Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 30
قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
قَالَ : اس نے کہا لَقَدْ كُنْتُمْ : تحقیق تم رہے اَنْتُمْ : تم وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے باپ دادا فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی میں مُّبِيْنٍ : صریح
یہودی کہتے ہیں کہ عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔29 یہ بے حقیقت باتیں ہوتی ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کُفر میں مبتلا ہوئے تھے۔30 خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں
سورة التَّوْبَة 29 عُزَیر سے مراد عزرا (ezra) ہیں جن کو یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں۔ ان کا زمانہ سن 450 قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان ؑ کے بعد جو دور ابتلاء بنی اسرائیل پر آیا اس میں نہ صرف یہ کہ توراۃ دنیا سے گم ہوگئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان، عبرانی تک سے ناآشنا کردیا تھا۔ آخر کار انہی عزیر یا عزرا نے بائیبل کے پرانے عہد نامے کو مرتب کیا، اور شریعت کی تجدید کی۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض یہودی گروہوں نے ان کو ابن اللہ تک بنادیا۔ یہاں قرآن مجید کے ارشاد کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام یہودیوں نے بالاتفاق عزرا کاہن کو خدا کا بیٹا بنایا ہے بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا کے متعلق یہودیوں کے اعتقادات میں جو خرابی رونما ہوئی وہ اس حد تک ترقی کرگئی کہ عزرا کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے بھی ان میں پیدا ہوئے۔ سورة التَّوْبَة 30 یعنی مصر، یونان، روم، ایران اور دوسرے ممالک میں جو قومیں پہلے گمراہ ہوچکی تھیں ان کے فلسفوں اور اوہام و تخیلات سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے بھی ویسے ہی گمراہانہ عقیدے ایجاد کرلیے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو المائدہ حاشیہ 101
Top