Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 27
تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ١٘ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ١٘ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
تُوْلِجُ : تو داخل کرتا ہے الَّيْلَ : رات فِي النَّهَارِ : دن میں وَتُوْلِجُ : اور داخل کرتا ہے تو النَّهَارَ : دن فِي الَّيْلِ : رات میں وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے الْحَيَّ : جاندار مِنَ : سے الْمَيِّتِ : بےجان وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے الْمَيِّتَ : بےجان مِنَ : سے الْحَيِّ : جاندار وَتَرْزُقُ : اور تو رزق دیتا ہے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
تو داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرے دن کو رات میں37 اور تو نکالے زندہ مردہ سے اور نکالے مردہ زندہ سے  اور تو رزق دے جس کو چاہے بیشمار
37 :۔ یہ بھی مع معطوفات منادی سے حال یا اس کی صفت ہے۔ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے سے دن رات کا چھوٹا بڑا ہونا مراد ہے۔ مثلاً اگر رات کا کچھ حصہ دن میں داخل ہوجائے جیسا کہ موسم گرما میں ہوتا ہے تو دن بڑا ہوجاتا ہے اور اگر دن کا کچھ حصہ رات میں شامل ہوجائے تو رات بڑی ہوجاتی ہے۔ یہ حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور حسن وغیرھم سے منقول ہے ای تدخل ما نقص من احدھما فی الآخر (قرطبی ج 4 ص 54) اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے لیل ونہار کا اختلاف اور رات دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا مراد ہے۔ وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ۔ حضرت حسن بصری کا قول ہے کہ زندہ سے مراد مومن اور مردہ سے مراد کافر ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ مومن سے کافر اور کافر سے مومن پیدا کرتا ہے جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) سے کنعان اور آزر سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ یخرج المومن من الکافر کا براھیم من اٰزر والکافر من المومن مثل کنعان من نوح (علیہ السلام) (کبیر ج 2 ص 643، قرطبی ج 4 ص 56) ور بعض مفسرین کا قول ہے کہ مردہ سے مراد نطفہ اور انڈا ہے۔ جو جاندار سے نکلتے ہیں اور زندہ سے مراد جاندار ہیں جو نطفہ اور انڈے سے پیدا ہوتے ہیں (کبیر، قرطبی وغیرہ ) ۔ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغِیْرِ حِسَابٍ ۔ یہاں تک صفتیں تمام ہوئیں اور مقصود بالنداء محذوف ہے ای اقض حاجتی یعنی ای مالک الملک الخ میری ہر حاجت پوری کر۔
Top