Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 167
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
ذکر اعیان مومنین و فضائل سابقین اولین قال اللہ تعالیٰ ۔ و السابقون الاولون۔۔۔ الی۔۔۔ ذلک الفوز العظیم (ربط): اوپر کی آیت میں مومنین اعراب کا ذکر تھا جو متوسط درجہ کے مومن تھے اب اس آیت میں اعیان مومنین یعنی چیدہ اور پسندیدہ مسلمانوں کا ذکر ہے جن کو ایمان کا اعلی مرتبہ حاصل تھا۔ یعنی سابقین اولین اور مہاجرین وانصار کے فضائل و مراتب کا ذکر ہے جن کو سبقت اور اولیت کا شرف حاصل ہوا اور یہ طبقہ امت کے تمام طبقوں سے افضل ہے چناچہ فرماتے ہیں اور مہاجرین اور انصار میں سے قبول اسلام اور ہجرت اور نصرت میں سب امت سے سبقت کرنے والے اور سب سے اول رہنے والے اور جن لوگوں نے ان کے بعد ایمان اور اخلاص کے ساتھ ان سابقین اولین کی پیروی کی اور ان کے نقش قدم پر چلے تو ان سب سے اللہ راضی ہوا کہ ان کی طاعت اور خدمت کو ہجرت اور نصرت کو اور ان کی متابعت کو قبول کیا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے کہ وہ خدا سے دین ودنیا کی نعمتیں پاکر خوش ہوئے۔ اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے درختوں اور مکانات کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ہمیشہ ان باغوں میں رہیں گے۔ یہی بڑی ہے کامیابی کہ اللہ ان سے راضی ہوا۔ لطائف ومعارف 1 ۔ سابقین اولین کی تفسیر میں علماء تابعین کے مختلف اقوال آئے ہیں ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ سابقین اولین سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے دو قبلوں کی طرف نماز پڑھی بیت المقدس کی طرف بھی اور کعبہ کی طرف بھی یعنی قبلہ بیت المقدس کے منسوخ ہونے سے پہلے جو لوگ ایمان لائے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ لوگ مراد ہیں جو جنگ بدر میں شریک ہوئے امام خر الدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس جگہ سابقین اولین سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہجرت اور نصرت میں سابق اور اول ہیں کیونکہ سابقین اولین کا لفظ مجمل ہے جس میں یہ نہیں فرمایا کہ کس چیز میں سابق اور اول ہیں پھر ان کو مہاجرین اور انصار کے ساتھ موصوف فرمایا معلوم ہوا کہ صفت ہجرت اور صفت نصرت میں سبقت اور اولیت مراد ہے۔ 2 ۔ اور والذین اتبعوھم سے وہ لوگ مراد ہیں جو سابقین اولین کے بعد آئے اور ان کے نقش قدم پر چلے خواہ وہ صحابہ ؓ ہوں یا تابعین رحمہم اللہ ہوں یا تبع تابعین یا ان سے بھی بعد۔ غرض یہ کہ والذین اتبعوھم سے تمام وہ لوگ مراد ہیں جو مہاجرین اور انصار کی پیروی کریں۔ خواہ وہ کسی زمانے میں ہوں۔ وہ سب جنت کے مستحق ہیں اور خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش پس یہ آیت قیامت تک جملہ مسلمانوں کو شامل ہے جو صحابہ کے طریقہ پر ہوں اوراقوال وافعال میں ان کے پیرو ہوں بغیر صحابہ کے اتباع اور پیروی کے خدا کی رضا اور جنت نہیں مل سکتی اور اہل سنت والجماعت کا یہی طریقہ ہے کہ انبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی سنت اور جماعت صحابہ کرام کے طریقہ پر چلتے ہیں اس لیے ان کو اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے۔ 3 ۔ اس آیت سے صحابہ کا مومن کامل ہونا معلوم ہوا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کافر اور منافق سے راضی نہیں ہوتا۔ کما قال تعالیٰ ان اللہ لا یرضی عن القوم الکافرین۔ ان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین۔ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نہ کافر تھے اور نہ فاسق۔ الغرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین اور انصار کی مدح فرمائی اور انہیں جنت کی خوشخبری دی اور ان کو اپنی خوشنودی کا پروانہ عطا کیا کہ اللہ ان سے راضی ہوا یہ وہ عظیم فائز المرامی ہے کہ اس کے بعد کامیابی کا کوئی درجہ باقی نہیں رہتا اس آیت نے منکرین صحابہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوری۔ اس آیت نے تمام مہاجرین اور انصار کا ایمان ثابت کر کے فرقۂ امامیہ کے عقیدہ کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اس لیے کہ آیت میں جس قدر وعدے ہیں وہ سبقت ہجرت پر اور نصرت پر موقوف ہیں ایمان اور اعمال صالحہ کا ذکر نہیں۔ 3 ۔ اس آیت میں حق جل شانہ نے صحابہ کرام کے لیے بلا کسی شرط کے اپنی رضا اور مغفرت اور جنت کا وعدہ فرمایا بخلاف تابعین کے یعنی بعد میں آنے والوں کے لیے یہ قید لگا دی گئی کہ بشرطیکہ وہ مہاجرین اور انصار کا اتباع کریں اور اعمال اور افعال میں ان کے طریقہ پر چلیں۔ ازالۃ الخفاء۔
Top