Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 27
تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ١٘ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ١٘ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
تُوْلِجُ : تو داخل کرتا ہے الَّيْلَ : رات فِي النَّهَارِ : دن میں وَتُوْلِجُ : اور داخل کرتا ہے تو النَّهَارَ : دن فِي الَّيْلِ : رات میں وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے الْحَيَّ : جاندار مِنَ : سے الْمَيِّتِ : بےجان وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے الْمَيِّتَ : بےجان مِنَ : سے الْحَيِّ : جاندار وَتَرْزُقُ : اور تو رزق دیتا ہے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
ہاں ہاں ! تو ہی ہے جو رات کو دن میں لے آتا ہے اور دن کو رات میں ، جاندار کو بےجان سے نکالتا ہے اور بےجان کو جاندار سے اور جسے چاہتا ہے بےحساب بخش دیتا ہے
تصرفات الٰہی کی ایک مثال پیش کی جارہی ہے : 69: پیچھے تصرفات الٰہی کا ذکر کیا تھا اب اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے تاکہ بات کی وضاحت ہوجائے اور اچھی طرح انسان کے ذہن میں بیٹھ جائے کہ جو کچھ ہے سب قبضہ قدرت الٰہی میں ہے اس سے باہر کچھ نہیں۔ ” تورات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ “ غور طلب بات یہ ہے کہ جب رات دن میں داخل ہوتی ہے تو کیا رات رات بھی رہتی ہے اور دن میں بھی داخل ہوجاتی ہے ؟ نہیں جتنی رات دن میں داخل ہوتی ہے وہ دن ہوجاتا ہے اور رات نہیں رہتی۔ اسی طرح جب دن رات میں داخل ہونا شروع ہوتا ہے تو جتنا دن رات میں داخل ہوجاتا ہے وہ دن دن نہیں رہتا بلکہ رات ہوجاتا ہے۔ گویا یہ بیان ہے رات دن کے گھٹنے اور بڑھنے کا۔ پھر ایسا کیوں ہے ؟ یہ سب کچھ خال یاز حکمت نہیں اس کمی بیشی میں انسانی زندگی کے کتنے فائدے ہیں موسم کے اس تغیر و تبدل میں کیا کچھ راز پنہاں ہیں ؟ اگر یہ کچھ نہ ہوتا تو کیا انسانی زندگی کا قیام ممکن تھا ؟ اس پر قوموں کے عروج وزوال پر قیاس کرلو۔ جب کوئی قوم عروج پر ہوتی ہے تو اس کی قومی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جب کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس کو اس کی قومی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس طرح موسموں کا تغیر بغیر کسی مقصد کے نہیں بالکل اسی طرح قوموں کا عروج وزوال بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں۔ جس طرح رات دن کی کمی بیشی میں ایک الٰہی قانون کام کر رہا ہے بالک اسی طرح قوموں کے عروج وزوال میں بھی الٰہی قانون جاری وساری ہے۔ یہاں بغیر ضرورت اور بغیر مقصد کے کچھ نہیں۔ انسان کی سمجھ میں وہ مقصد اور ضرورت آئے یا بالکل نہ آئے۔ انسان اس مقصد اور ضرورت پر غور کرے یا بالکل نہ کرے۔ یاں جو کچھ ہے سب کا سب باقاعدہ ایک نظم و نسق کے تحت ہے۔ اس سے کیا سمجھایا جارہا ہے ؟ جب انسان ایک طرف کافروں اور نافرمانوں کے کرتوت دیکھتا ہے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں کس طرح پھل پھول رہے ہیں دوسری طرف اہل ایمان کی اطاعت شعاریاں دیکھتا ہے اور پھر ان کو اس فقروفاقہ اور ان مصائب و آلام کا شکار دیکھتا ہے جن میں خود نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام 3 ھ کے لگ بھگ زمانے میں مبتلا تھے تو قدرتی طور پر اس کے دل میں ایک عجیب حسرت آمیز استفہام گردش کرنے لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہاں اسی استفہام کا جواب دیا ہے اور ایسے لطیف پیرائے میں دیا ہے کہ اس سے زیادہ لطافت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اچھا ! اس قانون قدتر پر ذرا غور کرو کہ دن رات میں کمی بیشی ، تسلیم ، کیا تم نے کبھی ایسا بھی دیکھا کہ آج رات 14 گھنٹے کی اور دن 10 گھنٹے کا ہے۔ لیکن معاً کل دن 14 گھنٹے کا اور رات 10 گھنٹے کی ہوجائے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں نہ کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ ہی ہوگا۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ اس قانون قدرت کے خلاف ہے جو اس ذال الٰه نے دن کی کمی بیشی کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ پھر تم یہ ضد نہ کرو کہ ہم رب کو تب ہی رب مانیں گے کہ آج اور کل میں معاً دو یا چار گھنٹے کا فرق کر کے دکھائے۔ بالکل اسی پر قیاس کرلو آج جو قوم من حیث القوم مردہ نظر آتی ہے حالانکہ اس کے اندر اللہ اور اس کے رسول کے سارے دشمن جمع ہیں۔ یہ حالت خود بخود اس بات کی دلیل ہے کہ جو قوم تم کو آج مردہ نظر آرہی ہے وہ دراصل زندہ ہے اور جو قوم من حیث القوم تم کو زندہ نظر آرہی ہے وہ زندگی کے آخری سانس پر ہے دن گزرنے دو ۔ وقت نکلنے دو تم خود دیکھو گے کہ کونسی قوم زندہ ہے اور کون سی قوم مردہ۔ پھر غور کرو کہ ابھی ٹھیک سات سال بھی نہیں گزرے تھے کہ یہ بات روشن ہو گئی تھی یا نہیں ؟ سو یاد رکھو کہ قوموں کی حیات و ممات کا اصول بھی اللہ کے ہاں طے شدہ اصول ہے۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ دنیا ہی میں حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے جسے اٹھنا ہے وہ اٹھ کھڑا ہو اور جسے گرنا ہے وہ گرا دیا جائے۔ پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ اٹھنا کس کے لیے تھا اور گرنا کس کا مقدر بن گیا۔ ” اے اللہ تو بےجان سے جاندار نکالتا ہے۔ “ اس کی مثالیں کائنات کی کھلی کتاب میں عام ہیں اور کتب آسماین کے اندر بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھنا ہی ہے تو اس مثال کو دیکھو۔ قرآنی اوراق میں اس کو بار بار بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے : وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً 1ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ.(االانعام 6 : 74) ” اور دیکھو جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کیا تم ان بتوں کو معبود مانتے ہو ؟ میرے نزدیک تو تم اور تمہاری ساری قوم کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ کفر کی موت مرچکا تھا اللہ نے اس مردہ باپ سے ابراہیم جیسا زندہ و تابندہ انسان پیدا فرما کر ” تُخْرِجُ الْحَىَّ مِنَ الْمَیِّتِ “ کی مثال پیش فرما دی جس میں غور کرنے والوں کے لیے سینکڑوں نشانیاں موجود ہیں۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے کی داستان سے کون ناواقف ہے ذرا قرآن کریم کی اس آیت پر غورکرو۔ ارشاد ہوتا ہے : وَ نَادٰى نُوْحُ ا۟بْنَهٗ وَ کَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَ لَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِیْنَ. قَالَ سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ 1ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ 1ۚ وَ حَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ.(ھود 11 : 42 ۔ 43) ” اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پکارا وہ کنارے پر کھڑا تھا کہ اے میرے بیٹے ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا کافروں کے ساتھ نہ رہ۔ اس نے کہا ، میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا وہ مجھے پانی کی زد سے بچا لے گا۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا تو کس خیال خام میں پڑا ہے ؟ آج اللہ کی ٹھہرائی ہوئی اس بات سے بچانے والا کوئی نہیں مگر ہاں ! وہی جس سے رحم کرے اور دیکھو ! دونوں کے درمیان ایک موج حائل ہو گئی پس وہ انہیں میں ہوا جو ڈوبنے والے تھے۔ “ نوح (علیہ السلام) جیسے زندہ بلکہ اسلامی زندگی کے داعی جیسے باپ سے آپ کے اس بیٹے جیسا مردہ انسان پیدا فرما کر اللہ تعالیٰ نے ” تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَىِّ “ کی مثال پیش فرما دی جس میں غور کرنے والوں کے لیے ان گنت نشانایاں موجود ہیں۔ اس طرح کی مزید مثالوں پر غور کرنا ہو تو سورة الکہف کی پچاسی آیت اور سورج الاحقاف کی آیت سترہ کا بغور مطالعہ کرو اور انڈے سے مرغی اور مرغی سے انڈے کی مثال تو آپ پڑھتے اور دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ ” بےحساب “ رزق دینے کا مطلب کیا ہے ؟ اور روزی رساں کون ؟ 70: اس کا یہ مطلب تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ جس کو چاہے اتنا رزق دے دیتا ہے کہ اس کو حساب بھی نہ ہو کہ میں نے کتنا دے دیا ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ جس کو رزق دیا گیا ہے اس کو یہ حساب نہ رہے کہ اس کو کتنا رزق دیا گیا ہے کیونکہ رزق دینے والا اللہ ہے اور جس کو رزق دیا گیا ہے وہ انسان ہے۔ انسان کے حساب میں ایک چیز نہ آئے ممکن ہے لیکن اللہ کے حساب میں نہ رہے یہ ممکن نہیں۔ لیکن یہاں بغیر حساب کے رزق دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو کسی کام سے اتنا رزق عطا فرما دے جتنا کہ اس کام سے رزق حاصل کرنے کا انسان کو وہم و گمان بھی نہ ہو اور ایسا اکبر ہوتا ہی رہتا ہے۔ چناچہ دوسری جگہ خود قرآن کریم نے اس کی وضاحت بھی فرما دی ہے۔ جہاں فرمایا : وَیَرْزُقُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ. (الطلاق 65 : 3) ” اور اللہ اسے ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں سے کچھ ملنے کا اسے خیال تک نہ تھا۔ “ کیوں اور کیسے ؟ اس لیے رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے : 1: ” اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا اور وہی تم کو روزی دیتا ہے۔ “ (الروم 30 : 40 ) 2: ” اسی نے تمہارے لیے معیشت کے سامان پیدا کیے اور جانوروں کی قسم سے بھی ایسی ایسی چیزیں پیدا فرما دیں جن کو تم روزی نہیں دیتے۔ “ (الحجر 15 : 20) 3: ” ذرا بتاؤ تو سہی کہ کتنے جانور ہیں جو اپنی اپنی روزی اٹھائے پھرتے ہیں۔ اللہ ہی تو ہے جو ان کو بھی اور تم کو بھی روزی دیتا ہے۔ “ (العنکبوت 20 : 60) 4: ” اللہ تعالیٰ تم سے رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہے کہ تم اسے کھلاؤ ۔ وہ تو خود روزی دینے والا صاحب قوت اور متین ہے۔ “ (طہٰ 20 : 32) (الذاریات 51 : 57۔ 58 ) 5: ’ ’ ذرا بتاؤ تو سہی کہ کون ہے جو تم کو آسمان و زمین سے روزی دیتا ہے۔ ارے وہی اللہ تو ہے۔ “ (السباء 34 : 42)
Top