Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 140
اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِ١ۚ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَۙ
اِنْ : اگر يَّمْسَسْكُمْ : تمہیں پہنچا قَرْحٌ : زخم فَقَدْ : تو البتہ مَسَّ : پہنچا الْقَوْمَ : قوم قَرْحٌ : زخم مِّثْلُهٗ : اس جیسا وَتِلْكَ : اور یہ الْاَيَّامُ : ایام نُدَاوِلُھَا : ہم باری باری بدلتے ہیں انکو بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ معلوم کرلے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَيَتَّخِذَ : اور بنائے مِنْكُمْ : تم سے شُهَدَآءَ : شہید (جمع وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اگر پہنچا تم کو زخم تو پہنچ چکا ہے ان کو بھی زخم ایسا ہی208 اور یہ دن باری باری بدلتے رہتے ہیں ہم ان کو لوگوں میں اور اس لئے کہ معلوم کرے اللہ جن کو ایمان ہے   اور کرے تم میں سے شہید اور اللہ کو محبت نہیں ظلم کرنیوالوں سے209
208 یہ جہاد سے متعلق مذکورہ شبہ کا علی سبیل الترقی جواب ہے اور القوم سے مشرکین مراد ہیں۔ اور فَقَدْ مَسَّ الْقَوْم جزائے محذوف کے قائم مقام ہے مثلاً فَلَا تَحْزَنُوْا یعنی اگر احد میں تم نے مشرکین کی طرف سے زتو اس کا غم مت کرو وہ بھی تو بدر میں تمہارے ہاتھوں شکست کھاچکے ہیں۔ اگر احد میں تم کو شکست ہوئی تو یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی یہ بھی ممکن ہے کہ جزائے محذوف فلا تضعفوا (بحر ص 62 ج 3، مدارک ص 143 ج 1) یعنی اگر احد میں تم کو شکست ہوئی ہے تو تم اس سے شکستہ خاطر نہ ہوجاؤ اور نہ آئندہ کے لیے جہاد میں کمزوری دکھاؤ تم دیکھتے نہیں کہ بدر میں مشرکین کو تمہارے ہاتھوں بری طرح شکست ہوئی مگر اس کے باوجود وہ کمزور نہیں ہوئے اور احد میں تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے لاؤ لشکر لے کر پہنچ گئے۔ جنگ احد میں ستر مسلمان شہید اور ستر زخمی ہوئے تھے۔ 209 وَلِیَعْلَمَ میں واو عاطفہ ہے۔ اور اس کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ ای لیکون کیت وکیت ولیعلم الخ۔ اور معطوف علیہ محذوف اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس طرف اشارہ ہوجائے کہ مداولت ایام سے مقصد صرف کھرے کھوٹے کا اظہار ہی نہیں۔ بلکہ اس میں اور بھی کئی مصلحتیں ہیں۔ (کبیر ص 82 ج 3) لیکن حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ واؤ زئداہ ہے اور لِیَعْلَمَ ما قبل کی علت ہے۔ اور یَتَّخِذَ ، لِیَعْلَمَ پر معطوف ہے اور علم سے یہاں اظہار اور تمیز مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ازل ہی سے سب کو جانتا ہے اور شہداء سے شہداء احد مراد ہیں واراد بھم شہداء احد کما قالہ الحسن قتادۃ وابن اسحاق (روح ص 69 ج 4) حاصل آیت یہ ہوا کہ ہم فتح وشکست کو تمہارے دشمنوں کے درمیان اس لیے گھماتے ہیں تاکہ مومنوں اور منافقوں کو ظاہر کر کے ایک دوسرے سے ممتاز اور الگ کردیں اور خوش قسمت مومنوں کو درجہ شہادت سے سرفراز کریں۔ ای لیری اللہ الذین ایمنوا فیمیز المؤمن من المنافق ویتخذ منکم شھداء یکرم اقواما بالشھادة (معالم ص 357 ج 1) ۔ وَاللہُ لَا یُحِبُّ الظَّا لِمِیْنَ یعنی ان کافروں ظالموں کی وقتی فتح سے ان کے حق پر ہونے کا تو کسی کے دل میں وسوسہ بھی نہ آئے اللہ تعالیٰ تو ان کو پسند ہی نہیں کرتا۔ کافروں کی یہ ہنگامی کامیابیاں تو اللہ کی تکوینی مصلحتوں کے تحت رونما ہورہی ہیں۔
Top