اور وہ دونوں غزوہ خندق میں حاضر تھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، واللہ اعلم، اور اکبر التابعین اہل مدینہ میں سے فقہائے سبعہ ہیں اور وہ حضرت سعید بن مسیب، قاسم بن محمد، عروہ بن زبیر، خارجہ بن زید، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن عتبہ بن مسعود اور سلیمان بن یسار رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں اور بعض بزرگوں نے انہین ایک شعر میں نظم کردیا ہے اور کہا ہے : فخذھم عبیداللہ عروۃ قاسم سعید ابوبکر سلیمان خارجہ : اور امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا ہے : تابعین میں سے سب سے افضل حضرت سعید بن مسیب ہیں، تو آپ کو کہا گیا ان کے متصل بعد علقمہ اور اسود ہیں، تو آپ نے فرمایا : حضرت سعید بن مسیب اور علقمہ اور اسود۔ (یعنی یہ تینوں فضیلت کے ایک درجے میں ہیں) اور ان سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : تابعین میں سے افضل قیس، ابو عثمان، علقمہ اور مسروق ہیں، یہ تمام فاضل ہیں اور تابعین کے بلند رتبہ میں سے ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا : حضرت عطا مکہ مکرمہ کے مفتی تھے اور حضرت حسن، بصرہ کے مفتی تھے، پس یہ دو ہیں جو دوسروں کی نسبت زیادہ مال دار اور عام میل جول سے بچنے والے تھے، اور ابوبکر بن ابی داؤد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : عورتوں میں سے تابعین کی سردار حفصہ، بنت سیرین اور عمرہ بنت عبدالرحمن ہیں اور ان کے ساتھ تیسری ام الدرداء ہیں اور وہ ان دو کی طرح نہیں ہے، حاکم ابو عبداللہ سے روایت ہے انہوں نے کہا : ایک طبقہ تابعین میں شمار کیا جاتا ہے اور ان میں سے کسی کا صحابہ کرام سے سماع صحیح نہیں، ان میں سے حضرت ابراہیم بن سوید نخعی ہیں اور یہ ابراہیم بن یزید نخعی فقیہ نہیں ہے، اور بکر بن ابی السمیط اور بکر بن عبداللہ الاشج ہیں، اور ان کے سوا کوئی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے : اور ایک طبقہ ہے جن کا شمار لوگوں کے نزدیک اتباع التابعین میں ہے، حالانکہ انہوں نے صحابہ کرام سے ملاقات کی ہے، ان میں سے ابو الزناد عبداللہ بن ذکوان ہیں، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت انس ؓ سے ملاقات کی ہے۔ اور ہشام بن عروہ ہیں انہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس لایا گیا اور حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت موسیٰ بن عقبہ ؓ کے پاس لایا گیا، تحقیق انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو بھی پایا ہے، اور ام خالد بنت خالد بن سعید بھی ہیں۔ اور تابعین میں ایک طبقہ ہے جنہیں مخضر میں کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عہد جاہلیت اور رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو پایا اور انہوں نے اسلام قبول کیا اور انہیں شرف صحبت حاصل نہ ہوا ان کی واحد مخضرم (راء کے فتحہ کے ساتھ) ہے کا نہ خضرم، یعنی گویا یہ اپنے ہم زمانہ ان لوگوں سے کٹ گیا جنہوں نے صحابیت وغیرہ کا رتبہ پالیا۔ امام مسلم (رح) نے ان کا ذکر کیا ہے اور ان کی تعداد بیس افراد تک پہنچی ہے، ان میں سے ابو عمر وشیبانی، سوید بن غفلہ کندی، عمرو بن میمون الاودی، ابو عثمان النہدی عبد بن خبر بن یزید الخیرانی (یہ خا کے فتحہ کے ساتھ ہے) اور یہ ہمدان خاندان سے ہے، عبدالرحمن بن ہل، ابو رحمۃ اللہ علیہھلال العتکی ربیعہ بن زرارہ ہیں، اور ان میں سے وہ جن کا مسلم نہیں کیا، ان میں سے ابو مسلم الخولانی عبداللہ بن ثوب اور اخنف بن قیس ہیں۔ یہ ان صحابہ کرام اور تابعین کی معرفت کے بارے مختصر تذکرہ ہے جن کی فضیلت کا ذکر قرآن کریم نے کیا، رضوان اللہ علیہم اجمعین، اور ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کافی ہے : (آیت) ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “۔ (آل عمران : 110) (ہو تم بہترین امت جو ظاہر کی گئی ہے (لوگوں) کی ہدایت وبھلائی کے لیے) جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا “۔ الآیہ (البقرہ : 143) (اور اس طرح ہم نے بنا دیا تمہیں (اے مسلمانو ! ) بہترین امت) اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” میں نے پسند کیا کہ اگر ہم اپنے بھائیوں کو دیکھ لیں “ (1) (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، جلد 1، صفحہ 127) الحدیث : پس آپ ﷺ نے ہمیں اپنا بھائی قرار دیا، اگر ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہے اور اس کے احکام کی ہم نے پیروی کی تو اللہ تعالیٰ اپنے گروہ میں اٹھائے گا اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اور آپ کی آل کے وسیلہ سے وہ ہمیں اپنے راستے اور اپنے دین سے نہیں ہٹائے گا۔
Top