Mafhoom-ul-Quran - Al-Ankaboot : 63
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
اور مہاجرین اور انصار میں جو لوگ سبقت کرنے والے ، سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی تو اللہ ان سے خوشنود ہوا وہ اللہ سے خوشنود ہوئے اور اللہ نے ان کیلئے باغ تیار کردیئے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور یہی ہے بہت بڑی فیروز مندی
سابقون الاولون کے درجات سب کے درجات سے سوا ہیں : 131: قرآن کریم نے نیک لوگوں کے لئے بھی تین درجات قائم کئے ہیں۔ درجہ اول میں السابقون الاولون ہیں اور درجہ دون میں دائیں والوں کو رکھا گیا ہے اور درجہ ثالثہ عام مسلمانوں کا ہے۔ پھر ان تینوں اقسام میں ہر ایک کی ضمنی اقسام بھی بیان کی گئی ہیں تفصیل کی اس جگہ گنجائش نہیں اس جگ ان پاک ہستیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کو مہاجرین و انصار کے نام سے موسوم کیا گیا جنہوں نے اللہ کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو اس وقت قبول کیا جب کہ اس کو قبول کرنا لوہے کے چنے چپانے کے مترادف تھا اور جس دعوت کو قبول کر کے ہزاروں مصیبتوں اور تکلیفوں کو دعوت دینا سمجھتا جاتا تھا۔ اس وقت اسلام کی اعانت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا جب اسلام بڑی بےکسی کی حالت میں تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے ان مخلص جانباز اور پاکباز بندوں پر ناز ہے اور ساری انسانیت کو ان پر فخر ہے جنہوں نے حق کو محض اس لئے قبول کیا اور اس کو محض اس لئے قبول کیا اور اس کو فروغ دینے اور مرتبہ کمال تک پہنچانے کے لئے اپنے وطن چھوڑنے ، اپنے خونی رشتے توڑے ، اپنے سر کٹائے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان مخلص ، جانباز اور پاکباذ بندوں پر راضی ہوگیا اور اس کے ان بندوں نے جب دیکھا کہ ان کے رب کریم نے ان کی ان قربانیوں کو شرف قبول عطا فرمایا ہے تو وہ اس کی شان بندہ پروری اور ذرہ نوازی کو دیکھ کر راضی ہوگئے۔ زیر نظر آیت میں ذرا گہرائی میں اتر کر دیکھیں کہ اس جگہ ” السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ “ ان کے متبعین کی نسبت فرمایا : ” رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ “ ، ” اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے “ اس مقام کا ایک پہلو قابل غور ہے جس پر لوگوں کی نظر نہیں پڑی یعنیو رَضُوْا عَنْهُ پر کیوں زور دیا گیا ؟ اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ اللہ ان سے خوشنود ہوا کیونکہ ان کے اعمال اللہ کی خوشنودی ہی کے لئے تھے۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ کیوں کہی گئی کہ وہ بھی اللہ سے خوشنود ہوئے۔ اس لئے کہ ان کے ایمان و اخلاص کا اصلی مقام بغیر اس کے نمایاں نہیں ہو سکتا تھا۔ انسان جب کبھی کسی مقصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور مصیبتوں سے دو چار ہوتا ہے تو دو طرح کی حالتیں پیش آتی ہیں کچھ لوگ جوانمرد اور باہمت ہوتے ہیں وہ بلاتامل ہر طرح کی مصیبتیں جھیل لیتے ہیں لیکن ان کا جھیلنا جھیل لینا ہی ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں ہوتی کہ مصیبتیں انکے لئے مصیبتیں نہ رہی ہوں ، عیش و راحت ہوگئی ہوں کیونکہ مصیبت پھر مصیبت ہے۔ باہمت آدمی کڑوا گھونٹ بغیر کسی جھجھک کے پی لے گا لیکن اس کی کڑواہٹ کی بدمزگی ضرور محسوس کرے گا لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف باہمت ہی نہیں کہنا چاہئے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ سمجھنا چاہئے۔ ان میں صرف ہمت و جوانمردی ہی نہیں ہوتی بلکہ عشق و شیفتگی کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مصیبتوں کو مصیبتوں کی طرح نہیں جھیلتے بلکہ عیش و راحت کی طرح ان سے لذر و سرور حاصل کرتے ہیں۔ راہ محبت کی چھبن میں انہیں ایسی راحت ملے جو کسی کو پھولوں کی بیج پر لوٹ کر نہیں مل سکتی۔ حتیٰ کہ اس راہ کی مصیبتیں جس قدر بڑھتی جاتی ہیں ان کے لئے صرف اس بات کا تصور کہ یہ سب کچھ کسی کی راہ میں پیش آرہا ہے اور اس کی نگاہیں ہمارے حال سے بیخبر نہیں ، عیش و سرکار کا ایک ایسا بےپایاں جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ اس کی سرشاری میں جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ بات سننے میں تمہیں عجیب معلوم ہوتی ہوگی لیکن فی الحقیقت حالت میں اتنی عجیب نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے معمولی واردات میں سے ہے اور عشق و محبت کا مقام تو بہت بلند ہے ، بو الہوسی کا عالم بھی ان واردات سے خالی نہیں۔ حریف کاوش مثرگان خونزیرش نہ ناصحو٭ بہ دست اور رگ جانے و نشتر راتما شاکن ! السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کی محبت ایمانی کا یہی حال تھا۔ ہر شخص جو ان کی زندگی کے سوانح کا مطالعہ کرے گا ، بےاختیار تصدیق کرے گا کہ انہوں نے راہ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی پوری زندگیاں ان میں بسر کر ڈالیں۔ ان میں سے جو لوگ اول دعوت میں ایمان لائے تھے ، ان پر شب و روز کی جان کا ہیوں اور قربانیوں کے پورے تئیس برس گزر گتے لیکن اس تمام مدت میں کہیں سے بھی یہ بات دکھائی نہیں دیتی کہ مصیبتوں کی کڑواہٹ ان کے چہروں پر کبھی کھلی ہو۔ انہوں نے مال و علائق کی ہر قربانی اس جوش و مسرت کے ساتھ کی ، گویا دنیا جہاں کی خوشیاں اور راحتیں ان کے لئے فراہم ہوگئی ہیں اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تو اس طرح خوش خوش گردنیں کٹوا دیں گویا زندگی کی سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں بلکہ موت میں تھی۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے اتنی عمریں نہیں پائیں کہ اسلام کی غربت کے ساتھ اسلام کا عروج و اقبال بھی دیکھ لیتے اور ” عدی بن حاتم “ کی طرح کہہ سکتے ” کست فی من افتح کنوز کسریٰ “ (عدی بن حاتم سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا : لتفتحن کنوز کسیٰ ایسا ضرور ہونے والا ہے کہ تم کسریٰ کے خزانے فتح مند کھولو گے وکنت فی من افتح کنوز کسریٰ یہ پیشگوائی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے کسریٰ کا خزانہ کھولا تھا۔ بخاری) تاہم جب دنیا سے گئے تو اس حالت میں گئے کہ ان سے زیادہ عیش و خوش حالی میں شاید ہی کسی نے دنیا چھوڑی ہو ” بد “ اور ” احد “ کے شہیدوں کے حالات پڑھو۔ ایمان لانے کے بعد جو کچھ بھی ان کے حصے میں آیا وہ بجز رات دن کی کا ہشوں اور مصیبتوں کے اور کیا تھا ؟ اور پھر قبل اس کے کہ اسلام کی فتح و کامرانیوں میں شریک ہونے کا موقع ملتا ، دشمنوں کی تیغ وسنان سے چود میدان جنگ میں دم توڑ رہے تھے لیکن پھر بھی غور کرو ان کے دل کی شادمانیوں کا کیا حال تھا ؟ اس اطمینان و سکون کے ساتھ عیش و نشاط کے بستروں پر کسی نے جان نہ دی ہوگی ، جس طرح انہوں نے میدان جنگ کی رتیلی زمین پر لوٹ لوٹ کردی ؟ جنگ احد میں سعد بن ربیع کو لوگوں نے دیکھا زخمیوں میں پڑے سانس توڑ رہے ہیں۔ پوچھا ، کوئی وصیت کرنی ہو تو کرو۔ کہا ، اللہ کے رسول ﷺ کو میرا سلام پہنچا دینا اور قوم سے کہنا ، ان کی راہ میں جانیں نثار کرتے رہیں۔ عمارہ بن زیادہ زخموں سے چور ، جان کئی کی حالت میں تھے کہ آنحضرت ﷺ سرہانے پہنچ گئے۔ فرمایا ، کوئی آرزو ہو تو کہہ دو ۔ عمارہ نے اپنا زخمی جسم گھسیٹ کر اور زیادہ قریب کرلیا اور اپنے سر آپ ﷺ کے قدموں پر رکھ دیا کہ اگر کوئی آرزو ہوسکتی ہے تو صرف یہی ہے۔ منم و ہمیں تمنا کہ بہ وقت جاں سپردن٭ بہ رخ تو دیدہ ہاشم ، تو دردن دیدہ ہاشمی عورتوں کا یہ حال تھا کہ بیک وقت انہیں ان کے شوہر ، بھائی اور باپ کے شہید ہوجانے کی خبر پہنچائی جاتی تھی اور وہ کہتی تھیں یہ تو ہوا مگر بتلاؤ ، اللہ کے رسول کا کیا حال ہے ؟ پھر جب آپ ﷺ کا جمال جہاں آراء نظر آتا تو بےاختیار خوش ہو کر پکارا اٹھتیں کل میصبۃ بعدث جلل تو اگر سلامت ہے تو پھر دنیا کی ساری مصیبتیں ہمارے لئے شہد شکر کا گھونٹ ہوگئیں۔ من و دل گرفتا شدیم ، چہ باک ! ٭ غرض آندر میان سلامت اوست تاریخ اسلام میں جنگ حنین پہلی جنگ ہے جس میں بکثرت مال غنیمت ہاتھ آیا ، چوبیس ہزار اونٹ ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی کا ذکر روایات میں ملتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ سابقون الاولوں کو مال و دولت سے وافر حصہ ملتا لیکن آنحضرت ﷺ نے ان باشندگان مکہ کو ترجح دی کہ فتح مکہ کے بعد نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور انصار مدینہ کے حصہ میں کچھ نہ آیا کیونکہ آپ کے پیش نظر تو مسلموں کی تالیف قلب تھی۔ یہ حالت دیکھ کر بعض نوجوانوں کو خیال ہوا ، اہل مکہ سے لڑے تو ہم لیکن آج مال غنیمت کا حصہ انہیں مل رہا ہے۔ بات آنحضرت ﷺ تک پہنچ تو آپ ﷺ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا : ” الا ترضون ان یذھب الناس بالشاۃ والبعیر ، وتذھبون بالنبی الیٰ رحالکم “ کیا تمہاری خوشنودی کے لئے یہ بات کافی نہیں کہ یہ لوگ یہاں سے مال غنیمت کے حصے لے کر جائیں اور تم اللہ کے نبی کو اپنے ساتھ لے جاؤ ؟ انصار بےاختیار پکار اٹھے : رضینا یا رسول اللہ ! رضینا ، ہم خوشنود ہیں یا رسول اللہ ! ہم خوشنود ہیں ! (صحیحین) اور پھر غور کرو ، جو لوگ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ 1ۙ میں داخل ہوئے ، انہیں بھی کس درجہ اس مقام سے حصہ وافر ملا تھا ؟ دنیا میں شاید ہی کسی عورت کے دل میں اپنے عزیزوں کے لئے ایسی محبت پیدا ہوئی ہوگی جیسی جاہلیت کی مشہور شاعرہ ” خنساء “ کے دل میں تھ اس نے جو مرشے اپنے بھائی صخر کے غم میں کہے ہیں ، تمام دنیا کی شاعری میں اپنی نظیر نہیں رکھتے۔ یذ کرنیطلوع الشمس صخرا٭ واذکرہ بکل غروب شمس ! لیکن ایمان لانے کے بعد اسی خنساء کی نفسیاتی حالت ایسی منقلب ہوگئی کہ جنگ قادسیہ میں اپنے تمام لڑکے ایک ایک کر کے کٹوا دیئے اور جب آخری لڑکا بھی شہید ہوچکا تو پکار اٹھیں الحمد اللہ الذی الکرمی بشھادتھم ۔ پس وَ رَضُوْا عَنْهُ میں اشارہ اسی طرف ہے کہ اللہ اور اس کے کلمہ حق کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آیا انہوں نے اسے جھیلا ہی نہیں بلکہ کامل محبت ایمانی کی وجہ سے اس میں خوشحال و خوشنود رہے اور یہی مقام ہے جو ان کے درجے کو تمام مدراج ایمان و عمل میں ممتاز کردیتا ہے۔
Top