Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 55
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
فَلَا تُعْجِبْكَ : سو تمہیں تعجب نہ ہو اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُهُمْ : ان کی اولاد اِنَّمَا : یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ عذاب دے انہیں بِهَا : اس سے فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : اور وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
سو تو تعجب نہ کر ان کے مال اور اولاد سے یہی چاہتا ہے اللہ کہ ان کو عذاب میں رکھے ان چیزوں کی وجہ سے دنیا کی زندگی میں اور نکلے ان کی جان اور وہ اس وقت تک کافر ہی رہیں1
1 شبہ گزر سکتا تھا کہ جب یہ ایسے مردود ہیں تو ان کو مال و اولاد وغیرہ نعمتوں سے کیوں نوازا گیا ہے۔ اس کا جواب دیا کہ یہ نعمتیں ان کے حق میں بڑا عذاب ہیں، جس طرح ایک لذیذ اور خوشگوار غذا تندرست آدمی کی صحت و قوت کو بڑھاتی ہے اور فاسد الاخلاط مریض کو ہلاکت سے قریب تر کردیتی ہے۔ یہ ہی حال ان دنیاوی نعمتوں (مال و اولاد وغیرہ) کا سمجھو، ایک کافر کے حق میں یہ چیزیں سوئے مزاج کی وجہ سے زہرہلاہل ہیں۔ چونکہ کفار دنیا کی حرص و محبت میں غریق ہوتے ہیں، اس لیے اول اس کے جمع کرنے میں بیحد کوفت اٹھاتے ہیں۔ پھر ذرا نقصان یا صدمہ پہنچ گیا تو جس قدر محبت ان چیزوں سے ہے، اسی قدر غم سوار ہوتا ہے اور کوئی وقت اس کے فکر و اندیشہ اور ادھیڑ بن سے خالی نہیں جاتا۔ پھر جب موت ان محبوب چیزوں سے جدا کرتی ہے اس وقت کے صدمے اور حسرت کا تو اندازہ کرنا مشکل ہے۔ غرض دنیا کے عاشق اور حریص کو کسی وقت حقیقی چین اور اطمینان میسر نہیں۔ چناچہ یورپ و امریکہ وغیرہ کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے اقوال اس پر شاہد ہیں۔ باقی مومنین جو دولت اور اولاد کو معبود اور زندگی کا اصلی نصب العین نہیں سمجھتے، چونکہ ان کے دل میں حب دنیا کا مرض نہیں ہوتا اس لیے یہ ہی چیزیں ان کے حق میں نعمت اور دین کی اعانت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر کفار کثرت مال و اولاد پر مغرور ہو کر کفرو طغیان میں اور زیادہ شدید ہوجاتے ہیں جو اس کا سبب بنتا ہے کہ اخیر دم تک کافر ہی رہیں۔ نیز منافقین مدینہ جن کے حق میں یہ آیات نازل ہوئیں، ان کا حال یہ تھا کہ بادل نخواستہ جہاد وغیرہ کے مواقع پر ریاء و نفاق سے مال خرچ کرتے تھے اور ان کی اولاد میں بعض لوگ مخلص مسلمان ہو کر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوتے تھے، یہ دونوں چیزیں منافقین کے منشائے قلبی کے بالکلیہ خلاف تھیں، اس طرح اموال و اولاد ان کے لیے دنیا میں عذاب بن گئے تھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " یعنی یہ تعجب نہ کرے کہ بےدین کو اللہ نے نعمت کیوں دی، بےدین کے حق میں اولاد اور مال وبال ہے کہ ان کے پیچھے دل پریشان رہے اور ان کی فکر سے چھوٹنے نہ پائے مرتے دم تک، تاکہ توبہ کرے یا نیکی اختیار کرے۔ "
Top