Jawahir-ul-Quran - Az-Zukhruf : 20
وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ١ؕ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ١ۗ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَؕ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ : اگر چاہتا رحمن مَا عَبَدْنٰهُمْ : نہ ہم عبادت کرتے ان کی مَا لَهُمْ : نہیں ان کے لیے بِذٰلِكَ : ساتھ اس کے مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم اِنْ هُمْ : نہیں وہ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ : مگر اندازے لگا رہے ہیں
اور کہتے ہیں اگر14 چاہتا رحمان تو ہم نہ پوجتے ان کو کچھ خبر نہیں ان کو اس کی یہ سب اٹکلیں دوڑاتے ہیں
14:۔ ” وقالوا لوشاء “ یہ شکوی ہے۔ جب مشرکین لاجواب ہوجاتے ہیں تو مشیت خداوندی کی آڑ لیتے ہیں کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ہم فرشتوں کی عبادت نہ کرتے اور انہیں خدا کے نائب نہ بناتے۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو ہمیں اس سے زبردستی روک دیتا جب وہ ہمارے اور ان کی عبادت کے درمیان حائل نہیں ہوا، تو معلوم ہوا کہ وہ اس پر خوش ہے۔ ” مالہم بذلک من علم الخ “ یہ جواب شکوی ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کا ارادہ کسی فعل کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ حسن و قبح اور خیر و شر سب اس کے ارادے ہی سے ہو رہا ہے اس کے ارادے کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے سے اور دلائل انفس و آفاق سے حق و باطل کو واضح کر کے ہر انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے دونوں میں سے ایک کو منتخب کرلے تاکہ امتحان و ابتلاء کا تقاضا پورا ہو، لیکن اس کی رضا اور خوشنودی صرف نیک کاموں ہی سے متلعق ہے۔ باقی رہا کسی فعل کے جواز کی دلیل کا سوا، تو دلیل، عقل و نقل اور وحی ہی سے پیش کی جاسکتی ہے۔ اور ان مشرکین کے پاس شرک کے حق میں ان تینوں دلیلوں میں سے کوئی بھی دلیل موجود نہیں۔ مالہم بذلک من علم الخ۔ اس میں دلیل عقلی کی نفی کی گئی ہے کہ ان کے پاس فرشتوں کے معبود اور نائب خدا ہونے پر کوئی عقلی دلیل موجود نہیں، وہ جو کچھ کہتے ہیں محض اٹکل اور تخمین ہی سے کہتے ہیں۔ ای یقولون قولا باطلا بالظن والتخمین (مظہری ج 8 ص 343) ۔
Top