Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 54
قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
قَالَ : اس نے کہا لَقَدْ كُنْتُمْ : تحقیق تم رہے اَنْتُمْ : تم وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے باپ دادا فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی میں مُّبِيْنٍ : صریح
آپ نے کہا کہ تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں مبتلا رہے ہو۔
قَالَ لَقَدْکُنْـتُمْ اَنْـتُمْ وَ ٰ ابَـآؤُکُمْ فِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ ۔ (الانبیاء : 54) (آپ نے کہا کہ تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں مبتلا رہے ہو۔ ) بت پرستی صریح گمراہی ہے بت پرستی ایک صریح گمراہی ہے۔ کوئی صاحب دانش آدمی اس کی تائید نہیں کرسکتا اور کسی اللہ تعالیٰ کے نبی نے کبھی اسے گوارا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اس کی مذمت کی۔ اس لیے جس طرح آج بت پرستی گمراہی ہے اسی طرح تمہارے آبائواجداد کے زمانے میں بھی گمراہی تھی۔ آج تم اس گمراہی میں مبتلا ہو، ماضی میں وہ مبتلا رہ چکے ہیں۔ تمہیں ہوش و خرد اور ہدایت کی روشنی میں اپنے طرزفکر اور طرز عمل کی اصلاح کرنی چاہیے نہ کہ آبائواجداد کی گمراہیوں کو سند بنا لینا چاہیے۔ یہ کہنا کہ ہم وہی کچھ کررہے ہیں جو ہمارے آبائواجداد کیا کرتے تھے یہ صرف ایک دلیل نہیں بلکہ اس میں باپ دادا کی حمیت و عصبیت بھی شامل ہے۔ کوئی شخص یہ سننا پسند نہیں کرتا کہ میرے آبائواجداد کو گمراہ کہا جائے۔ اس لیے جب اہل باطل اپنے آبائواجداد کا حوالہ دیتے ہیں تو وہ درحقیقت لوگوں کو داعی حق کیخلاف اکساتے ہیں کہ یہ شخص کس قدر خطرناک ہے جو تمہارے آبائواجداد کے خلاف باتیں کرتا اور ان کو گمراہ بتاتا ہے۔ چناچہ اس انگیخت کے بعد لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہمیں کیا کہا جارہا ہے، وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کہنے والا ہمارے آبائواجداد کی توہین کررہا ہے۔ اس لیے جاہل لوگوں کو ایسی کسی بات کی دعوت دینا جس کی زد ان کے آبائواجداد پر پڑتی ہو، نہایت خطرناک ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت عزیمت کے ساتھ اس کام کو انجام دیا۔ آپ ( علیہ السلام) جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، لیکن آپ ( علیہ السلام) نے ہر خطرے کا سامنا کرتے ہوئے نہایت بےخوفی کے ساتھ توحید کی دعوت ان کے سامنے پیش کی۔ وہ لوگ چونکہ ایسی باتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ کوئی شخص علی الاعلان بےخوف و خطر ان کے بتوں پر تنقید کرے گا اس لیے انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کو سن کر کہا :
Top